• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کو سنانے کے لئے میرے پاس انتخابات کے حوالے سے بہت سی کہانیاں ہیں۔ کچھ کہانیاں آپ نے میری زبانی سنی ہوں گی۔ کچھ کہانیاں آپ نے میرے دوستوں اور میرے دشمنوں کی زبانی سنی ہوںگی۔ سنی ہوئی اور سنی سنائی کہانیاں دوبارہ سننے سے صحت پر برا اثر نہیں پڑتا۔ ہم ویسے کے ویسے ہشاش بشاش رہتے ہیں۔ کھل کھلاتے رہتے ہیں۔ گول گپے کھاتے ہیں اور دل کھول کر گپے مارتے رہتے ہیں۔ انتخابات کے بارے میں گھسی پٹی پرانی کہانی سننے کے بعد ہم اپنے گریباں میں جھانک کر نہیں دیکھتے۔ گربیان میں جھانکنے والے کبھی صحت مند نہیں رہتے۔ وہ زندگی بھر اپنا سر کھجاتے رہتے ہیں۔ دیکھنے والے سمجھتے ہیں جیسے گہری سوچ میں غلطاں ہیں۔ درحقیقت ان کے سر میں جوئیں پڑ جاتی ہیں جو انہیں سوچنے نہیں دیتیں۔ اگر کسی کو سر کھجانے کی فرصت مل جائے تو اس شخص کے لئے اس سے بڑی نعمت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
انتخابات کے حوالے سے میرے پاس انیک قصے اور کہانیاں ہیں اب چونکہ انتخابات کی آمد آمد ہے۔ اس لئے ہر دوسرے یا تیسرے منگل کے روز میں آپ کو انتخابات کے حوالے سے ایک آدھ کہانی سناتا رہوں گا۔ ایک سال میں باون منگل آتے ہیں۔ میرے پاس انتخابات کے حوالےسے اتنی کہانیاں ہیں کہ ہر منگل کے روز میں آپ کو انتخابات کی ایک کہانی سنا سکتا ہوں۔ مگر میں ایسی غلطی کبھی نہیں کروں گا۔ ایسا کرنے سے منگل پانڈے ناراض ہو جاتے ہیں۔ منگل پانڈے جب ناراض ہو جاتے ہیں تب کوئی آپ سے راضی نہیں رہتا۔ اس لئے ایک آدھ منگل چھوڑ کر میں آپ کو انتخابات کے حوالے سے کہانیاں سناتا ہوں ۔ میں کوئی ایسا ویسا کہانی کار نہیں ہوں۔ انتخابات کے حوالے سے میں منجھا ہوا کہانی کار ہوں۔ میں اس قدر منجھا ہوا ہوں۔ کوئی شخص بیٹھے بٹھائے منجھا ہوا نہیں ہو سکتا۔ منجھا ہوا ہونے کے لئے آپ میں منجھا ہوا ہونے کی صلاحیتیں ہونی چاہئیں۔ مجھ میں منجھا ہوا ہونے کا ہنر ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ میں اپنی صلاحیتیں کسی سے نہیں چھپاتا۔ پاکستان میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انتخابات کے حوالے سے میرے پاس گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کا ایک بین الاقوامی ریکارڈ ہے۔ میں نے ایک بار نہیں بلکہ کئی بار انتخابات میں ایک سے زیادہ مرتبہ ووٹ ڈالے ہیں۔ ایک الیکشن میں میں نے اپنے علاوہ اپنے ایسے عزیز و اقارب دوست اور احباب کے ووٹ ڈالے تھے جو ایک عرصے سے یہ دنیا چھوڑ چکے تھے۔ ایک زندہ شخص مردہ لوگوں کے ووٹ سے اسمبلی کا ممبر بن گیا تھا۔
