70 سالہ دور آزادی میں پاکستان میں متعدد حکومتیں آئیں اور ہر ایک نے ملکی ترقی اور عوام کے لئے بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے سبز باغات دکھائے اور اپنے منشور کا اہم حصہ بنایا لیکن ان سب زبانی کلامی دعوئوں پر عملدرآمد کبھی نہ ہواس کا اندازہ بین الاقوامی درجہ بندی کے مختلف اشارئیے مثلاًغربت کی سطح، خواندگی، انسانی ترقیاتی اشارئیے، برآمدات، بجٹ کے خسارے، جدت طرازی کی سطح، کاروبار ی سہولتیں وغیرہ انہیں شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہیں ۔دراصل کسی بھی حکومت نے اس ملک کی ترقی کے لئے سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں نہ ہی خود کو اور تمام انتظامی امور کو جدید تقاضوں سےہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ اگر کسی نے کو شش بھی کی تو ایک مخصوص انتہائی مضبوط و طاقتور’جاگیر دار طبقہ‘ جو اس ملک پر ابتدا ہی سے مسلط ہے اس نے اس کے قدم روک دیئے۔ یہ دور تخصص (specialization) کاہے،ان جاگیردار سیاست دانوں میں سماجی و اقتصادی ترقی کے پیچیدہ مسائل سے سنجیدگی سے نمٹنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی اب سماجی معاشی ترقی کی اہم کلید بن چکے ہیں۔ ان کو بروئے کار لانے کے لئے متعلقہ شعبوں میں اعلیٰ ترین ماہرین کی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک مضبوط تکنیکی ماہرین سے آراستہ حکومت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر کوریا کو لے لیں چینگ ہا سنگ جامعہ کوریا، سیول میں ایک معاشیات کے پروفیسر اور جنوبی کوریا کے ایک مشہور دانشور ہیں جنہیں ایک نئے صدارتی چیف آف اسٹاف برائے پالیسی کے طور پر مقرر کیا گیا ہے۔ اس عہدے کا کام اقتصادی پالیسیوں سےربط قائم کرنا ہوتاہے ۔کم ڈونگ-ییون،جامعہ اجاووکے صدر کو وزیر خزانہ مقرر کیا گیا ہے یہ عہدہ نائب وزیر اعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم وزیر تعلیم یا سائنس و ٹیکنالوجی یا دوسرے وزراکی اسناد کا جائزہ لیں تو وہ تمام اپنے متعلقہ شعبوں میں اعلیٰ ومعروف ماہرین ملیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ کوریا تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے۔
نومبر 2015ء میں مجھے ویانا میں دی اکیڈمی آف سائنسزکی 26ویں جنرل کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جہاں TWAS (جو اٹلی میں واقع ہے) نےمیرے نام پر ایک بین الاقوامی انعام منسوب کیا ہوا ہے جواس سال ازبکستان کےایک سائنسدان کو حاصل ہوا۔ اس کانفرنس میں آسٹریا کے صدر، جناب ہائینز فشر نےمجھے آسٹریا کے وفاقی وزیر سائنس سے متعارف کروایا اور مجھے بتایاکہ ڈاکٹر رینہولڈ مٹرلیہنر کو سائنس کی وزارت کے علاوہ آسٹریا کے نائب وزیر اعظم کا عہدہ دیا گیا ہے تاکہ سائنس و ٹیکنالوجی کے پروگراموں پر عمل درآمد کرنے کے لئے انہیں سیاسی سطح پر دقت نہ پیش آئے۔ انہیں وفاقی وزیر معاشیات کا بھی عہدہ دیا گیا ہے تاکہ وہ قومی ترجیحی بنیادوں پر سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں کو زیادہ مالی ترجیحات فراہم کرکے آسٹریا کو ایک مضبوط علم پر مبنی معیشت بنا نے میں مدد کرسکیں ۔یہی کوریا نے کیا جہاں انکےاعلیٰ تعلیم و سائنس کے وزیر کو نائب وزیر اعظم کا عہدہ بھی اضافی طور پر دیا گیا ہے۔ پاکستان کو بھی ان ممالک کےنقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔ جب یہ اعلیٰ ماہرین وفاقی وزرا تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے طور پر مقرر کئے جائیں توانہیں بھی نائب وزیر اعظم کا درجہ دیا جائے اسی طرح پاکستان ایک مضبوط علمی معیشت میں ترقی کی راہ ہموار کرسکے گا ۔
ہمارے رہنماؤں کو اب سمجھ جانا چاہئے کہ قدرتی وسائل گزشتہ صدی میں ملکی ترقی کے ذمہ دار تھے لیکن اب وقت بدل گیا ہے اور انکی اہمیت بہت کم ہو چکی ہے۔ اس دور میں’افرادی قوت‘کا معیار سماجی و اقتصادی ترقی کی اہم کلید بن چکا ہے۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ پاکستان میں 20سال سے کم عمرنوجوانوں کی تعداد 10کروڑ ہے۔ اس خزانے سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہمیں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہو گا جس کے لئے سب سے زیادہ ضروری انہیں اعلیٰ معیارکی تعلیم فراہم کرنا ہےلہٰذا اسکولوں، کالجوں اور جامعات کے معیار پر ہماری ساری توجہ ہونی چاہئے اورپھر ان نوجوانوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ صنعتی اور تجارتی ماحول میں ڈھالنے کے لئے مناسب تربیت دینی ہوگی ۔
صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ دس سال میں قومی قرضہ تقریباً تین گنا ہو گیا ہے جس کی وجہ سےنوٹ چھاپے جارہے ہیں اور مہنگائی غریب اورمتوسط گھرانوں کے افراد کا خون چوس رہی ہے۔ 2008ء سے 2018ء کے دور حکومت میں پا کستان کو اپنی تاریخ کے بدترین دور کا سامنا کرنا پڑا۔ جوبدعنوانی اس دور میں ہوئی وہ ناقابل تلافی ہے۔تقریباً تمام اہم شعبے تباہی کے دہانے پر آ گئے تھے۔ اصولاً اس تباہی کے تمام ذمہ داروں کو جیل ہونی چاہئے تھی لیکن موجودہ حکومت نےان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔اس دور میں حکومتی خزانے میں بد عنوانی کی کل مالیت کا اندازہ کئی ہزار ارب روپے لگایا گیا ہے جو کہ بیرون ملک مختلف ناموں سے جمع کروائے گئے۔
اس با ت کا بارہا مظاہرہ ہو چکا ہے کہ موجودہ نظام حکومت جسے میں نے ’’جمہوریت‘‘ کے بجائے ’’جاگیرداریت‘‘ کا نام دیا ہے کیونکہ یہ حکومتیں جاگیر داروں کے مضبوط شکنجوں میں پھنسی ہوئی ہیں وہاں طاقتور بدعنوان سیاستدان پارلیمنٹ اور پھر کابینہ کا حصہ بنتے ہیں اس لئے سچی جمہوریت نہیں پنپ سکتی۔ سابقہ حکومت میں تقریباً ہمارے200’’معزز اراکین پارلیمنٹ‘‘ صوبائی اور وفاقی حکومت، جعلی ڈگریوں کے حامل تھے۔ ہمارا دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں کے سابق وفاقی وزیر تعليم تک نے منتخب ہونےکے لئے اپنے کالج اور جامعہ کی ڈگریاں جعلی بنوائی تھیں (یہ معاملہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں جگہ کا مستحق ہے)۔ ان موصوف کو بھی جیل میں ہونا چاہئے تھا مگر بڑی چالاکی سے انہوں نے حکومت تبدیل ہوتے ہی اپنی پارٹی بدل لی اور پی ایم ایل (ن)میں شمولیت اختیار کرلی۔
پارلیمانی نظام جمہوریت ایک ایسے ملک میں کام نہیں کرسکتا جہاں خواندگی کی سطح کم ہو اور جہاں جاگیردارانہ نظام قومی سیاست پر قابض ہو۔ہمیں امریکہ، فرانس اور بعض دیگر ممالک کی طرح ایک نیا صدارتی نظام حکومت متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ جس میں منتخب صدر اپنے لئے اعلیٰ معیار کے پیشہ ور افراد کو اپنی کابینہ کے وزراء کے طور پر منتخب کر تے ہیں جو پارلیمنٹ کے اراکین میں سے نہیں ہوتے۔ نئے قوانین وضع کرنے کے لئے ان کی موزونیت اور اس کے علاوہ ماضی کے پیشے کے حوالے سے ان کی بہت احتیاط سے جانچ پڑتال کی جانی چاہئے۔ صدارتی نظام جمہوریت تین اہم انتظامی ستون کو یقینی بناتا ہے۔ قانون (Legislative)، انتظامیہ (Executive)اور عدلیہ (Judiciary)۔ ان سب کو علیحدہ علیحدہ اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں۔ ہمارا پارلیمانی نظام اس معاملے میں ناکام رہاہے کیونکہ وزیر اعظم ہی پولیس، نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، الیکشن کمیشن وغیرہ جیسے اہم قومی اداروں کے چیئرمین مقرر کرتا ہے۔ اراکین پارلیمنٹ یا سینیٹ کاکردار قانون سازی اور حکومتی اقدامات کی نگرانی تک محدود کر دینا چاہئے اور ان میں سے وفاقی یا صوبائی وزراء منتخب نہیں کئے جانے چاہئیں۔ یہ اقدام پارلیمنٹ کا رکن بننے کےلالچ کا عنصر ہی ختم کردےگا۔جس نے انتخابات کے عمل کو اس قدر ناپاک کر دیا ہے کہ بہت سے لوگ تو اسےنفع بخش کاروبار گردانتے ہیں۔ 5 کروڑ خرچ کرو اور بعد میں 100 کروڑ کماؤ۔
سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ یہ سب کون کریگا؟ موجودہ پارلیمنٹ اپنے ہی اختیارات کم کرنے پرکبھی متفق نہیں ہوگی۔ اس کا واحد راستہ قوم کے پر بصیرت افراد ہیں جو عدلیہ کو بتائیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے 1947ء میں اپنے ہاتھ سے اپنی ڈائری میں نوٹ لکھا تھا کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام جمہوریت کامیاب نہیں ہو سکتا اور صدارتی نظام جمہوریت ہی زیادہ بہتر ہے۔ اس پرعمل کیا جائے۔ اس ہاتھ سے لکھے ہوئےنوٹ کا عکس جامعہ آکسفورڈ پریس کی کتاب"The Jinnah Anthology" میں صفحہ نمبر 81 پر شائع کیا گیا۔ اس کتاب کے مدیر شریف مجاہد اور لیاقت مرچنٹ ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)