نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل جیسےہائی پرو فائل کیس کی تحقیقات کے لیےایڈیشنل آئی جی سندھ آفتاب پٹھان جیسے قابل اور ایماندار افسر کی سربراہی میں بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی ) نےرائو انوار کو نقیب اللہ محسودکے ماورائے عدالت قتل کامرکزی کردار قرار دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جیو فینسنگ اور دیگر شہادتوں کی رو سے رائو انوار کی جائے وقوعہ پر موجودگی ثابت ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، نقیب اللہ محسود سمیت چار نوجوانوں کو الگ الگ قتل کیا گیا۔راؤ انوارنےاس کیس سے متعلق میڈیا میںغلط بیانات جاری کیے اور اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر شواہد ضائع کردیئے۔
رائو انوار اور دیگر پولیس افسران و اہلکاروں کا مذکورہ عمل دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔جے آئی ٹی کی تحقیقات میں واضح ہو گیا ہے کہ نقیب اللہ محسود اور دیگر کا کراچی اور بہاولپور سمیت ملک کے کسی بھی شہر میں کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیںتھا ۔جے آئی ٹی کی تحقیقات میں ڈی این اے رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ چاروں افراد کو دو الگ الگ کمروں میں قتل کیا گیا، ایک کمرے کے قالین پر دو افراد کے خون کےنشانات ملےجب کہ دوسرے کمرے کے قالین پر چاروں کے خون کے شواہد پائے گئے ، قتل کے بعد لاشیں دو مختلف کمروں میں ڈال دی گئیں۔،مقتول نذر جان کے کپڑوں پر موجود گولیوں کے سوراخ کی فارنزک رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ اُس پر ایک سے پانچ فٹ کے فاصلے سے فائرنگ کی گئی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ چاروں کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا۔
سابق ایس ایس پی،جے آئی ٹی کے سامنے جائے واردات سے اپنی عدم موجودگی کا کوئی واضح ثبوت پیش نہ کرسکےاور دوران تفتیش صرف ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ جیو فینسنگ سمیت دیگر ثبوت و شواہد کی روشنی میں بھی رائو انوار کی موقع پر موجودگی ثابت ہوچکی ہے جب کہ سابق ڈی ایس پی قمر کو مقابلے کے حوالے سے جعلی انٹریاں کر نے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ایڈ یشنل آئی جی کی سربراہی میں بننے والی جے آئی ٹی کے اراکین میں اے آئی جی اسپیشل برانچ ولی اللہ دل،ڈی آ ئی جیز ذوالفقار لاڑک،آزاد خان اور ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان شامل تھے ۔
جے آئی ٹی کی رپور ٹ خصو صی عدالت میںپیش کی جاچکی ہے،جس کے بعد ماورائے عدالت قتل کے مقدمے کی شروعات ہو گی ۔یہاں یہ بات بھی کسی المیےُ سے کم نہیں کہ قاتل رائوانوار کے سہولت کاروںنے انہیں کئی روز تک گرفتاری سے بچائے رکھااور عدالت میں پیش نہ ہونے دیا۔ ان کا مقصدصرف یہ تھا کہ انہیں بچا کر سلطانی گواہ بنوا دیا جائے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق انہیں سزا سے بچانے کےلیے، سہولت کاروں کی جانب سے ابھی بھی کوششیں جارہی ہیں ۔ذرائع کایہ بھی کہنا ہے کہ رائو انوار اوران کے سہولت کارالیکشن سے قبل موجود ہ حکومت کی جگہ نگراں حکومت کے قیام سے خائف ہیں ، جس میں ان کا کوئی اثر رسوخ نہیں ہوگا ۔
رائو انوار کی روپوشی کے دوران ٹی وی چینلز کے توسط سے اپنے سہولت کاروں کو دی گئی یہ دھمکی بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر مجھے سزا سے نہیں بچا یاگیاتومیں مذکورہ قتل سے متعلق تمام راز افشاء کردوں گا ۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب بھی ان کے سیاسی سہولت کار،مبینہ طور پرنگراں حکومت کے قیام سے قبل معاملات کو راؤ انوار کے حق میں ہم وار کرنا چاہتے ہیںاس سلسلے میں ایک اہم سیاسی شخصیت نے مبینہ طور سے رائو انوار کو یقین دلایا ہے کہ انہیں اکیلا نہیں چھوڑا جائے گا اور انہیں بچانےکی ہر ممکن کوشش جاری ہے ۔
دوسری جانب نقیب اللہ محسود قتل کیس میں ملوث دیگر مفروراہلکاروںکے گردگھیرا تنگ کر دیا گیا ہے اور ان کی گرفتاری کے لئے مختلف مقامات پرچھاپے مارے جارہے ہیں ۔اس بات کا قوی امکان ہے کہ مذکورہ ملزمان کی عدم گرفتاری پر ان کو اشتہاری ملزمان قرار دے کر ان کے اکائونٹ منجمد اوران کی جائیدادیں ضبط کی جائیں گی۔ اس سلسلے میں جے آئی ٹی کے سر بر اہ آفتاب پٹھان کا کہناہے کہ اس ہائی پرو فائل کیس میں ہم نے قانون کے مطابق ہر پہلو کا جائزہ لے کر اپنا فرض ادا کیاہے اورکسی بھی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے رپورٹ میں وہی لکھا جو حقائق پر مبنی ہے، ہمارا ضمیر مکمل طور سےمطمئن ہے ۔ انہوں نے کہاکہ قانون سے کوئی بھی شخص بالاتر نہیں ہے ۔ مقدمے میں نامزد مفرور اہل کاروں کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں،ان کے حق میں یہی بہتر ہو گا کہ وہ خود کو قانون کے حوالے کر دیں ۔
