• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
استقبالِ رمضان

تمام مہینوں کا امام اور سردار، رمضان المبارک اپنی تمام تر فیوض و برکات، عظمت و حرمت اور روحانی مسّرتوں کے ساتھ امّتِ مسلمہ پر سایہ فگن ہونے کو ہے۔ شعبان المعظم کی ان آخری ساعتوں میں رمضان المبارک کی مشک و عنبر سے معطّر، مسحورکن خوشبوئیں، ٹھنڈی ٹھنڈی روح پرور فضائوں میں چہارسو پھیل رہی ہیں۔ آسمانوں پر فرشتے و ملائکہ استقبالِ رمضان کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ماہِ رمضان کا رحمتوں بھرا چاند جلوہ گر ہوتے ہی شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ کر پابندِ زنداں کردیاجائے گا۔ دوزخ کے دروازے بندہو جائیں گے اور جنّت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے۔ 

جنّت کے خوب صورت ترین دروازے ’’ریان‘‘ کو روزے داروں کے لیے مہکتے پھولوں سے سجادیا جائےگا کہ قیامت کے روزاس دروازے سے صرف روزے دار داخل ہوں گے، ان کے علاوہ کسی دوسرے کو اس سے داخل ہونے کی اجازت نہ ہوگی۔فرشتے پکاریں گے، ’’روزے دار کہاں ہیں؟‘‘ اور پھر متقّی روزے دار اس دروازے کی طرف بڑھیں گے۔

رمضان المبارک کی فضیلت:رمضان المبارک، خالقِ کائنات کی طرف سے عالم ِانسانیت کے لیے لامحدود انعام و اکرام کے ساتھ ایک ایسا عظیم الّشان تحفہ ہے، جس کی قدر و منزلت، درجات اور عزّت و عظمت کو حرف و بیاں کی وسعتوں میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ رمضان المبارک خوفِ خدا، تقویٰ پرہیزگاری، صبر و ایثار، تسلیم و رضا، عفو و درگزر،استغناو قناعت، تطہیرِقلوب اور تز کیۂ نفس یعنی نفس سے جہاد کا مہینہ ہے۔یہ مہینہ، گناہوں کی جلتی دھوپ میں مغفرت الٰہی کا وہ خوب صورت سائبان ہے کہ جس کی ٹھنڈی چھائوں میں جب رحمت کے جھکّڑ چلتے ہیں، تو انسانوں کے گناہ، یوں جھڑتے ہیں، جیسے پت جھڑ کے موسم میں درخت کے زرد پتّے۔ 

رمضان المبارک، گناہوں کے صحرائے اعظم میں بے کراں رحمتوں، بے پناہ برکتوں، بے انتہا شفقتوں کی اس پرنور بارش کا نام ہے کہ جس میں روزے داروں کو خاص روحانی کیف سے نوازا جاتا ہے، ان کی دعائیں سنی جاتی ہیں، ان پر انوار کے دروازے کھلتے ہیں۔ رمضان المبارک، رحمت، مغفرت، نجات اور خیر و فلاح کا وہ موسمِ بہار ہے کہ رحمتِ کائنات، محسنِ انسانیت، ختم المرتبت، رسالتِ مآب، حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے اس کے پہلے عشرے کو رحمت، دوسرے کو مغفرت و بخشش اور تیسرے کو جہنّم سے نجات کا عشرہ کہہ کر امّتِ مسلمہ پر احسانِ عظیم فرمایا۔

استقبالِ رمضان:حضور نبی کریمﷺ رجب کے مہینے ہی سے استقبالِ رمضان کی تیاری فرمایا کرتے اور ماہِ مبارک کا شدت سے انتظار فرماتے تھے۔ جب آپﷺ ماہ رجب کا چاند دیکھتے، تو دعا فرمایا کرتے ۔’’اللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي رَجَبَ وَشَعْبَانَ و بلِّغْنا رمَضَان“ (ترجمہ) ’’اے اللہ! رجب اور شعبان میں ہمارے لیے برکت پیدا فرما اور خیر و سلامتی کے ساتھ ہمیں رمضان تک پہنچا۔‘‘مفسرین اس دعا کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اللہ سے دعافرمایا کرتے ’’اے اللہ! ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرما کہ ہم ماہِ رمضان المبارک کا استقبال، اس کے شایانِ شان، نہایت عزت و احترام کےساتھ کریں۔‘‘امّ المومنین، سیّدہ عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ’’ رسول اللہ ﷺ شعبان کے دن اور اس کی تاریخیں جتنے اہتمام سے یاد رکھتے تھے، اتنے اہتمام سے کسی دوسرے مہینے کی تاریخیں یاد نہیں رکھتے تھے۔ 

