موسم گرما شروع ہوچکا ہے ،سورج آگ برسا رہاہے اور لوڈ شیڈنگ کا عذاب ستار ہاہے ۔ ایسے میں پسینہ بہت زیاد ہ بہہ جانے اور کافی مقدار میں پانی نہ پینے کے سبب جسم میں پانی کی کمی یعنی ڈی ہائڈریشن ہو جاتاہے ۔رمضان کی آمد آمد بھی ہے۔ افطار کے وقت بہت زیاد ہ پانی پینا بھی نقصان دہ ہو سکتاہے ۔ اس کا حل ہے کہ وقفے وقفے سے مناسب مقدا ر میں پانی پیا جائے ۔
جسم میں پانی کی کمی کا کیا مطلب ہے؟
ہم روزانہ جسم سے جوپانی خارج کرتے ہیں اس خارج شدہ پانی کو کھانے اور پینے سے پورا کرتے ہیں۔ عموماً ہمارا جسم احتیاط کے ساتھ متوازن کرتا ہے، اس طرح ہم جتنا پانی ضائع کرتے ہیں اتنا پورا کر لیتے ہیں۔ کچھ معدنیات جیسے کہ نمک، سفید دھاتی عنصر، اور کلورین کے آمیزے بھی شریک ہیں تا کہ ہمارے بدن میں رطوبت کا صحتمندانہ توازن رہے۔
جسم میں پانی کی کمی آہستہ یا فوری طور پر ہو سکتی ہے۔ اس کا تعلق اس سے بھی ہے کہ کس طرح رطوبت زائل ہوئی ہے اور بچے کی کیا عمرہے۔ چھوٹے اور شیر خوار بچوں کے جسم میں پانی کی کمی ہونے کا زیادہ امکان ہےکیوں کہ ان کے جسم چھوٹے ہوتے ہیں اور ان میں رطوبت کا تھوڑا ذخیرہ ہوتا ہے۔ بڑے بچے اور نو عمر معمولی رطوبت کے عدم توازن سے بہتر طور پر نمٹ لیتے ہیں۔
ڈی ہائیڈریشن چاہے نواز ئیدہ بچے میں ہویابڑی عمر کے بچے میں ،فوری توجہ اور علاج کامستحق ہوتا ہے۔ڈی ہائیڈریشن میں مبتلا شیرخوار بچوں کی مائیں اس بات کاخصوصی اہتمام کریں کہ وہ بچے کو تھوڑی تھوڑی دیر میں دودھ ضرور پلاتی رہا کریں ہیموفیلس انفلوئنزا کے شدید انفیکشن کاشکار ہونے والے بچے گردن توڑبخار اور حلق سوج جانے کے باعث سانس رُکنے کی خطرناک کیفیت سے دوچار ہوسکتے ہیں۔
ڈی ہائڈریشن کی نوعیت
ڈی ہائیڈریشن اس وقت ہوتا ہے جب جسم میں پانی کی مقدارتشویش ناک حد تک کم ہوجائے۔چھوٹے بچوں کے جسم میں تقریباََ 75فیصد پانی ہوتا ہے اور اس کے بالغ ہوتے ہوتے اس کے جسم میں پانی کی مقدار 60فیصد تک رہ جاتی ہے۔عمومی ڈی ہائیڈریشن میں بچے کے جسم میں موجود پانی کا 5فیصد حصہ ضائع ہوجاتا ہے۔ اس سے زیادہ کی صورت میں 10فیصد اور سب سے زیادہ 15فیصد پانی خارج ہوجاتا ہے۔
خوراک ودیگر غذائی مائعات کے ذریعے جسم میں پانی شامل ہوتارہتا ہے۔ اس کاتوازن قدرت نے اس طرح برقرار رکھا ہے کہ پیشاب تھوک اور پسینے وغیرہ کے ذریعے یہ پانی جسم سے خارج ہوکر اپنا توازن برقرار رکھتا ہے، ایسے میں فوری طور پر ڈی ہائیڈریشن کا پتہ لگانا ذرا دشوار ہوجاتا ہے۔ یعنی اس صورتحال کا آسانی سے اندازہ نہیں لگایاجاسکتا لیکن آپ کو مندرجہ ذیل علامات پر دھیان دینا بہت ضروری ہے۔
ڈی ہائڈریشن کی علامات
بچہ کسی بھی قسم کا مشروب ٹھیک طرح نہ پی پائے۔
ڈائریا۔اور اس کے ساتھ ہونے والی الٹیاں۔
کئی گھنٹوں تک بچے کو پہنائی جانے والی نیپی کا خشک رہنا یعنی دیر تک پیشاب کا نہ ہونا۔
پیشاب کی تھوڑی مقدار لیکن اس کی رنگت گہری ہو۔
بے چینی ۔ جو واضح طور پر محسوس ہوجائے۔
اگرڈی ہائیڈریشن کی نوعیت خراب ہوجاتی ہے تو پھر ایسی صورت حال میں مندرجہ ذیل علامات واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہیں۔
اگر آپ بچے کی جلد کو دباتی ہیں تو اس کی جلد دوبارہ اپنی اصل حالت واپس آنے میں وقت لگتا ہے۔
آنکھوں کی پتلیاں ایک جگہ نہ ٹھہریں یعنی آنکھیں ڈوبتی ہوئی محسوس ہوں اور ان میں آنسو نہ ہوں۔
چہرہ اور ہونٹ خشک دکھائی دیں۔
شروع شروع میں بچہ پیاسا اور بے چین دکھائی دے۔ لیکن بعد میں خاموش اور پرسکون ہوجائے۔
کیا اقداما ت کرنے چاہئیں ؟
فوری طور پر اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
