• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آفتاب شیرپاؤ کے بعد احسن اقبال دوسرے وزیرداخلہ، جو نشانہ بنائےگئے

آفتاب شیرپاؤ کے بعد احسن اقبال دوسرے وزیرداخلہ، جو نشانہ بنائےگئے

لاہور ( صابر شاہ) ملک بھر کی اندرونی سلامتی کے اعلیٰ ترین حکومتی ذمہ دار وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال‘ آفتاب شیر پائو کے بعد دوسرے پاکستانی وزیر داخلہ ہیں جنہوں نے خوش قسمتی سے موت کو چکمہ دیدیا۔اپنے آبائی علاقے نارووال میں اتوار کی شام احسن اقبال خود پر ہونیوالے ایک ناکام حملے میں زخمی ہوگئے، جس سے آئندہ انتخابات میں بیلٹ کی مشق سے چند ماہ قبل انتخابی مہم کے دوران ملک کے سیاسی رہنمائوں کی سکیورٹی کے حوالے سے خدشات پیدا اور سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔جہاں تک احسن اقبال کے پیشرو آفتاب شیرپائو کا تعلق ہے تو ان پر اب تک 4 حملے ہوچکے ہیں جن میں وہ محفوظ رہے، شیر پائو جو سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں طالبان کے خلاف آپریشن اور لال مسجد سانحہ کی نگرانی کرتے رہے‘ ان پر پہلا حملہ 28 اپریل 2007ء کو 10 فٹ سے بھی کم فاصلے سے کیا گیا۔ اگرچہ شیرپائو حملے میں بچ گئے تاہم ٹانگوں پر چھرے اور دھماکا خیز مواد کے ٹکڑے لگنے سے انہیں شدید زخم آئے۔ ایک خودکش بمبار نے چارسدہ میں خود کو اڑا دیا تھا جس سے کم ازکم 28 افراد جاں بحق اور 40 سے زائد زخمی ہوئے۔ اس وقت شیرپائو جو خیبر پختونخوا کے 14ویں اور 18 ویں وزیراعلیٰ رہے ہیں‘ چارسدہ ٹائون میں اپنی پارٹی کے کارکنوں سے خطاب کے بعد اپنی جیپ کی طرف آرہے تھے۔ 21 دسمبر 2007ء کو شیرپائو کو ایک اور بار خودکش بمبار نے نشانہ بنایا جس نے جامع مسجد شیرپائو میں عیدالاضحی کی نماز کے دوران دھماکا خیز مواد سے خود کو اڑا دیا تھا۔اس واقعے میں کم ازکم 67 افراد جاں بحق اور 70 کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ شیرپائو اس حملے میں بھی بچ گئے مگر ان کے چھوٹے بیٹے مصطفیٰ خان اس واقعے میں زخمی ہوئے۔ شیرپائو نے اسمبلیوں کی تحلیل اور ملک میں عام انتخابات سے صر ف ایک ماہ قبل وزارت داخلہ کا قلمدان چھوڑ دیا تھا۔ 4 مارچ 2012ء کو خوش قسمت شیرپائو ایک اور قاتلانہ حملے میں بچ گئے جبکہ اس واقعے میں ایک پولیس اہلکار اور ایک چھوٹی بچی جاں بحق ہوگئی۔ یہ واقعہ پشاور کے علاقے شبقدر میں ہوا۔ یہ دھماکا اس وقت ہوا جب پاکستان پیپلز پارٹی ( شیر پائو) کی عوامی ریلی ختم ہوئی اور پارٹی رہنما واپس جارہے تھے۔ 2 اپریل 2015ء میں چارسدہ میں چوتھی بار شیرپائو کو نشانہ بنایا گیا۔ا س حملے میں بھی قسمت کی دیوی ایک بار پھر ان پر مہربان رہی اور وہ بال بال بچ گئے۔ اتفاقاً احسن اقبال بھی ان خوش قسمت پاکستانی سیاستدانوں کے کلب میں شامل ہوگئے ہیں جو ان حملوں میں بچ نکلے جن کا مقصد ان کی جا ن لینا تھا۔مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خوش قسمت شخصیات:۔ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو 21 دسمبر 1991ء کو نشانہ بنایا گیا جو ناکام رہا۔ 14 دسمبر 2003ء کو جنرل مشرف اس وقت قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے جب راولپنڈی میں ان کے قافلے کے گزر جانے کے چند لمحوں بعد طاقتور بم کے ذریعے ایک پل کو اڑا دیا گیا تھا۔ بظاہر مشرف کو ان کی لیموزین میں نصب آلے نے بچایا جس نے ریموٹ کنٹرول بم کو جام کردیا اور وہ ان کا قافلہ گزر جانے کے بعد پھٹا۔ اسی سال 25 دسمبر کو مشرف کے قتل کی ایک اور کوشش کی گئی مگر اس وقت کے صدر معجزانہ طور پر بچ گئے۔ 10 جون 2004ء کو اس وقت کے کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل احسن سلیم حیات قاتلانہ حملے میں بچ نکلے جب مسلح افراد نے ان کے قافلے پر فائرنگ کردی۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز پر 30 جولائی 2004ء کو فتح جنگ ضلع اٹک میں ایک انتخابی ریلی کے دوران ناکام حملہ کیا گیا۔ 2 اگست 2004ء کو اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان جام محمد یوسف اس وقت قاتلانہ حملے میں بچ نکلے جب نامعلوم افراد نے ان کے قافلے پر حملہ کردیا۔ 6 جولائی 2007ء کو جنرل مشرف اپنے اوپر ہونے والے ایک اور حملے میں بچ نکلے جب راولپنڈی میں سب مشین گن سے ان کے جہاز پر 36 گولیاں فائر کی گئیں۔ 9 نومبر 2007ء کو اس وقت کے وفاقی وزیر سیاسی امور‘مسلم لیگ ق کے صوبائی صدر امیر مقام اپنی رہائش گاہ پر ہونے والے خودکش حملے میں بچ نکلے۔ امیر مقام اب تک 7 قاتلانہ حملے سہار چکے ہیں جو پاکستان میں کسی بھی شخص پر ہونے والے حملوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو 18 اکتوبر 2007ء کو ایک قاتلانہ حملے میں محفوظ رہیں مگر اسی سال دو ماہ بعد 27 دسمبر 2007ء کو وہ ایک اور حملے کا شکار ہوگئیں۔ 2 اکتوبر 2008ء کو ولی باغ چار سدہ میں اے این پی کے لیڈر اسفندیار ولی کے گھر کو خودکش حملے میں نشانہ بنایا گیا مگر انہیں نشانہ نہ بنایا جاسکا۔6 اکتوبر 2008ء کو مسلم لیگ ن کے ایم این اے رشید اکبر نوانی بھکر میں اپنے گھر میں ہونے والے ایک حملے میں محفوظ رہے، اس حملے میں 20 افراد جاں بحق اور 60 زخمی ہوئے تھے۔ 2 ستمبر 2009ء میں اس وقت کے مذہبی امور کے وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی اسلام آباد میں ایک شدید حملے میں زخمی ہوگئے تھے‘ اس واقعے میں ان کا ڈرائیور اور پولیس گارڈ جاں بحق ہوگئے۔17 نومبر 2009ء کو پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل نظام شاہد درانی کوئٹہ میں ایک دھماکے میں شدید زخمی ہوگئے۔ 4 ستمبر 2008ء کو اسلام آباد ہائی وے پر چھپے نشانہ بازوں نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے زیر استعمال ایک کار پر گولیاں ماریں۔ 20 جنوری 2010ء کو اے این پی کے ایک رہنما اورنگزیب خان پشاور بم دھماکے میں شدید زخمی ہوئے۔حملوں میں بچ جانے والی دیگر خوش قسمت شخصیات میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ( تین بار نشانہ بنایا گیا)، سابق گورنر بلوچستان ذوالفقار مگسی، سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد ( دو بار حملہ ہوا) اور اس وقت کے سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس مقبول باقر شامل ہیں جن پر جون 2013ء میں حملہ ہوا تھا۔ یہ بات اہم کہ اگرچہ خیبرپختونخوا کے سینئر وزیر اور اے این پی کے اہم رہنما بشیر بلور 11 نومبر 2008ء اور 11 مارچ 2009ء کو ہونیوالے دو حملوں میں بچ نکلے تاہم دسمبر 2012ء میں ایک خودکش حملے میں شہید ہوگئے۔16 اپریل 2013ء کو اس وقت 4 افراد جاں بحق ہوگئے‘ جب مسلم لیگ ن بلوچستان کے لیڈر سردار ثناءاللہ زہری کے انتخابی قافلے کو نشانہ بنایا گیا وہ بعد میں وزیرا علیٰ بنے‘ ان پر کوئٹہ کے قریب بم حملہ کیا گیا جس میں سردار زہری بچ گئے مگر ان کا بیٹا جاں بحق افراد میں شامل تھا۔ مئی 2010ء میں ڈی آئی جی لاہور حیدر اشرف اور اے ایس پی سول لائنز لاہور معروف واہلہ ( جو بعد میں ایس پی بنے) لاہور کے علاقے گڑھی شاہو میں احمدیوں کی عبادت گاہ پر ہونے والے دہشتگردانہ حملے میں محفوظ رہے۔ 25 مئی 2013ء کو 7 پولیس اہلکار اس وقت جاں بحق اور 7 زخمی ہوگئے جب خیبر پختونخوا کے گڑبڑ والے علاقے متنی میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کوہاٹ دلاور بنگش کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا، راکٹوں سے ہونیوالے اس حملے میں دلاور بنگش بھی زخمی ہوئے تھے۔ مئی 2013ء کو سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا پر پہلا حملہ ہوا جس میں 6 افراد کی جانیں گئیں۔ سکھیرا اگست 2013ء میں دوسرے حملے میں بھی بچ گئے جس میں 30 افراد جاں بحق ہوئے جن میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل آپریشنز فیاض سنبل اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس شمس الرحمان شامل تھے۔ یہ تمام لوگ کوئٹہ میں ایس ایچ او محب اللہ کے جنازے میں شریک تھے۔ ایک موقع پر اس وقت کے سی سی پی او کوئٹہ میرزیبر، مشتاق سکھیرا کے ہمراہ تھے۔کوئٹہ میں سراب کے ایس پی بشیر احمد بروہی کا بھی اس وقت قسمت نے ساتھ دیا جب 18ستمبر 2013ء کو نامعلوم مسلح افراد نے ان کی سرکاری گاڑی میں فائرنگ کردی۔ ستمبر 2014ء کو ایس پی سپیشل انوسٹی گیشن یونٹ کراچی فاروق اعوان اس وقت خوش نصیب پولیس افسروں میں شامل ہوگئے جو ابک سے زائد بار ہونیوالے حملوں میں محفوظ رہے۔ فاروق اعوان پر پہلا ناکام حملہ 2010ء میں ہوا۔قسمت کے ماروں کی فہرست:۔16اکتوبر 1951ء کے دن کو اس حوالے سے یاد رکھا جاتا ہے کہ اس روز راولپنڈی میں ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا،اس کے بعد سے چند ہی پاکستانی وزرائے اعظم، صدور، گورنرز، وزرائے اعلیٰ، موجودہ اور سابق وزراء، صف اول کے سیاستدان، اہم مذہبی رہنما، علمائے کرام، اعلیٰ فوجی و پولیس افسران ہی جاں بحق ہوئے۔ یہاں ہم ان اہم پاکستانیوں کی فہرست پیش کررہے ہیں جو گزشتہ 6 عشروں کے دوران جان لیوا حملوں کا شکار ہوگئے۔ لیاقت علی خان کے بعد دوسرا اعلیٰ سطحی قتل این ڈبلیو ایف پی کے اہم سیاستدان خان عبدالجبار خان( المعروف ڈاکٹر خان صاحب) کا ہوا، ڈاکٹر خان صاحب کو 9 مئی 1958ء کو 16 ایکمین روڈ جی او آر لاہور میں ان کے بیٹے سعد اللہ خان کی رہائش گاہ پر میانوالی کے ایک زیر عتاب رہنے والے ریونیو کلرک عطا محمد نے قتل کیا۔وہ اس وقت جھنگ کے کرنل سید عابد حسین ( معروف سیاستدان سیدہ عابدہ حسین کے والد) کا انتظار کررہے تھے جن کے ہمراہ فروری 1959ء کے عام انتخابات کے سلسلے میں ایک اجلاس میں انہیں جانا تھا۔ڈاکٹر خان صاحب‘ خان عبدالغفار خان( باچا خان) کے بھائی اور مرحوم عبدالولی خان کے چچا تھے۔ خیبر پختونخوا کے سابق گورنر حیات محمد خان شیر پائو 1975ء میں ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہوئے۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانیان میں شامل تھے۔ چوہدری ظہور الٰہی کو لاہور میں 1981ء میں قتل کیا گیا۔ موجودہ پاکستان وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے والد ایئر کموڈور (ر) خاقان عباسی (جنرل ضیاء الحق کی کابینہ کے وفاقی وزیر صنعت و پیداوار) 1988ء میں اوجڑی کیمپ کے سانحہ میں جاں بحق ہوئے۔ اگست 1988ء میں اس جہاز کی تباہی کا واقعہ آج تک بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہے جس میں پاکستانی صدر اور آرمی چیف ضیاء الحق اور اختر عبدالرحمان جیسے اہم جرنیل‘ بہاولپور کے قریب طیارے کی تباہی میں شہید ہوئے۔ سابق گورنر سندھ حکیم سعید کو 1998ء میں کراچی میں قتل کیا گیا۔ خیبر پختونخوا کے سابق مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، سابق گورنر اور وزیراعلیٰ لیفٹیننٹ جنرل فضل حق کو 3 اکتوبر 1991ء کو نامعلوم حملہ آوروں نے قتل کیا۔ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں کو 1993ء میں قتل کیا گیا۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے چھوٹے بیٹے میرمرتضیٰ بھٹو کو ستمبر 1996ء میں کراچی میں قتل کیا گیا۔سابق وزیر مملکت برائے خارجہ امور صدیق خان کانجو کو ستمبر 1996ء میں کراچی میں قتل کیا گیا۔ نیو یارک میں 11ستمبر 2001ء کے حملوں کے فوری بعد احتشام الدین حیدر (سابق گورنر سندھ اور وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر کے بڑے بھائی) کو اسی سال 21 دسمبر کو کراچی میں سولجر بازار کے قریب حملہ آوروں نے قتل کیا۔ 7 مئی 2002ء کو معروف مذہبی سکالر ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک کو لاہور میں دو مسلح افراد نے گولی مار کر قتل کردیا۔ 6 اکتوبر 2003ء کو ایم این اے مولانا اعظم طارق ( سپاہ صحابہ پاکستان کے سربراہ) کو اسلام آباد میں نامعلوم مسلح افراد نے قتل کردیا۔ 30 مئی 2004ء کو اہم دیوبندی مذہبی سکالر اور جامعہ بنوریہ کراچی کے سربراہ مفتی نظام الدین شامزئی کو ساحلی شہر میں ان کی کار میں قتل کیا گیا۔14 جولائی 2006ء کو علامہ حسن ترابی( شیعہ مذہبی سکالر اور تحریک جعفریہ پاکستان کے سربراہ ) اور ان کے 12 سالہ بھتیجے کو کراچی میں ان کی رہائش گاہ کے قریب خودکش حملے میں قتل کردیا گیا۔ 27 جنوری 2007ء کو پشاور سٹی پولیس کے سربراہ ملک سعد سمیت کم ازکم 13 افراد پشاور میں پر ہجوم شیعہ مسجد کے قریب خودکش حملے میں مارے گئے۔ 20 فروری 2007ء کو پنجاب کی وزیر سماجی بہبود ظل ہما عثمان کو گوجرانوالہ میں قتل کیا گیا‘ ان کے قاتل محمد سرور نے مبینہ طور پر لباس کے حوالے سے اسلامی تعلیمات پر عمل نہ کرنے پر اسے قتل کیا اور وہ سیاسی امور میں خواتین کی شمولیت کو پسند نہیں کرتا تھا۔27 جولائی 2007ء کو بلوچستان حکومت کے ترجمان رازق بھٹی کو کوئٹہ میں حملہ آوروں نے قتل کردیا۔ 15ستمبر 2007ء کو نامعلوم افراد نے سابق ایم این اے مولانا حسن جان کو پشاور میں قتل کردیا‘ وہ جمعیت علمائے اسلام کے رہنما اور وفاق المدارس کے وائس چیئرمین تھے۔ مولانا حسن جان نے خودکش حملوں کے خلاف ایک فتویٰ جاری کیا تھا اور وہ 2001ء میں افغانستان بھی گئے تھے جہاں انہوں نے ملا عمر کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ امریکی حملوں سے بچنے کیلئے اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکال دیں۔ 28 دسمبر 2007ء کو مسلم لیگ ق کے سابق وزیر اسفند یار امیر زیب (والئی سوات کے پوتے) سوات میں سڑک پر بم دھماکے میں جاں بحق ہوگئے۔ 25 فروری 2008ء میں پاک آرمی کے سرفہرست ڈاکٹر لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ راولپنڈی میں خودکش حملے میں مارے گئے، جنرل بیگ نائن الیون کے بعد مارے جانے والے پاکستان کے اعلیٰ درجے کے آفیسر تھے۔