عہد ساز اداکار، دو دہائیوں تک پاکستان فلمی صنعت پر راج کرنے والے عظیم فنکار اوررعب دار آواز کے مالک محمد علی پہلے صداکار بنے اور پھر فلمسٹار۔ریڈیو سے جذبات کے اظہار کا فن ایسا ہاتھ آیا کہ فلموں میں گیت ہوں یا مکالمے، محمد علی کافن عروج پر دکھائی دیا۔1938ء میں بھارتی شہر رام پور کے سادات گھرانے میں پیدا ہونے والے محمد علی کو قدرت نے لازوال صلاحیتوں سے مالا مال کیاتھا۔ ان میں نہ صرف اداکاری کا ٹیلنٹ تھا، بلکہ وہ تعلیم میں بھی کسی سے پیچھے نہ تھے۔
محمد علی کے والد سید مرشد علی بہت بڑے دینی عالم تھے۔ محمد علی ابھی تین سال کے تھے کہ ان کی والدہ فوت ہو گئیں۔ ان کے والد سید مرشد علی نے ان کی پرورش کی خاطر دوسری شادی نہیں کی حالانکہ اس وقت ان کی عمر 35 برس تھی۔آزادی پاکستان کے بعد ان کا خاندان پاکستان ہجرت کر آیا۔ 1949ء میں محمد علی نے اسلامیہ اسکول ملتان میں داخلہ لیا۔ پھر ہواؤں کا رخ انہیں حیدرآباد لے گیا اور وہاں سے سٹی کالج حیدرآباد سے گریجوایشن کیا۔
محمد علی کو پائلٹ بننے کا شوق تھا اور وہ پائلٹ بن کر ایئر فورس جوائن کرنا چاہتے تھے۔ مگر معاشی حالات تنگ تھے ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ ایبٹ آباد جاکر ٹریننگ حاصل کرسکتے۔انہیں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا مشکل نظر آ رہا تھا۔ ذریعہ معاش کے لیے انہوں نے کوئی کام کرنے کا سوچا۔ ان کے بڑے بھائی ارشاد علی ریڈیو پاکستان حیدرآباد میں بطور ڈرامہ آرٹسٹ کام کر رہے تھے۔ انہوں نے ڈائریکٹر قیوم صاحب سے محمد علی کا تعارف کرایااور وہ 1956 ء میں ریڈیو پاکستان حیدر آباد میں بطور براڈ کاسٹر وابستہ ہو گئے جہاں ان کا معاوضہ دس روپے فی ڈرامہ تھا۔ وہ دور ریڈیو کا دور تھا جس کا جادو ہر جگہ بولتا تھا اور محمد علی کو یہ خداد ادصلاحیت حاصل تھی کہ ان کا لب و لہجہ اور آواز سننے والے کی روح میں اتر جاتے تھے۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے انہوں نے ریڈیو پاکستان بہاولپور اور پھر وہاں سے ریڈیو پاکستان کراچی کا رخ کیا۔ذوالفقار علی بخاری جو اس وقت ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان تھے، وہ ان کی صلاحیتوں کو جان گئے کہ ان کی صلاحیتیں صرف ایک صداکار کی ہی نہیں، بلکہ ان میں ایک اداکار بھی پنہاں ہے۔ انہوں نے محمد علی کو نامور شاعر اور فلم پروڈیوسر فضل احمد کریم فضلی سے متعارف کروایا اور انہوں نے محمد علی کو اپنی فلم '’’چراغ جلتا رہا‘‘میں مرکزی کردار کی پیشکش کی مگر محمد علی نے بطور ولن کام کرنے کی حامی بھری۔
1962ء میںریلیز ہونے والی فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ سے فنی کیرئیر کا آغاز کرنے والی محمد علی دو دہائیوں تک سپر سٹار بنے رہے۔ اس فلم میں صرف محمد علی ہی نہیں بلکہ زیبا، دیبا اور کمال ایرانی بھی پہلی مرتبہ پردہ سکرین پر دکھائی دئیے۔ محمد علی اور زیبا کے فلمی سفر کی یہ پہلی فلم تھی۔بعدازاں "علی زیب" کی جوڑی اتنی کامیاب ہوئی کہ انہوں نے تقریباً 75 فلموں میں اکٹھے کام کیا اور پھر 29ستمبر 1966ء کو دونوں زندگی بھر کے ساتھی بن گئے۔ فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ کا پریمئر 9 مارچ 1962ء کو نشاط سنیما میں ہوا جس میں فاطمہ جناح نے شرکت کی۔ فلم زیادہ کامیاب نہ ہو سکی مگر محمد علی کی اداکاری اور مکالمے بولنے کے انداز نے دوسرے فلم سازوں اور ہدایتکاروں کو ضرور متوجہ کر لیا اور جلد ہی ان کا شمار ملک کے معروف فلمی اداکاروں میں ہونے لگا۔