اگر علامات زیادہ شدید نہیں ہیں اور بچہ پانی یا دوسرے مشروبات پی رہا ہے توممکن ہے کہ ڈاکٹر ایسی صورت میں ڈی ہائیڈریشن کے سدباب کے لئے کوئی چیز پینے کے لئے تجویز کردے۔
ڈاکٹر کے تجویز کردہ مشروبات تیار کرتے ہوئے اس کے پیکٹ پر لکھی ہوئی ہدایات پر ضرور غور کریں اور احتیاط برتیں۔
پانی اُبال کراور ٹھنڈا کرکے پلائیں۔
بڑے بچوں کے لئے پاؤڈر کوپانی میں ملا کراستعمال کرایا جاسکتا ہے یا سفوف کی جگہ ٹیبلیٹ استعمال کروائی جاسکتی ہیں۔ اگربچہ مشروب کی پوری مقدار نہ پی سکے تو اس مشروب کو سنبھال کر چوبیس گھنٹے تک فریج میں رکھ سکتی ہیں۔
شیر خوار بچوں کی مائیں اس بات کا خصوصی اہتمام کریں کہ وہ بچے کو تھوڑی تھوڑی دیر میں دودھ ضرور پلاتی رہاکریں۔ اس کے علاوہ اگر چھوٹا بچہ ڈی ہائیڈریشن کا شکارہوگیا ہے تو ڈاکٹر کے تجویز کردہ Rehydrationمشروبات بھی بچے کو چمچے یاسرنج کے ذریعے پلانے کا خصوصی اہتمام بھی کریں۔
ڈاکٹر کے آنے تک یاطبی امداد ملنے تک بچے کو موسمبی‘ سیب یاانناس کارس دیاجاسکتا ہے یا پھر ابلا ہوا ٹھنڈا پانی استعمال کرتی رہیں۔
بچے کو ہر ایک آدھے گھنٹے بعد مشروب پلادیا کریں۔یاد رکھیں کہ ڈی ہائیڈریشن کی صورت میں اسے مشروب کی زیادہ مقدار کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔
ضمنی دوائیں اور مشورے
ڈی ہائیڈریشن کی صورت میں بچے کو فوری طورپر طبی امداد کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے آپ اسے ضمنی دوائیں بھی دے سکتی ہیں۔ جواس وقت فوری طورپر مہیا ہوجائیں۔ جیسے بچے کو فوری طور پر او۔ آر۔ ایس کا تیار شدہ مشروب پلایا جائے۔ شیرخوار بچے کو دودھ پلانے کے وقفوں میں کمی کرکے فیڈنگ کے دورانیے کو بڑھادیاجائے۔
دوسال سے زائد عمر کے بچوں کو سکنجین پلانے سے بھی ڈی ہائیڈریشن کی شدت میں کمی کی جاسکتی ہے لیکن اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیں کہ ضمنی دوائیں وعلاج محض اس وقت تک کے لئے ہی مئوثر ہوتا ہے جب تک مریض کاباقاعدہ کسی مستند ڈاکٹر سے علاج نہ کروایا جائے کیونکہ یہ ضمنی دوائیں وعلاج مریض کو ابتدائی طبی امداد کے طور پر دیئے جاتے ہیں تاکہ ڈاکٹر تک پہنچے تک مرض مزید بگڑنہ جائے۔
کتنا پانی پینا چاہئے ؟
ماہرین صحت نے مزید كکہا كہےکہ پسینہ خارج ہونےکی صورت میں مسلسل پانی پیتے رہنا انتہائی مفید اور ضروری ہوتا ہے، شدید گرمی اورلو میں ایک بجے دوپہر سے 4 بجے سہ پہرکے درمیان زیادہ سے زیادہ گھر، كکمرے یا آفس كکے اندر رہنےکی کوشش کریں كکیونکہ لُویا ہیٹ ویوز ہونے کی صورت میں جسم کا درجہ حرارت 42 ڈگری سینٹی گریڈ ہونے كکا امکان ہوجاتا ہے جس سے جسم کا کنٹرولنگ سسٹم بھی متاثر ہونے لگتا ہے اور اس سے جسم کے پٹھے اکڑنے لگتے ہیں، جسم کا پانی کم ہو جانے سے متاثرہ افراد كو سر درد، چکر آنا اور متلی والی کیفیت ہونے لگتی ہے، جسم كکے اہم حصوں میں خون كکی رسائی معمول كے مطابق نہیں ہوتی، متاثرہ افراد كو قے بھی ہونے لگتی ہے، جسم نڈھال ہوجاتا ہے، ذیابطیس كکے شکار افرادکو گرم موسم میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ شدید گرمی میں گھر كکے مشروبات استعمال كکرتے رہیں جبکہ كہ ہلکی پھلکی غذا اور سبزیوں كکو روزانہ کا معمول بنائیں، دہی كکا استعمال بھی مفید ہے، گرم موسم میں یومیہ كکم ازکم 3 لیٹر پانی ضرور استعمال کریں، گردے كکی بیماری والے افراد دن میں مسلسل پانی پیتے رہیں اور بلڈ پریشر پربھی نظر رکھیں كکیونکہ جسم میں پانی کی کمی سے ہیٹ اسٹروک ہو سکتا ہے، شدید گرمی میں دن میں کئی بار نہانا بھی مفید ہوتا ہے، غذا میں گوشت کے استعمال سے پرہیزکریں، پھل اور سبزیاں انتہائی مفید ہوتی ہیں۔