25 اگست 2008ء میں اے این پی کے ایم پی اے وقار احمد کے بھائی اور خاندان کے دیگر افراد سوات میں اپنی رہائش گاہ پر راکٹ حملے کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 19 نومبر 2008ء میں میجر جنرل (ریٹائرڈ) امیر فیصل علوی (سربراہ ایلیٹ کمانڈو فورس /سپیشل سروس گروپ) کو اسلام آباد میں گولی مار دی گئی، جنرل علوی سپیشل سروس گروپ کی وزیرستان میں 2004ء کے دوران کمان سنبھال چکے تھے۔ 26 جنوری 2009ء حسین علی یوسفی چیئرمین ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کو کوئٹہ میں گولی مار کر قتل کردیا گیا۔11 فروری 2009ء کو اے این پی کے صوبائی قانون ساز عالم زیب خان پشاور میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں جاں بحق ہوگئے۔ یہ ایک سال سے کم عرصے میں اے این پی ہونیوالا چھٹا حملہ تھا۔ 12 جون 2009ء کو ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی (ایک اہم سنی بریلوی عالم جو طالبان مخالف خیالات رکھتے تھے) لاہور میں جامعہ نعیمیہ میں ہونیوالے خودکش حملے میں جاں بحق ہوگئے۔ 25 اکتوبر 2009ء کو پنجاب میں پیدا ہونیوالے بلوچستان کے وزیر تعلیم شفیق احمد خان کو کوئٹہ میں ان کی رہائش گاہ کے باہر قتل کیاگیا، وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن تھے۔ یکم دسمبر 2009ء کو اے این پی کے ایک سیاستدان شمشیر علی خان کو سوات میں قتل کیا گیا۔ 3 جنوری 2010ء کو کے پی صوبہ کے سابق وزیر تعلیم غنی الرحمان سڑک کنارے بم دھماکے میں جاں بحق ہوگئے۔ 25 جولائی 2010ء کو خیبر پختونخوا کے اس وقت کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کے اکلوتے بیٹے کو قتل کردیا گیا، پبی نوشہرہ میں ان کے آبائی علاقوں میں ہونیوالے اس حملے میں ان کا دوست زخمی ہوا۔ 4 جنوری 2011ء کو پنجاب کے ایک بااثر گورنر سلمان تاثیر اسلام آباد میں اپنے ایک محافظ کی فائرنگ میں شدید زخمی ہونے کے بعد چل بسے۔ 28 مئی 2012ء کراچی کے معروف ایس پی شاہ محمد قتل کئے گئے، ایس پی شاہ محمد نے 1990ء کے عشرے میں ایک سیاسی جماعت کے خلاف کراچی آپریشن میں حصہ لیا تھا جب وہ ایس ایچ او کے طورپر کام کررہے تھے تو انہیں متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین کے بھائی اور بھانچے کے قتل کیس میں نامزد کیا گیا تھا۔ 15 اکتوبر 2012ء کو سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس( رورل) خورشید خان اور 6 مزید افراد اس وقت جان کی بازی ہار گئے جب مین پشاور کوہاٹ روڈ پر ایک پولیس چیک پوسٹ پر 300 سے زائد عسکریت پسندوں نے حملہ کردیا۔ شہیدوں میں پولیس اور فرنیئٹر کانسٹیبلری کے اہلکار شامل تھے۔ 7 نومبر 2012ء کو پشاور میں ایک خودکش حملے میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس ہلال حیدر اور کم ازکم مزید 4 افراد جاں بحق ہوگئے۔ اگست 2013ء میں کوئٹہ میں پولیس ڈی آئی جی فیاض سنبل کو قتل کیا گیا، اگست 2013ء میں ہی مسلح افراد نے گلگت بلتستان کے علاقے چلاس میں ایک پولیس گاڑی پر فائرنگ کی، اس واقعے میں حاضر سروس سینئرسپرنٹنڈنٹ پولیس ہلال احمد، ایک آرمی کرنل غلام مصطفی اور ایک فوجی کپتان شہید ہوگئے۔ جنوری 2014ء کو کراچی کے معروف ایس ایس پی چوہدری اسلم دو افسروں کے ہمراہ جاں بحق ہوگئے۔ جب ساحلی شہر کے لیاری ایکسپریس وے پر ان کی گاڑی کو بم سے نشانہ بنایا گیا۔ فروری 2017ء کو ڈی آئی جی ٹریفک پولیس کیپٹن (ر) احمد مبین اور قائم مقام ڈی آئی جی آپریشنز زاہد اکرام گوندل کو ایک خودکش حملے میں قتل کیا گیا۔

تازہ ترین