دنیا کا طاقتور ترین ملک امریکہ اپنے ایک فوجی افسر کو پاکستان سے نکالنا چاہتا تھا لیکن پاکستانی ریاست نے اس امریکی کو پاکستان چھوڑنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ وہ ایک مقامی شہری کی موت کا ذمہ دار ہے۔ اس واقعہ کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے اور دونوں ممالک کی طرف سے ایک دوسرے کے سفارتکاروں پر ایسی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں جن کی ماضی میں بہت کم مثال ملتی ہے۔ ایک طرف پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تنائو بڑھ رہا ہے دوسری طرف بھارت کی طرف سے پاکستان پر دبائو ڈالنے کے لئے نئے نئے حربے اختیار کئے جارہے ہیں۔ اس صورتحال میں قومی سلامتی کے معاملات پر پاکستان میں اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ بظاہر حکومتی سطح پر موجود ایک قومی سلامتی کمیٹی میں سیاسی و فوجی قیادت تمام اہم فیصلے باہمی مشاورت سے کرتی ہے لیکن سیاسی وجوہات کی بناء پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کے وزراء کا لہجہ قومی سلامتی کی کمیٹی کے اندر اور باہر کچھ اور ہوتا ہے۔ انتخابات قریب آچکے ہیں اور اسی لئے سیاستدانوں کے بیانات میں ایک دوسرے کے چیتھڑے اڑائے جارہے ہیں۔ گرم موسم میں گرما گرم تقریریں کرنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں پھیلانے والے اپنے گرد و نواح کے حالات سے بالکل بے خبر نظر آتے ہیں اور پاکستان کے دشمن اس بے خبری سے بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔ حال ہی میں اسرائیل سے تعلق رکھنے والے ایک جرمن یہودی ایلس ڈیوڈسن کی کتاب بھارت میں شائع ہوئی ہے جس میں ممبئی حملوں کے بارے میں’’ بھارت کا دھوکہ‘‘ بےنقاب کیا گیا ہے۔ ڈیوڈسن اسرائیل میں پیدا ہوا تھا لیکن وہ صیہونیت کے خلاف ہے۔ ممبئی حملوں میں کچھ اسرائیلی شہری بھی مارے گئے تھے جس کے بعد اسرائیلی میڈیا میں پاکستان پر بہت تنقید ہوئی۔ ڈیوڈسن نے ممبئی حملوں کے بارے میں تحقیقات کیں تو اسے پتہ چلا کہ بھارتی حکومت نے حقائق مسخ کئے۔ اس کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ممبئی حملوں میں شاید پاکستانی شہری استعمال ہوئے ہوں لیکن یہ حملے دراصل ایک ڈرامہ تھا جس کا مقصد عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنا تھا۔ ڈیوڈسن نے لکھا ہے کہ ممبئی حملوں کے دس ملزموں میں سے صرف ایک ملزم اجمل قصاب زندہ گرفتار ہوا لیکن اسے 26نومبر 2008کو نہیں بلکہ 6نومبر 2008کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ڈیوڈسن نے کوئی نئی بات نہیں لکھی۔ ممبئی حملوں کے ایک سال بعد 2009میں بھارت میں ایک سابق پولیس ا فسر ایس ایم مشرف کی کتاب شائع ہوئی تھی جس میں سوال اٹھایا گیا کہ ممبئی پولیس کے اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے کو 26نومبر 2008کو کس نے مارا؟ ایس ایم مشرف مہاراشٹرا کے سابق آئی جی ہیں۔ انہوں نے اپنی کتابWho killed Karkareمیں لکھا کہ اجمل قصاب دراصل نیپال میں گرفتار ہوا تھا۔ نیپال کی پولیس نے اسے بھارت کے حوالے کیا اور بھارت نے ممبئی حملوں کے بعد اجمل قصاب کو ایک پاکستانی دہشت گرد بنا کر پیش کیا۔ اسی کتاب میں بتایا گیا کہ ہیمنت کرکرے نے کچھ ایسے انتہا پسند ہندوئوں کے خلاف ثبوت حاصل کرلئے تھے جو بھارت میں دہشت گردی خود کراتے اور الزام مسلمانوں پر ڈال دیتے تھے۔26نومبر 2008کی رات انہیں پراسرار طریقے سے قتل کرکے دعویٰ کیا گیا کہ وہ ممبئی حملوں میں مارے گئے۔
ایس ایم مشرف کی کتاب پر بھارت میں بہت لے دے ہوئی۔ 2013میں بھارتی وزارت داخلہ کے ایک سابق انڈر سیکرٹری آر وی ایس مانی کی طرف سے عشرت جہاں قتل کیس میں گجرات ہائیکورٹ میں ایک بیان دیا گیا جس میں بتایا گیا کہ دسمبر 2001میں بھارتی پارلیمنٹ اور نومبر 2008میں ممبئی حملے دراصل بھارتی حکومت کی سازش تھے۔ مانی نے عدالت میں داخل کئے گئے حلفیہ بیان میں کہا کہ اسے اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم(ایس آئی ٹی) کے آئی جی ستیش چندرا ورما نے بتایا تھا کہ پارلیمنٹ پر حملے کا مقصد پوٹا قانون منظور کرانا اور ممبئی حملوں کا مقصد یو اے پی اے قانون منظور کرانا تھا تاکہ ٹیرر فنانسنگ کرنے والوں پر سخت ہاتھ ڈالا جاسکے۔ ستیش چندرا ورما گجرات سے تعلق رکھنے والے آئی پی ایس افسر تھے جو 2013میں جونا گڑھ پولیس ٹریننگ کالج کے پرنسپل تھے۔ انہوں نے مانی کے الزام کی تردید کی لیکن اس الزام کے پیچھے بھی ایک ڈرامہ تھا جسے ستیش چندرا ورما نے کچھ سال پہلے بےنقاب کیا تھا۔
یہ ڈرامہ 14جون 2004کو احمد آباد میں ہوا تھا جہاں مقامی پولیس نے ایک 19سالہ طالبہ عشرت جہاں سمیت چار افراد کو ایک پولیس مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ چاروں کا تعلق لشکر طیبہ سے تھا اور یہ گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے قتل کی سازش کررہے تھے۔ گجرات پولیس نے دعویٰ کیا کہ مارے جانے والوں میں امجد علی رانا کا تعلق پاکستان کے شہر بھلوال اور ذیشان جوہر کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا۔ سی بی آئی نے تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ یہ ایک جعلی پولیس مقابلہ تھا۔ ستیش چندرا ورما نے سی بی آئی کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی اور عدالت نے پولیس مقابلہ جعلی قرار دے دیا۔ ستیش نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس جعلی پولیس مقابلے میں کوئی پاکستانی شہری نہیں مارا گیا۔ گجرات پولیس نے امجد علی رانا اور ذیشان جوہر کے جعلی شناختی کارڈ بنوائے یہ دونوں دراصل مہاراشٹرا کے رہنے والے تھے۔ اسی ڈرامے کو سامنے رکھتے ہوئے ستیش چندرا ورما نے ممبئی حملوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا اور شاید ایسا ہی شک ہیمنت کرکرےکے ذہن میں بھی پیدا ہوا لیکن اسے فوراً موت کی نیند سلادیا گیا۔ ممبئی حملوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والے اجمل قصاب کی پاکستانی شہریت سے انکار نہیں کرتے۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ اجمل قصاب ممبئی حملوں سے کم از کم بیس دن پہلے گرفتار ہوچکا تھا۔ اصل حملہ آور جہاں سے بھی آئے تھے لیکن اجمل قصاب ان کا ساتھی نہیں تھا۔ اجمل قصاب کی پاکستانی شہریت کے بارے میں سب سے پہلے برطانوی اخبار دی آبزرور نے 7دسمبر 2008کو دعویٰ کیا تھا اور اس کے بعد نواز شریف کا یہ بیان سامنے آیا کہ اجمل قصاب کا تعلق اوکاڑہ کے ایک گائوں فرید کوٹ سے ہے۔ بعدازاں اس وقت کے وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات نے بھی اجمل قصاب کی شہریت کو تسلیم کرلیا لیکن اصل بات یہ تھی کہ پاکستان نے ممبئی حملوں کے کچھ مبینہ ملزمان کو پاکستان میں گرفتار تو کرلیا لیکن بھارت کی طرف سے تحقیقات میں پاکستان سے تعاون نہ کیا گیا۔ نواز شریف نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں ایک دفعہ پھر اجمل قصاب کو پاکستانی قرار دیا ہے لیکن بہتر ہوتا کہ وہ اجمل قصاب کے ساتھ ساتھ روندرا کوشک، کشمیر سنگھ، سربجیت سنگھ اور کلبھوشن یادیو کا ذکر بھی کرتے جنہیں بھارت نے دہشت گردی کے لئے پاکستان بھیجا تھا۔ نواز شریف کے بیان کو بھارتی میڈیا نے اپنے حق میں خوب استعمال کیا ہے لیکن ہمیں پاکستان میں ایک دوسرے سے لڑنے کے بجائے اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ سال پہلے دو پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو دیت کے نام پر رہا کردیا گیا تھا۔ اب ایک اور امریکی کرنل جوزف کو نکالنے کی کوشش ہورہی ہے جو ایک پاکستانی شہری کی موت کا ذمہ دار ہے۔ ہمارے سیاستدان روزانہ ایک دوسرے کو غدار قرار دیتے ہیں کیا نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان یہ بتانا پسند کریں گے ایک پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی 2003 میں کراچی سے اغوا ہوئی اور اب امریکی جیل میں ہے آج کل ہمارے ان بڑے بڑے سیاستدانوں کی شعلہ نوائی میں ڈاکٹر عافیہ کا ذکر کیوں نہیں ہوتا؟۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)