• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں اکثر لوگوں کی سوچ پر ہمہ وقت سیاست اور اسکی نیرنگیاں چھائی رہتی ہیں،شادی سے لیکر غمی غرض یہ کہ ہر قسم کی محفل اور ماحول میں تان آخر سیاست پر ٹوٹتی ہے اور لوگ اس حد تک جذباتی ہو جاتے ہیں کہ نونک جھونک سے شروع ہونے والے بحث مباحثے اکثر اوقات لڑائی میں تبدیل ہو جاتے ہیں،اس قسم کے درجنوں واقعات اس گناہگار نے بارہا اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھے ہیں،دونوں اطراف ہجوم دوستاں کی وجہ سے کبھی بھی کوئی واضح پوزیشن لینے کی حیثیت میں نہیں تھا جس سے دونوںجانب مورچہ سنبھالے آخر میں مجھ سے بھی ناراض ہو گئے۔ اس پر مستزاد یہ کہ میں بھی کئی بار بڑے الزامات کی زد میں آیا ہوں، کئی دوستوں کا شکوہ تھا کہ کشمیری ہونے کی وجہ سے مجھے علی اعلان جمہوریت کے حق میں بولنا چاہئے جس سے میری دانست میں ان کا مطلب ن لیگ کو سپورٹ کرنا مقصود تھا، اسی قبیل کے چند دوستوں نے تو مجھ پرغیر جمہوری قوتوںکی حمایتی ہونے کا الزام بھی جڑ دیا، حق تو یہ ہے اس بندہ نابکار کو بچپن سے ہی تناؤ بھرے ماحول میں زندگی گزارنی پڑی ہے اسلئے میں نے زیادہ تر اس طرح کی الزام تراشی کو سنجیدہ لینے کے بجائے اس سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیتیں پیدا کیں ہیں، اگرچہ میری خاموشی سے میرے خلاف لگائے جانے والے الزامات کو ایک طرح سے اعتبار کی سند مل جانے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔
اس قدر سیاست زدہ ماحول میں اس بات کی توقع رکھنا قدرتی ہے کہ پاکستان کے لوگ اتنے بالغ نظر ہونگے کہ وہ نہ صرف سوچ سمجھ کر بلکہ کافی پرکھ کر ہی اپنے لیڈروں کو چنتے ہونگے،مگر یہاں ہرانتخاب کے بعد وہی کہنہ مشق سیاستدان نئے رنگ و روپ میں دوبارہ آجاتے ہیں اور زندگی اسی پرانی ڈگر پر چلتی ہوئی انہی موضوعات کے گرد گھومتی رہتی ہے۔لوگ پھر وہی شکوے شکایات کا پلندہ اٹھائے زندگی کے دائرہ سفر میں کھو ہوجاتے ہیں. ویسے بھی ہر لمحہ بدلتی ہوئی پاکستانی سیاست پورے خطے میں منفرد اور یکتا ہے اور اس سوپ اوپیرا کی مانند ہے جس کے خالق اور کردار دونوں اسکے انجام سے اتنے ہی بے خبر ہیں جتنے کہ یہاں کے عام لوگ ہیں جنہیں ویسے بھی یہاں کی وڈیرہ مزاج جمہوریت انسان ہی نہیں سمجھتی مبادا کہ وہ واقعی انسانوں جیسے حقوق کی مانگ کرنا شروع کردیں اور یوں سچ میں جمہوریت کے مزاج برہم نہ ہو جائیں۔گزشتہ جمعرات کو بھارت سے آمد پر واہگہ بارڈر سے لاہور تک واپسی پر جس ٹیکسی پر سفر کیا اسکے ڈرائیور بھارت کے بارے میں کافی متجسس تھے، ابھی گاڑی میں بیٹھے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ انھوں نے بھارت کے بارے میں پوچھنا شروع کردیا،امرتسر سے آتے ہوئے میں گھریلو استعمال کی کئی چیزوں – سرسوں کے تیل سے لیکر ٹوتھ برش اور اسنیکس – کا ایک پورا کارٹن اپنے ساتھ لایا تھا، کچھ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد بالاخر انھوں یہ سوال کر ہی ڈالا کہ میں وہاں سے یہ چیزیں کیوں لایا؟ جب میں نے عرض کی کہ وہاں سے چیزیں پاکستان کے مقابلے میں کافی بہتر اور کم قیمت پر مل جاتی ہیں تو وہ اپنے والد مرحوم کا ذکر کر بیٹھے جو اسی کی دہائی میں بھارت سے باتھ روم سینیٹری کا سامان تھوک میں لاتے تھے جو انکے والد مرحوم کے بقول پاکستان میں تیار شدہ مال کے مقابلے میں بہت معیاری ہوتا تھا، ساتھ ہی انھوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان آزادانہ تجارت کی صورت میں یہاں کی بیشتر صنعتیں تباہ ہو جائیں گی کیونکہ لوگ اپنے ملک کے مقابلے میں بھارتی مال کو ترجیح دیں گے۔
بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں میں رہتے ہوئے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں عام لوگوں کو جس قدر مہنگائی اور غیر معیاری مصنوعات پر گزارہ کرنا پڑتا ہے وہ واقعی حیران کن ہےاور تو اور یہاں عام استعمال کی ادویات کی ہوشربا گرانی اسقدر عام ہے کہ کبھی کبھی حیرانی ہوتی ہے کہ اول عام انسان کیسے گزر بسر کرتے ہیں اور دوم وہ آئے روز ہونے والی اس درجہ جبر و زیادتی اور بے انصافیوں کو کیونکر برداشت کرتے ہیں،کئی دہائیوں تک حکومت کرنے والے خاندان لکھ پتی سے کھرب پتی بن گئے مگر لندن، پیرس اور نیو یارک بنانے کے دعویدار یہ لیڈرملک میں کوئی ڈھنگ کا اسپتال بھی نہیں بنا سکے، یہی وجہ ہے کہ سندھ سے لیکر پنجاب تک بسنے والے عام باشندوں کو آج کل معمولی سمجھے جانے والے آپریشنز کیلئے بھی بھارت سے ویزا کی بھیک مانگنی پڑرہی ہے، مگر پاکستان کی جمہوریت اسقدر اندھی اور جذبات سے عاری ہوگئی ہے کہ کسی کو عام انسانوں کے مسائل کا نہ ہی ادراک ہے اور نہ ہی کوئی فکر۔ ڈرائیور سے میری گفتگوکافی بے تکلفی سے ہورہی تھی اور بات بالآخر پاکستانی سیاست پر آگئی، میں نے پہلے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ وہ اگلے الیکشن میں ووٹ کس کو دیں گے؟ انہوں نے تاسف بھرے لہجے میں کہا کہ انکا دل کرتا ہے کہ اس بار وہ کسی کو بھی ووٹ نہ دیں کیونکہ بقول انکے’’یہاں کے سارے سیاستدان چور ہیں‘‘ کچھ توقف کے بعد وہ خود ہی بولے کہ وہ اگلے الیکشن میں عمران خان کو ووٹ دیں گے،جب میں نے اسکی وجہ پوچھی تو انھوں نے گول مول سا جواب دیا کہ خان صاحب کو ابھی تک حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا ہے اسلئے انہیں بھی چانس ملنا چاہئے۔ جوہر ٹاؤن کے رہائشی ذیشان کا گھرانہ اگرچہ روایتی طور پر مسلم لیگ (ن) کا حلیف ہے مگر وہ اپنے بقول ہمیشہ عمران خان کے حامی رہے ہیں، جب میں نے ان سے پوچھا کہ پچھلے الیکشن میں انہوں نے کس کو ووٹ دیا تو انہوں نے کھسیانی سی ہنسی نکالتے ہوئے بتایا کہ نون لیگ کو، میرے حیرت زدہ منہ کی طرف دیکھتے ہوئے خود ہی گویا ہوئے: ’’دراصل ہم لوگ پارٹیوں کو نہیں شخصیتوں کو ووٹ ڈالتے ہیں، پچھلے الیکشن میں نون لیگ کی طرف سے ایک عزیز کھڑے ہوئے تھے اس لئے مجبوراً انہیں ووٹ ڈالنا پڑا‘‘وہ حال ہی میں تحریک انصاف کی لاہور میں منعقدہ ریلی سے بڑے متاثر نظر آئے جو انکے مطابق کافی کامیاب رہی،تو کیا وہ ریلی میں شامل تھے؟ ’’سر ہم جیسے سفید پوشوں کے خرچے مشکل سے پورے ہوتے ہیں، ہم ریلیوں میں جانے لگے تو گھر میں فاقوں کی نوبت آجائے گی‘‘. پھر یہ کون لوگ ہیں جو ان ریلیوں میں جاتے ہیں، میں نے پوچھا. ’’یہ یا تو لیڈروں کے خاص حمایتی جنہیں کوئی نہ کوئی فائدہ ہوتا ہے یا مزدور جنہیں دیہاڈی پر لایا جاتا ہے‘‘. تحریک انصاف والے بھی؟ میں نے ابھی آدھا ہی سوال کیا تھا کہ وہ بول اٹھے ’’سر یہاں سب ہی ایک جیسے ہیں‘‘. میں نے ایک لمبی آہ بھری تو وہ میری طرف مڑ کر مجھے دلاسہ دینے کے انداز میں گویا ہوئے:’’سر اِن شاءللہ حالات ضرور بدل جائیں گے‘‘۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین