راف سانچر
اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ"اسرائیل مستقبل میں ایران کی جانب سے کسی بھی قسم کی فوجی جارحیت کا سامنا کرنے کے بجائے اس سے ابھی نمٹنے کے لیے ابھی تیار ہے"، ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب ایران جوہری معاہدے کے حامی اور مخالفین امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ان کے حتمی فیصلے سے متعلق اپیلیں کررہے تھے۔ (امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران جوہری معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کرچکے ہیں )
گھڑی کی ٹِک ٹِک کے ساتھ ساتھ ہفتے کی ڈیڈلائن کا وقت بھی قریب آتاجارہا ہے جس میں صدر ٹرمپ کو یہ اعلان کرنا ہے کہ امریکا اس معاہدے سے دست بردار ہو رہا ہےلیکن اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ جنگ زدہ شام میں ایرانی فوج کی موجوگی کیخلاف جنگ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ہم ایران کی اسرائیل کے خلاف جارحیت کو روکنے کے لیے پُرعزم ہیں اور یہ ہم بعد کے بجائے ابھی کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جو قومیںماضی میں وقت پر جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں تھیں انہیں بعد میں اُس کی زیادہ قیمت چکانی پڑی لیکن ہم ایسا نہیں چاہتے بلکہ ہم کسی بھی منظرنامہ کے لیے تیار ہیں۔
اسرائیل نے حالیہ ہفتوں کے دوران جنگ زدہ شام میں ایرانی فورسز پر کئی مرتبہ حملے کئے ہیں ، دونوں ممالک کے درمیان کشدگی اُس وقت مزید بڑھ گئی جب اسرائیلی وزیراعظم نے یہ اعلان کیا کہ اسرائیلی جاسوس اداروں نے ایران کے جوہری معاہدے کی ہزاروں فائلیں چوری کرلی ہیں۔
جیسے ہی نیتن یاہو نے ڈونلڈٹرمپ کو ایران کے"ناگزیر طور پر غلط" جوہری معاہدے کو ختم کرنے پر زور دیا ادھر ایران نے بھی امریکا کومعاہدہ ختم کرنے کیخلاف متنبہ کردیا ہے ۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکا کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکا ایرانی جوہری معاہدے سے دستبردار ہواتو اسے ندامت اُٹھانی پڑے گی جو اس نے تاریخ میں پہلے کبھی نہیں اُٹھائی ہوگی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ اور صہیونی حکومت(اسرائیل) کو یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ ہم لوگ متحد ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر امریکا نے دوبارہ پابندیاں لگائیں تو یہ ممکنہ طور پر یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کرسکتے ہیں ،جو ممکنہ طور پر ایران کے امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب جیسے عرب حریفوں کیساتھ تنازع کو دوبارہ جنم دے گا ۔
اسرائیلی حکام نے اتوار کے روز کہا ہے کہ وہ اس بات سے لاعلم ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایرانی جوہری معاہدے سے متعلق کیا فیصلہ کریں گے لیکن اگر وہ دستبردار ہوئے تو وہ کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں ۔
اسرائیلی حکام کا خیال ہے کہ اگر اس جوہری معاہدے کا خاتمہ ہوا تو حالات 2010 جیسے ہوجائیں گےکہ جب ایران یورینیم کی افزودگی کررہا تھا لیکن اسے امریکی پابندیوں کا سامنا بھی تھا، دوسری جانب ایران کی جوہری تنصیبات کو امریکا اور اسرائیل کے سائبر حملوں کے خطرات کا بھی سامنا تھا ۔
اسرائیل کے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ اگرایران پھر سے یورینیم کو افزودہ کرنا شروع کرتا ہے تو پھر امریکا اور اسرائیل کی جانب سے ردِعمل کے لیے تیار رہے۔
اس عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ انہیںیقین ہے کہ اگر امریکاایران پر تنہا بھی دوبارہ پابندیاں لگاتا ہے (اور روس اور یورپی ممالک معاہدے میں شامل رہتے ہیں ) تب بھی وہ تہران حکومت کو اقتصادی دباؤ میں ڈال سکتا ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ پُرامید ہیں کہ اقتصادی دباؤ سے ایران کی شام میں تعینات فوج کے ساتھ ساتھ لبنان میں عسکریت پسند گروہ حزب اللہ پر قابو پانے اور یمن میں بغاوت کے لیے حمایت فراہم کرنے کی صلاحیت کو محدود کرنے میں مدد حاصل ہوگی۔
اسرائیلی عہدیدار کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے ان کی "کیش مشین"پر پابندی لگنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے خاتمے سے جو دولت ایران نے حاصل کی وہ بالکل ایک "مملکت کے لیے انجن "ہے اوروہ اسی کے زریعے سے مشرق وسطیٰ میں اتحادی گروہوں کو مالی مدد کی فراہم کرتا ہے ۔
امریکی وزیر خارجہ بورس جانسن کی ملاقات امریکا کے نائب صدر مائیک پینس اور صدر ٹرمپ کے اعلیٰ سیکورٹی کے مشیر جان بولٹن سے رواں ہفتے واشنگٹن میں متوقع ہے۔ بورس جانسن نے وائٹ ہاؤس کو ایران کے جوہری معاہدے میں رہنے کی حتمی اپیل کر رکھی ہے۔
یہ بھی متوقع ہے کہ فرانس اور جرمنی ڈونلڈ ٹرمپ کو رواں ہفتے اپنے حتمی فیصلے سے آگاہ کریں گے۔
اگر ٹرمپ نے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کا اعلان بھی کیا تو یہ پابندیاں اتنی شدت کیساتھ براہ راست تہران کو متاثر نہیں کریں گے جس کے زریعے سے امریکا کے لئے ایران اور یورپ کیساتھ دوبارہ معاہدے کے لئے پھر سے مذاکرات کا راستہ کھلا ہوگا۔
ایک اسرائیلی عہدیدار کا کہنا ہے کہ مسٹر ٹرمپ اس قسم کے منظر نامے میں انتہائی طاقت سے بات چیت کریں گے۔
وزیراعظم نیتن یاہو نے جمعہ کے روز برطانوی وزیراعظم تھریسامے سےایرانی انٹیلی جنس کے حوالے سے بات کی تھی کہ اسرائیل نے تہران حکومت کی خفیہ فائلیں چوری کرلی ہیں ۔اس بات کا امکان ہے کہ برطانوی حکام اُن فائلوں کا معائنہ کرنے بیت المقدس آئیں گے۔
برطانیہ کے ایک اخباردی آبزرور کے مطابق یہ بھی اطلاعات ہیں کہ مسٹر ٹرمپ کے معاونین نے اوباما انتظامیہ کو جوہری معاہدے میں گندا کرنے کے لئے اس کی معلومات کوبےنقاب کرنے کے لیےایک اسرائیلی خفیہ ادارے کی خدمات حاصل کررکھی ہیں۔اس معلومات کا مقصد جوہری معاہدے کو بدنام کرنا ہے۔