پھر رمضان کا چاند دیکھ کر روزے رکھتے اور اگر (29 شعبان کو) چاند دکھائی نہ دیتا، تو تیس دن کا شمار کرکے روزے رکھتے تھے۔‘‘ (ابو دائود)ایک اور جگہ حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ ’’نبی کریمﷺ سب مہینوں سے زیادہ شعبان کے مہینے میں روزے رکھا کرتےتھے، لیکن جب ماہِ رمضان شروع ہوتا، تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگِ مبارک متغیّر ہو جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمازوں میں اضافہ ہوجاتا، اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتے اور اس کا خوف طاری رکھتے۔‘‘

رمضان المبارک کی فضیلت سے متعلق رسول اللہﷺ کا خطبہ:

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ ﷺ نے ایک خطبے میںفرمایا ’’اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے، اس مہینے کی ایک رات (شبِ قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہِ الٰہی میں کھڑے ہونے (یعنی نماز ِتراویح پڑھنے) کو نفل عبادت قراردیا ہے (جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے) جو شخص اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیرفرض عبادت (یعنی سنّت یا نفل ادا کرے گا) تو اسے دوسرے زمانے کے فرائض کے برابر ثواب ملے گا ۔

اور اس مہینے فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستّر فرضوں کے برابر ہوگا۔ یہ صبرکا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے۔ یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے، جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزے دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے) افطار کروایا، تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتشِ دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اسے روزے دار کے برابر اجر و ثواب بھی دیا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ آپﷺ سے عرض کیا گیا ’’یارسول اللہﷺ ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کروانے کا سامان میسّر نہیں ہوتا۔‘‘ تو آپﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دےگا، جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی، ایک کھجور یا پانی کے ایک گھونٹ پر کسی روزے دار کا روزہ افطار کروائے گا۔‘‘ (رسول اللہﷺ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آگے ارشاد فرمایا) ’’اور جو کوئی کسی روزے دار کو پورا کھانا کھلادے، اسے اللہ تعالیٰ میرے حوضِ کوثر سے ایسا سیراب کرے گا، جس کے بعد اسے کبھی پیاس نہ لگے گی تاآنکہ وہ جنّت میں پہنچ جائے گا۔‘‘(اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا) ’’اس ماہِ مبارک کا ابتدائی حصّہ رحمت، درمیانی حصّہ مغفرت اور آخری حصّہ آتشِ دوزخ سے آزادی کا ہے۔‘‘ (اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا) ’’اور جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کےکام میں تخفیف و کمی کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادےگا اور اسے دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی/ معارف الحدیث)

وجہ تسمیہ رمضان: لفظ رمضان ، رمض سے مشتق ہے، جس کے معنیٰ گرم ہونا اور تیز دھوپ سے پائوں کا جلنا ہے۔ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ روزے دار کے تمام سابقہ گناہوں کو جلادیتا یا مٹادیتا ہے۔ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’اس ماہِ مبارک کو رمضان اس لیے کہتے ہیں کہ وہ گناہوں کو رمض کردیتا ہے، یعنی جلادیتا ہے۔عربی زبان میں روزے کو’’ صوم‘‘ کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ’’رکنا‘‘ہے۔ 

لہٰذا روزہ اس بات کا اظہار ہے کہ انسان روزے کی نیّت کرکے طلوعِ فجر سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بعض دوسری خواہشات پوری کرنے سے رکا رہے۔ قرآنِ پاک کی سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیےگئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بنو۔‘‘

استقبالِ رمضان اور ہم: رمضان المبارک کا مہینہ اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ ہر سال عالمِ دنیا میں جلوہ گر ہوتا ہے۔مساجد میں نمازی بھی کثرت سے ہوتے ہیں اور اہتمامِ سحر و افطار بھی بڑے زور و شور سے کیا جاتا ہے۔ ذکر و اذکار، تراویح و شب بیداری کی محفلیں بھی خوب سجتی ہیں، لیکن ان سب کے باوجود انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں کوئی تغیّر نہیں آتا۔ گزرتے وقت کے ساتھ امّتِ مسلمہ ذلّت و رسوائی، غلامی و پستی کی دلدل میں دھنستی جارہی ہے۔  رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہوتے ہی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ 

جائز اور ناجائز منافعے کی دھن میں مگن تاجر اور دکان دار تجارت کے تمام اصولوں، ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ دولت کے حصول کی ہوس نےحلال و حرام کی تمیز مٹادی ہے۔ ناجائز منافع خوری، رشوت، کرپشن، غبن ، منافقت، جھوٹ، غیبت، بددیانتی، ریاکاری، دھوکا فریب، خیانت کام چوری، سستی کاہلی، غفلت و لاپروائی، غصّہ، بدکلامی، لڑائی جھگڑا، دنگافساد جیسے قبیح اعمال و افعال ہمارے معاشرے کا حصّہ بن چکے ہیں، لہٰذا ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی انفرادی و جتماعی زندگیوں میں تبدیلی لاکر تقویٰ اختیار کیا جائے اور تقویٰ کے حصول کا سب سے بڑا مآخذ ’’ماہِ رمضان‘‘ ہی ہے۔اس مبارک مہینے میں جس نے ایمان کی روح کے ساتھ روزے رکھ لیے، وہ متقی ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ میں فرماتا ہے’’روزہ تم پر اس لیے فرض کیا گیا کہ تم متقّی بن جائو۔‘‘