پہلی فلم کے بعد محمد علی نے ابتدائی پانچ فلموں میں بطور ولن کام کیا۔ انہوں نے 300 سے زائد فلموں میں اداکاری کی،جن میں 248 اردو، 17 پنجابی، 8 پشتو،1 بنگالی، 28فلموں میں بطور مہمان اداکار اور ایک ڈاکو منٹری فلم میں کام کیا۔ محمد علی نے باجی، 'شرارت، 'آگ کا دریا، 'ٹیپو سلطان، 'حیدر علی، 'حاتم طائی، '، 'خدا اور محبت، 'روٹی کپڑا اور انسان کے علاوہ بھی بے شمار اعلیٰ معیار کی فلموں میں کام کیا۔ان کی فلموں کی زیادہ تر ہیروئن انکی اپنی اہلیہ زیبا تھیں نیز ان فلموں میں زيادہ تر گانے جو ان پر فلمائے گئے ان کے گلوکار مہدی حسن تھے۔ دنیا انہیں شہنشاہ جذبات کے نام سے جانتی تھی۔ اداکاری کرتے وقت کردار میں خود کو ایسے ڈھال لیتے تھے کہ جب بھی کیمرے کے سامنے کسی جذباتی منظر کی عکس بندی کروارہے ہوتے تو ان کی آنکھوں سے خود بخود آنسو بہنا شروع ہو جاتے اور جب وہ منظر اسکرین پر چلتا تو دیکھنے والا بھی اس کو اتنی ہی شدت سے محسوس کرتا تھا۔ ان کی لازوال اداکاری کسی بھی کردار میں جان بھر دیتی تھی۔
دلیپ کمار جیسے کہنہ مشق اداکار بھی ان کی اداکاری اور شخصیت کے معترف تھے۔ راج کپور فیملی اور منوج کمار سے بھی ان کے ذاتی مراسم تھے۔ اس کے علاوہ وہ، نواز شریف کے دور میں مشیر ثقافت کے عہدے پر بھی فائز رہے۔پاکستان اور ہندوستان کے درمیان خیر سگالی کے فروغ میں ان کی خدمات فراموش نہیں کی جا سکتیں۔ محمد علی نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں اور مثبت شخصیت کی وجہ سے اداکاری کا نہ صرف وقار بلند کیا، بلکہ معاشرے میں فنکار کا کردار بھی واضح کیا۔ انہیں ان کی خدمات پر صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی، تمغہ امتیاز، اور دیگر بے شمار ایوارڈز سے نوازا گیا۔ مسقط عمان کے سلطان قابوس نے انھیں غیر سرکاری سفیر کی حیثیت سے تعریفی شیلڈ پیش کی، ایران کے شہنشاہ نے پہلوی ایوارڈ دیا۔پاکستان میں ہر سربراہ حکومت سے ان کے اچھے اور قریبی تعلقات قائم رہے۔ ان کے ذوالفقار بھٹو کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔بھٹو کی حمایت کرنے پر 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں انھیں جیل بھی کاٹنی پڑی۔ تاہم حالات ٹھیک ہونے کے بعد جنرل ضیاء ا لحق سے محمد علی کے اچھے اور قریبی تعلقات ہو گئے۔
وہ ضیاء الحق کے ساتھ 1983ء میں بھارت کے دورے پر بھی گئے۔ اس دورے کے دوران اندرا گاندھی نے جنرل ضیاء الحق سے خواہش ظاہر کی کہ محمد علی ہماری فلموں میں کام کریں، تاکہ فلموں کے ذریعے ہمارے تعلقات بہتر ہو سکیں، لہٰذا پاکستان آنے کے بعد ضیاء الحق نے خصوصی طور پر محمد علی کو ملاقات کے لیے بلایا اور بھارتی فلموں میں کا م کرنے کے لیے راضی کیا، یوں انھوں نے اپنی بیوی زیبا کے ساتھ منوج کمار کی فلم "کلرک" میں کام کیا لیکن جب منوج کمار نے فلم دیکھی تو محمد علی کی اداکاری کے سامنے خود کو کمترمحسوس کیا اس لیے اپنے تعصب کی بنا پرمحمد علی کا سارا اہم کام کاٹ کر ان کا کردار ثانوی کر دیا، جس کے باعث فلم بھی ناکام ہو گئی۔
محمد علی جتنے بڑے اداکار تھے اس سے بڑھ کر انسانیت کے خدمت گزارتھے۔پندرہ سال تک وہ اپنا ایک خیراتی ادارہ چلاتے رہے۔ انھوں نے "علی زیب فاؤنڈیشن" کے تحت سرگودھا، فیصل آباد، ساہیوال اور میانوالی میں تھیلسیمیا میں مبتلا بچوں کے علاج اور کفالت کے لیے ہسپتال قائم کیے، جہاں بلا معاوضہ بچوں کا علاج کیا جاتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ وہ آج بھی میرے ساتھ ہیں، فلمسٹار زیبا بیگم
ان کا کوئی دشمن نہیں تھا۔ وہ بہت اچھے اور شریف انسان تھے۔ اتنے اچھے شوہر تھے کہ میری دعا ہے کہ ہر بچی کو ایسا شوہر ملے۔ کاش میری زندگی کے یہ باقی دن بھی ان کے ساتھ گزرتے۔ لاجواب انسان تھے۔ ہر رشتے کے ساتھ مخلص تھے۔ ہماری لڑائی کبھی زیادہ نہیں بڑھتی تھی کیونکہ ہم دونوں نے ایک فیصلہ کیا ہوا تھاکہ جب ہم کہیں باہر ہوں گے اور میری کوئی بات انہیں یا ان کی کوئی بات مجھے بری لگے گی تو ہم لوگوں کے سامنے کبھی اس چیز کا اظہار نہیں کریں گے بلکہ گھر آکر بند کمرے میںبات کریں گے۔
حتیٰ کہ ہماری اولاد کو بھی نہیں پتہ ہوتا تھا۔وہ فرشتہ صفت انسان تھے۔ان میں اچھائیاں ہی اچھائیاں تھیں۔میں ان میں برائی ڈھونڈنے بھی بیٹھوں تو نہیں ملتی۔بس انہیں مجھ سے ایک گلہ ہوتا تھا کہ جلدی تیار ہوجایا کرو۔مجھے ان کی کمی محسوس نہیں ہوتی، ایسا لگتا ہے کہ وہ آج بھی میرے ساتھ ہیں۔