دوسری جانب یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب قانون میں یہ واضح ہے کہ پولیس کی جانب سے کسی بھی بے گناہ شخص کو کالعدم تنظیم کا کارندہ یا دہشت گرد قرار دے کر قتل کر دینابھی قتل عمد کے زمرے میں آتا ہے۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملزم کو زندہ گرفتار کر کے عدالت کے روبرو پیش کر نا پولیس اور قانون نافذ کر نے والے اداروں کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے اوراس کے برعکس اقدامات ماورائے قانون کے زمرے میں آتے ہیں ۔ قانون کی گرفت سے آزاد ہونے کی وجہ سے رائو انوار جیسے پولیس افسران کےحوصلے بلند ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ملک بھر کی پولیس سیاسی دباؤ کا شکار ہے۔نقیب اللہ محسودجیسےواقعات سے عوام میں عدم تحفظ کا احساس بڑھنے کے ساتھ وہ پولیس کے رویئےسے شاکی ہے ۔
یہ امر باعث تشویش ہے کہ رائو انوار کو قانون کی گرفت سے بچانے کے لیےسہولت کارمسلسل کوششوں میں مصروف ہیں اور ان کی جانب سے کی جانے والی کوششیں منظر عام پر آنے لگی ہیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق سندھ حکومت کا اس سلسلے میں اہم کردار ہے اور اس نے سابق ایس ایس پی جو کہ جےآ ئی ٹی کی تحقیقات کی روشنی میں مجرم ثابت ہو چکے ہیں، ان کو سرکاری طور سے ہر طرح کی آسائشیں فراہم کی ہیں۔ صوبائی حکومت کی جانب سے مبینہ سکیورٹی خد شات کے پیش نظر راؤ انوارکی ملتان لائن، ملیر کینٹ میں واقع رہائش کو سب جیل قرار دے کرانہیں وہاں رکھا گیاہے اور وہ جوڈیشل ریمانڈکے باوجود ہر قسم کی سہولتوں سے لطف اندوزہورہے ہیں ۔
رائو انوار کو عدالت میں کیس کی سماعت پر بھی پیش نہیں کیا گیا۔ پولیس نے 21اپریل کو رائو انوار کا30 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیاتھا، جہاںسے اُنہیں 2؍مئی تک جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا۔ جیل حکام کی جانب سے2مئی کو عدالت میں میڈیکل رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ رائو انوار کومتعدد بیماریاں لاحق ہیں۔ اُن کا شوگر لیول اور بلڈ پریشر بھی بڑھا ہوا ہے جس کی وجہ سے اُنہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 30روزہ ریمانڈ کے دوران بھی رائو انوار کومبینہ طور سے اپنےپیٹی بند بھائیوں کی وساطت سے ہر طرح کی سہولت و آسائش میسر تھی۔
دوسری جانب درجنوں ماورائے عدالت قتل کےملزم کو عدالت میں پیشی کے موقع پر وی آئی پی پروٹوکول دیا گیا، اُنہیں ہتھکڑی بھی نہیں لگائی گئی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سہولت کاروں کو خدشہ ہے کہ اگرراؤ انوار کے ساتھ عام مجرموں جیسا سلوک کیا گیا تو وہ گھبرا کر بعض ایسے راز بھی افشاء کر سکتے ہیں جن سےخود ان کی گردن پھنسنےکا اندیشہ ہے۔ عدالت نے پیشی پر حاضر نہ ہونے کی وجہ سے کیس کی سماعت 14مئی تک ملتوی کر دی۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت سندھ رائو انوار کو عدالتی احکامات کی روشنی میں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجے گی یا کہ 14مئی تک اُنہیں عیش و آسائش کی فراہمی جاری رکھے گی۔ دوسری جانب یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ جعلی پولیس مقابلے کے مرکزی ملزم کو خصوصی سہولتیں ملنے کی وجہ سے مقتولین کے ورثاء میں سخت اشتعال پایا جاتاہے۔
مقدمہ کی سماعت کے موقع پر نقیب اللہ محسودکے اہل خانہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوںسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگرراؤ انوار کو آئندہ سماعت پرہتھکڑی لگا کر نہیں لایا گیااور انہیں وی آئی پی پروٹوکول دینے کی بجائے اس کے ساتھ عام مجرموں والا سلوک نہیں کیا گیا تووہ پورا ملک بند کرا دیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ہوا کا رُخ دیکھتے ہوئے معطل ایس ایس پی کے ساتھ بھی قانون کے تحت کارروائی کرے ورنہ صوبہ میں امن و امان کی صورت حال خراب ہونے کا خطرہ ہے۔