استقبالِ رمضان اور چند ضروری ہدایات

استقبالِ رمضان کے سلسلے میں ان باتوں کا اعادہ ضروری ہے:

(1) رمضان المبارک میں اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی نیّت اور ارادہ کریں۔ حضورﷺ نے فرمایا ’’اعمال کا دارومدار نیّت پر ہے۔‘‘ (بخاری) نیّت شعور و ادراک پیدا کرتی ہے اور شعور، ارادے کو مستحکم کرتا ہے، جو کام یابی کی ضمانت بنتا ہے۔

(2) رمضان میں چند دن باقی ہیں، کسی تنہا اور پرسکون جگہ بیٹھ کر اپنے معمولات اس طرح ترتیب دیں کہ رمضان میں زیادہ سےزیادہ عبادات کا وقت مل جائے۔

(3) عید کی شاپنگ بہ جائے رمضان میں کرنے کے شعبان کے اِن چند دنوں ہی میں کرلیں۔

(4) رمضان کے روزے فرض ہیں، بلاعذر شرعی روزہ قضا کرنا یا چھوڑنا سخت گناہ ہے، نیّت کرلیں کہ روزوں کو اس کی اصل روح کے ساتھ مکمل کریں گے۔ 

(5) فدیہ دے کر روزے چھوڑدینا ایک فیشن بن چکا ہے۔ یاد رکھیے، فدیہ انتہائی مجبوری کے عالم میں صرف ان لوگوں کے لیے جائز ہے، جن کے بارے میں یہ احتمال ہو کہ روزہ رکھنے کی صورت میں وہ موت سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔ ان افراد کے علاوہ ہر شخص پر روزہ رکھنا لازم ہے۔ اگر رمضان میں کسی وجہ سے نہیں رکھ سکتے، تو بعد میں گنتی پوری کریں۔ 

(6) روزہ،محض خالی پیٹ رہنے کا نام نہیں ہے،بلکہ آنکھ، کان، زبان، ہاتھ پائوں، غرض جسم کے ہر عضو کا روزہ ہوتا ہے۔(7) قرآن اور رمضان کاآپس میں گہرا تعلق ہے، قرآنِ کریم کا نزول شب قدر میں ہوا، یہ کتاب متقّیوں کے لیے راہِ ہدایت ہے، نیّت کریں کہ قرآن سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں گے اور روزانہ ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھیں گے۔ 

(8) رمضان میں فرض عبادات کا ثواب ستّر سے سات سو گنا تک بڑھادیا جاتا ہے اور نفلی عبادات کا اجر فرض عبادات کے برابر کردیا جاتا ہے۔ اس بات کی نیّت کریں کہ ماہِ رمضان کا ایک ایک لمحہ عبادتِ الٰہی میں صرف کریں گے۔ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ذکرِ الٰہی جاری رکھیں گے تاکہ دربارِ الٰہی میں جب حاضر ہوں تو نامہ اعمال میں توشۂ آخرت کے لیے کچھ تو جمع ہو۔ 

(9) اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے ’’متّقین وہ ہیں، جو رات کو کم سوتے اور سحر کے وقت استغفار کرتے ہیں۔‘‘ نیت کیجیے کہ ماہِ رمضان کی راتوں میں تراویح، تہجّد، توبہ استغفار اور تلاوت کلام پاک کو معمول بنائیں گے۔ شب قدر کی طاق راتوں کو عبادت اور ذکر و اذکار میں گزاریں گے۔

(10) زکوٰۃ کی ادائیگی فرض عبادت ہے، ماہِ رمضان میں زکوٰۃ کی ادائیگی پر ستّر گنا زیادہ ثواب ملتا ہے، لہٰذا پہلے سے اس کا حساب کتاب کرلیں، مستحق افراد کو تلاش کریں اور شروع رمضان ہی میں اس فرض سے سبک دوش ہوجائیں۔ 

(11) نیکی کی طلب اور جستجو مسلمان کی فطرت کا حصّہ ہے، لہٰذا عہد کریں کہ اس ماہِ رمضان میں نیکی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں گے، خواہ وہ کسی مسکین یا غریب کی مالی مدد ہو یا راستے میں پڑا پتھر ہو یا کانٹا، کسی کی زیادتی پر صبر کرنا ہو یا کسی روزے دار کا روزہ کھلوانا، یہاں تک کہ اپنے بھائی کے لیے مسکرادینا بھی صدقہ ہے۔

(12) عہد کیجیے کہ ہر حال میں غصّے کو برداشت کریں گے۔

تازہ ترین
تازہ ترین