کامیاب معاشرے کی ترقی میں خواتین کا کردار ایک کلیدی جزو ہے۔ مثل مشہور ہے کہ کامیاب مرد کے پیچھے کامیاب عورت کا ہا تھ ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت ماں،بہن،بیوی اور بیٹی ہر روپ میں قدرت کا قیمتی تحفہ ہے، جس کے بغیر کائناتِ انسانی کی ہرشے پھیکی اور ماند ہے۔عورت اپنی ذات میں ایک تناوردرخت کی ما نند ہے جو ہر قسم کے سردوگرم حالات کا دلیری سے مقابلہ کرتی ہے ۔مشرق وسطیٰ بھی ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہا ہے، جہاں بتدریج عورت کے کردار کو تسلیم کیا جارہا ہے اوراسے زیادہ سے زیادہ حصہ دار بنایا جارہا ہے۔
دبئی کی ترقی میں خواتین کا کردار
مشرق وسطیٰ میں سرمایہ کار اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے خواتین کے کردار کو تسلیم کررہے ہیں۔ دبئی بھی مشرق وسطیٰ کے ایسےہی ملکوں میں شامل ہے۔ دبئی کے حکمران ایک ایسی Robustریاست تشکیل دینے میں مصروف عمل ہیں، جہاں نوکریوں کے بے پناہ مواقع پیدا ہوتے ہیں، جہاں ترقی کو سپورٹ کیا جاتا ہے، جہاں ٹیکنالوجی اور نئے آئیڈیاز کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور جہاں پیداواری صلاحیت بڑھانے پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے۔
ایسی ریاست میں معاشی ترقی کے لیے انٹرپرنیوئرشپ کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت دی جاتی ہے، تاہم دبئی میں اس سے پہلے انٹرپرنیوئرشپ کے میدان میں خواتین کا کردار کھل کر سامنے نہیں آیا تھا، تاہم اب یہ سب بدل رہا ہے۔ دبئ کی معیشت میں خواتین انٹرپرنیوئرز کی شرکت قابل ذکر حد تک بڑھ رہی ہے ۔ عالمی بینک کی رپورٹ Women, Business and the Law 2018کے مطابق، لیبر فورس میں خواتین کا کردار بڑھا کر اور صنفی تفریق کی رکاوٹیں ختم کرکے کچھ معیشتوں کی پیداوار میں 25% تک اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
ان اعدادوشمار کی روشنی میں ، اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کاروبار کی دنیا میں خواتین کا کردار بڑھا کر روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنےاور معاشی ترقی کو زبردست فروغ دیا جاسکتا ہے۔ دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کی ٹیم 70%خواتین پر مشتمل ہے۔ دبئی کی جامعات میں 70%لڑکیاں زیرِتعلیم ہیں، دبئی کی 46.4%لیبر فورس خواتین پر مشتمل ہے، جب کہ دبئی کی 66%سرکاری نوکریوں پر خواتین تعینات ہیں۔
سعودی عرب بدل رہا ہے
سعودی عرب میں اصلاحات کا جو عمل شروع ہوا ہے ، اس پر پوری دنیا خصوصاً عالم اسلام میں مباحثہ شروع ہو گیا ہے کیونکہ سعودی عرب کو دنیائے اسلام میں مرکزی حیثیت ہے ۔ یہ سرزمین نا صرف مذہب اسلام کا منبع و ماخذ ہے بلکہ کعبہ شریف سمیت مسلمانوں کے اہم مقامات مقدسہ یہاں ہیں ۔ سعودی معاشرہ کیسا ہو ؟ اس حوالے سے مسلمانوں نے اپنے اپنے طور پر کچھ مثالی تصورات قائم کئے ہوئے ہیں، اس لیے سعودی عرب میں اصلاحات خصوصاً سماجی اور قانونی اصلاحات کے حوالے سے مسلم دنیا بہت حساس ہے ۔
سعودی حکومت نے خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دے دی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ خواتین کو کھیل کے میدانوں میں بھی آنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ سعودی عرب کی نئی قیادت اس امر سے آگاہ ہے کہ مسلم دنیا، سعودی عرب میں سماجی اصلاحات کے حوالے سے کس قدر حساس ہے لیکن سعودی قیادت کویہ چیلنج بھی درپیش ہے کہ اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں سعودی عرب کو مستقبل میںدرپیش چیلنجز کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے ۔ سعودی عرب کے نئے ولی عہد محمد بن سلمان نے بہت ہی تھوڑے عرصے میں اپنے آپ کو ایک ’’ ویژنری ‘‘ لیڈر کے طور پر نا صرف سعودی عرب بلکہ پوری دنیا میں منوالیا ہے ۔
ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو شہزادہ محمد بن سلمان کے خیالات کو ’’ لبرل ‘‘ کہنے پر اعتراض ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ نوجوان سعودی ولی عہد لبرل سوچ کے حامل ہیں اور ان کے سعودی عرب کے مستقبل کے بارے میں وژن کو سعودی باشندوں خصوصاً نوجوانوں میں بھی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ 33سالہ محمد بن سلمان نے کچھ عرصہ قبل برطانوی اخبار ’’ گارجین ‘‘ کو جو انٹرویو دیا تھا ، وہ انتہائی فکر انگیز ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ گزشتہ تین دہائیوں میں سعودی عرب میں جن نظریات کی بالادستی رہی ، وہ 1979 ء کے ایران انقلاب کا ردعمل تھے ۔ گزشتہ 30سال میں جو کچھ سعودی عرب میں ہوا اور جو کچھ اس خطے میں ہوا ، وہ حقیقی مشرق وسطی نہیں ہے ۔
1979 ء کے ایران انقلاب کے بعد کچھ ممالک اس انقلاب کی نقل کرنا چاہتے تھے۔ سعودی عرب بھی ان میں سے ایک تھا ۔ لیکن اب یہ عہد ختم ہو چکا ہے اور ہمیں اس صورت حال سے نکلنا ہے ، جو تین عشروں تک رہی ‘‘۔ محمد بن سلمان سعودی عرب کو ’’ ملٹری ڈاکٹرائن ‘‘ سے ’’ اکنامک ڈاکٹرائن ‘‘ ( Economic Doctrine ) کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے وژن 2030 دیا ہے ، جس کے تحت سعودی حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب کے شمال مغرب کے صحراؤں میں مستقبل کا ایک نیا شہر آباد کیا جائے گا ، جسے ’’ نیوم ‘‘ ( Neom ) کہا جا رہا ہے ۔
یہ شہر 10231مربع میل میں پھیلا ہو گا اور موجودہ نیو یارک سٹی سے 33 گناہ بڑا ہو گا ۔ اس شہر کی سرحدیں مصر اور اردن کی سرحدوں سے ملی ہوئی ہوں گی ۔ یہ شہر سعودی عرب کا نیا اکنامک پاور ہاؤس ہو گا ۔ جس کے اپنے قوانین اور اپنے معیارات ہوں گے ۔ یہ ایک لبرل شہر ہو گا ، جس میں خواتین اور مردوں کو شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