ایک مرتبہ میں نے اپنے گنجان آبادی والے پڑوس کے تمام ووٹروں کے ووٹ ایک ایسے امیدوار کے ڈبے میں ڈال دئیے تھے جو کراچی کے دیکھے بھالے بااثر لوگوں کا ڈبہ گول کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ کسی الیکشن میں ایسا بھی ہوتا تھا کہ دوسروں کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں ووٹ ڈالتے ڈالتے میں تھک جاتا تھا۔ اس لئے میں ووٹوں کی خالی گٹھیاں گھر لے جاتا تھا اور اپنے بال بچوں اور سالے سالیوں کو بٹھا کر ووٹوں پر مہریں لگواتا تھا۔ جعلی ووٹ ڈالنے میں میرا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اکثر سیاستدان ووٹ خریدتے تھے۔ میں ان کا کام خراب کر دیتا تھا۔ بکائو ووٹر جب تک آکر ووٹ ڈالیں، میں ان کی طرف سے اپنے امیدوار کے حق میں ووٹ ڈال دیتا تھا۔ سیاستدان چیختے چلاتے رہ جاتے تھے۔ مگر ان کے چیخنے چلانے سے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ میں نے کمال کر دیا تھا۔ تن تنہا میں نے ایک پولنگ اسٹیشن کے تمام ووٹ ایک ایسے امیدوار کے نام ڈال دئیے تھے جو چہرے پہ چہرہ اور سر پر وگ سجانے کا ماہر تھا۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ ہمارے ملک میں کیا اندھی لگی ہوئی ہے کہ ایک پولنگ اسٹیشن کے تمام ووٹ ایک امیدوار کے کھاتے میں ڈال دئیے جائیں اور کوئی اس دیدہ دلیری کا نوٹس نہ لے؟ ارے بھائی، جس کو نوٹس لینا چاہیے، میں اس ادارے کا ادنیٰ سا ملازم ہوں۔ میری دیدہ دلیری کے قصے دیومالائی قصوں کی طرح گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز والوں تک پہنچ گئے۔ انہوں نے اپنی ٹیم بھیجی۔ باریک بینی سے کھوج لگانے کے بعد ٹیم نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ ٹیم نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ حد سے گزر جانے کے بعد ہیرا پھیری دیدہ دلیری میں بدل جاتی ہے۔ اور دیدہ دلیری جب حد سے گزر جاتی ہے تب دلیری میں بدل جاتی ہے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے اعزاز کے ساتھ ساتھ ہم حکومت برطانیہ سے سفارش کرتے ہیں کہ اس دلیر شخص کو دنیا میں دلیری کا سب سے بڑا اعزاز وکٹوریا کراس دیا جائے۔ یعنی وکٹوریا کراس کے اعزاز سے نوازا جائے۔ مجھے امید ہے کہ اب آپ سمجھ گئے ہونگے کہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز والوں نے مجھے کیوں بین الاقوامی ریکارڈ سے نوازا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ نواز لیگ سے میرا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے مجھے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ سے نوازا ہے۔
آج منگل ہے۔ انتخابات کے حوالے سے کوئی قصہ سنانے کے بجائے میں نے آپ سے اپنا پریچہ کروایا ہے۔ یعنی میں نے آپ سے اپنا تعارف کروایا ہے۔ منگل پانڈے سے اجازت لینے کے بعد اگلے منگل کے روز میں آپ کو ایک ایسے الیکشن کے قصے سنائوں گا کہ آپ انگشت بدنداں ہو جائیں گے۔ حیرت سے چبا کر آپ اپنی انگلیاں لہو لہان کر ڈالیں گے۔ میں مبالغہ آرائی سے کام نہیں لے رہا۔ وہ انتخابات تھے ہی ایسے۔ انتخابات کے نتائج آتے ہی ہنگاموں کی آگ نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سیاسی اودھم بازی نے آنکھیں دکھائیں۔ ملک ٹوٹ گیا، مگر انتخابات کے نتائج ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ نتائج وہی رہے۔ ملک نہیں رہا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین