• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بچوں کو الرجی سے محفوظ رکھیں

آج کے بچے انتہائی حساس پیدا ہورہے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ماں کے حاملہ ہونے کے روز اول سے ہی ماں کی خوراک کے ذریعے اکثر جو غذابچے تک پہنچنا شروع ہوتی ہے، اسے بالکل بھی صحت مند قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مرغن غذائیں، فرائیڈ فوڈز، پراسیسڈ کھانے، کاربوہائیڈریٹڈ ڈرنکس وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد جب بچہ اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو آج کے زیادہ تر بچوں کا انحصار ماں کے دودھ کے بجائے ’فارمولا مِلک‘ پر ہوتا ہے۔ ان ہی اور ان جیسی دیگر وجوہات کے باعث آج کے بچےجلد ہی اور ہر آئے دن مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں، جن میں ایک مسئلہ ’الرجی‘ کابھی ہے۔

بچوں میں الرجی کے مسئلے پر میڈیکل سائنس میں کئی برسوں سےتحقیق کا عمل جاری ہے۔ برطانیہ میں ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میں ’مونگ پھلی‘ کو اس (الرجی) کا حل قرار دیا گیا ہے۔ جی ہاں، ہم میں سے اکثر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ مونگ پھلی خود الرجی کا باعث بنتی ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ ڈاکٹرز خود الرجی سے متاثرہ افراد کو مونگ پھلی سے دور رہنے کا مشورہ دیتے تھے۔ اگر 10سال پیچھے چلے جائیں تو ایسی ریسرچ موجود ہیں، جن میں الرجی سے نمٹنے کے لیے مونگ پھلی کا استعمال سختی سے منع کیا جاتا تھا۔ تاہم اب نئی ہونے والی متعدد تحقیق میں اِ س نظریے کو یکسر مسترد کردیا گیا ہے۔

حالیہ چند برسوں میں مونگ پھلی اور بچوں میں الرجی کے تعلق پر جب نئی تحقیق کی گئی تو نتائج دیکھ کر ماہرین خود بھی حیران رہ گئے۔ تحقیق کے مطابق، بچپن میں مونگ پھلی سے تیار کردہ مصنوعات کے استعمال سے الرجی کا شکار ہونے کے خطرے میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں برطانیہ میں ڈاکٹرز بڑے پیمانے پر تجربات کررہے ہیں اور ان تجربات کے نتائج کافی حوصلہ افزاء بتائے جاتے ہیں۔

حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ، ابتدائی عمر میں مونگ پھلی سے تیار کردہ مصنوعات کے استعمال سے الرجی کا شکار ہونے کے خطرے میں کمی کی توثیق ایک سے زائد تحقیق نے کی ہے۔

اگر ہم چند سال پیچھےچلیں اور سن 2015کی بات کریں تو اس سال، اسی سلسلے میں ایک سروے کیا گیا تھا اور اس سروے میں پہلی بار یہ بات کی گئی تھی کہ بچوں کو چھوٹی عمر میں مونگ پھلیاں کھلانے سے اس سے ہونے والی الرجی سے 80فی صد تک بچنے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔

اب نئی تحقیق میں مزید پیش رفت سامنے آئی ہے اور محققین کہتے ہیں کہ الرجی سے ’مستقل‘ بچاؤ ممکن ہوسکتا ہے۔

انگلینڈ جرنل آف میڈیسن کی نئی تحقیق میں 550ایسے بچوں کا معائنہ کیا گیا، جن میں مونگ پھلی سے الرجی پیدا ہونے کا خطرہ تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ تحقیق نے بھی سنہ 2015میں ہونے والی تحقیق پر اپنے نتائج قائم کیے ہیں۔ 2015میں سامنے آنے والی تحقیق، کنگز کالج لندن کی جانب سے کی گئی تھی، جس میں پہلی بار سائنسدانوں کی توجہ اس جانب دلائی گئی تھی کہ بچوں کو مونگ پھلی کے اسنیکس یا دیگر تیار کردہ اشیاء محدود مقدار میں دینے سے ان میں الرجی پیدا ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

نئی تحقیق کے مطابق، اگر ایک بچہ اپنی پیدائش سے 11 ماہ کی عمر تک مونگ پھلی سے تیارکردہ اسنیکس کھاتا ہے اور پانچ سال کی عمر میں وہ یہ غذا ایک سال کے لیے چھوڑ دیتا ہے، تو اس میں الرجی پیدا نہیں ہوگی۔

اس تحقیق کے سربراہ پروفیسر گیڈیون تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’(تحقیق) سے واضح ہوتا ہے کہ بیشتر شیرخوار بچے محفوظ رہتے ہیں اور یہ تحفظ مستقل ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ لوگ ’غذا سے خوف کے ماحول‘ میں رہتے ہیں۔ یہ بات سچ بھی ہے۔ ہم میں سے اکثر والدین اپنے بچوں کو مختلف غذا دینے کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا رہتے ہیں۔ نتیجتاً، بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو اس وقت تک ان کی طبیعت ایسی ہوجاتی ہے کہ وہ کچھ چیزوں کو زندگی بھر ہاتھ نہیں لگاتے۔

پروفیسر گیڈیون اس بات کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں،’میرے خیال میں غذا سے الرجی کا خوف خودساختہ طور پیدا کردہ ہے، چونکہ غذا کو خوراک سے نکال دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں بچہ برداشت پیدا نہیں کر سکتا‘۔ پرفیسر نے اس پیچیدہ مسئلے کو انتہائی آسان الفاظ میں سمجھا دیا ہے، جسے شاید مزید بیاں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

محققین نے سنہ 2015 کی تحقیق میں شامل بچوں کو ہی استعمال کیا۔ اس میں سے نصف کو مونگ پھلی کے اسنیکس دیے گئے اور دیگر کی غذا صرف ماں کا دودھ تھی۔ محققین کا کہنا ہے کہ ’تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ چھ سال کی عمر میں، 12 مہینے کے تعطل کے بعد بھی عددی اعتبار سے الرجی میں اضافہ نہیں ہوا ہے، ان بچوں میں جنھوں نے (2015کے) تجربے میں مونگ پھلیاں کھائی تھیں‘۔

تحقیق میں ان بچوں کو شامل کیا گیا تھا جنھیں مونگ پھلی کی الرجی کا خطرہ تھا اور ان کی جلد پر خارش جیسی ابتدائی علامات ظاہر ہونا شروع ہوچکی تھیں۔

تحقیق میں شریک پروفیسر لیک سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ کیا ایسا 12 ماہ سے زائد عرصے تک بھی رہ سکتاہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نتائج الرجی کی دیگر اقسام پر بھی لاگو کیے جا سکتے ہیںلیکن انہوں نے والدین کو متنبہ کیا کہ وہ اپنے گھر میں یہ تجربہ نہ کریں۔ماہرین کو توقع ہے کہ آنے والے عرصے میں اس طرح کی تحقیق سے نتائج زیادہ واضح ہوں گے، جن کی روشنی میں بچوں میں الرجی کے خلاف قابلِ عمل اقدامات لینا ممکن ہوگا۔

تازہ ترین