کچھ عرصے قبل تک سندھ کے عوام ڈکیتیوں، اغواء برائے تاوان اور امن و امان کی مخدوش صورت حال کی وجہ سے پریشان ہوکر سکھر سمیت دیگر شہروں سے نقل مکانی پر مجبور ہوگئے تھے،کاروباری سرگرمیاں اورصنعتی ترقی دم توڑتی جارہی تھی جب کہ معیشت کا پہیہ جام ہوگیا تھا۔لیکن چند ماہ پیشتر، سندھ پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے، کئے جانے والےاقدامات، جن میں صوبے بھر کے روپوش و اشتہاری ملزمان کا ڈیٹا کمپیوٹرائزڈ کئے جانے، آن لائن رپورٹنگ سینٹروں کے قیام، سندھ و پنجاب پولیس کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے کے لئے کرائم رجسٹریشن مینجمنٹ سسٹم (سی آر ایم ایس) ایپلی کیشن متعارف کرانے اور اسی نوع کے دیگر اقدامات کے بعد پولیس کی جانب سے سندھ بھر میں ڈاکوئوں، جرائم پیشہ اورسماج دشمن عناصر کا قلع قمع کردیا گیا ہے۔ کچے کا علاقہ جو ڈاکوؤں کی آماج گاہ تھا، اور وہ اپنی کمیں گاہوں سے نکل کر شہری علاقوں پر یورش کرتے تھے۔
مصروف شاہراہوں سے وہ تاجروں اور صنعت کاروں کو اغوا کرکے تاوان طلب کرتے تھے اور عدم ادائیگی پر وہ مغویوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔فیکٹریوں اور کارخانوں سے بھتہ طلب کرتے تھے، نہ ملنے پر وہ انتقامی کارروائیاں کرتے ہوئے نہ صرف ان کے مالکان کو نقصان پہنچا تے تھے بلکہ بعض اوقات فیکٹریوں اور کارخانوں کو بھی نذر آتش کردیتے تھے، زمیںداروں سے تاوان طلب کرتے تھے، عدم ادائیگی پر وہ فصلیں اوراناج کے گودام بھی نذرآتش کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ ان کی کارروائیوں سے قومی شاہ راہ کے علاوہ، اندرون شہر کی کوئی بھی سڑک یا علاقہ محفوظ نہیں تھا حتیٰ کہ لوگ اپنے گھروں میں بھی خود کوغیر محفوظ سمجھتے تھے۔
لیکن سکھر پولیس کی دن رات کی محنت سے اب یہاں کے شہریوں نے سکون کا سانس لیا ہے۔ کچے کے جنگلات میں آپریشن کلین اپ کے بعد لوگ اب محفوظ و مامون ہوگئے ہیں ، کچے کے علاقوں میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چوکیاں قائم ہوگئی ہیں۔ ڈاکوئوں کی کمین گاہیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ اغوا برائے تاوان اور ڈکیتیوں کی وارداتیں جو کہ سکھر اور قرب وجوار علاقوں میں صنعت کا درجہ اختیار کرچکی تھیں ان کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ پہلے قومی شاہراہ، انڈس ہائی ویز یا لنک روڈز پر دن کے وقت بھی لوگ سفر کرتے ہوئے خوف و ہراس میں مبتلا رہتے تھے ، اسٹریٹ کریمنلز مصروف شاہ راہوں پر دندناتے پھرتے تھے اور وہ دن دہاڑے لوگ اپنی قیمتی اشیاء سے محروم کردیئے جاتے تھے۔ لیکن اب اس صورت حال سے انہیں نجات مل چکی ہے اور تاجر و صنعت کار بلا خوف و خطر نہ صرف دن بلکہ رات کے اوقات میں بھی سفر کرتے ہیں اور نقد رقومات و قیمتی اشیاء کے ساتھ کراچی آتے اور جاتے ہیں، نہ تو انہیں اسٹریٹ کرائم کا خطرہ ہوتا ہے اور نہ ہی ڈاکوؤں کا خوف۔ پولیس کی جانب سے امن وامان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے جوقربانیاں دی گئیں اور افسران کی جانب سے ضلع میں امن و امان کے قیام کے لیے جو اقدامات کیے گئے، انہیں سکھرکی تاجر و صنعت کار برادری کے علاوہ دیگر شعبہ ہائےزندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جس کا اظہار ان کی جانب سے گزشتہ دنوں ایک تقریب کے موقع پر کیا گیا۔ صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال، گزشتہ دنوں ایک روزہ دورے پر سکھر پہنچےتوانہوں نے ڈی آئی جی آفس سکھر میں اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے امن وامان کی مجموعی صورتحال ، سی پیک منصوبے کی سیکیورٹی، نیشنل ایکشن پلان پرعمل درآمد ، ڈاکوئوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف جاری آپریشن ،سپریم کورٹ کے احکامات پرسیاسی، مذہبی اور دیگر اہم شخصیات سے سیکیورٹی اہل کار واپس لئے جانے ، خواتین پر تشدد کی روک تھام کے حوالے سے قائم کئے جانے والے وومین پروٹیکشن سیل اور ویمن تھانوں سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، کچے کے جنگلات میں ڈاکوئوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں اور قومی شاہ راہوں، انڈس ہائی وے سمیت شہری و دیہی علاقوں میں جرائم کی روک تھام اور دیگر امور پرپولیس حکام نے انہیں تفصیلی بریفنگ دی۔
صوبائی وزیر داخلہ کی سکھر آمد کے موقع پر ایوان صنعت و تجارت میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں امن و امان کی بحالی پر پولیس کی کاوشوںکو خراج تحسین پیش کیا گیا اور ایس ایس پی سکھر امجد احمد شیخ کو ان کی مثالی خدمات پر شمشیر اعزاز دی گئی۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سہیل انور سیال نے کہا کہ، آج سندھ میں امن و امان کی صورت حال دیگر صوبوں سےنسبتاً بہتر ہے۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا قلع قمع کردیا گیا ہے ۔ آپریشن ضرب عضب، آپریشن رد الفسادکرکے،پاکستان کی مسلح افواج، رینجرز، قانون نافذ کرنے والے اداروں اورپولیس نے مشترکہ طور پر کراچی سے کشمور تک سندھ میں مثالی امن قائم کیاہے۔ جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا، اس وقت صوبے میں امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش تھی، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں روز کا معمول بن چکی تھیں، لوگ بالخصوص صنعت کار و تاجر برادری عدم تحفظ کا شکار تھی، عوام میں پولیس کا تاثر اچھا نہیں تھا۔ لیکن اب صورت حال اس سے قطعی مختلف ہے، آج لوگ نہ صرف سکھ کی نیند سوتے ہیں بلکہ کاروباری زندگی میں بھی راوی ان کے لیے چین ہی چین لکھتا ہے ۔2008 میں پولیس کی نفری ایک لاکھ تھی، اس وقت ایک لاکھ 49 ہزار ہے جو بہترین تربیت یافتہ اور جدید آلات اور ہتھیاروں سے لیس ہے۔
شکارپور، خیرپور، گھوٹکی، کشمور، جیکب آباد، لاڑکانہ، دادو سمیت سندھ بھر کے صنعت کار و تاجر خود کو محفوظ سمجھتے ہیں اور ان کا پولیس پر اعتماد بحال ہوا ہے۔ سندھ حکومت نےتمام پولیس افسران کو یہ احکامات دیے ہیں کہ وہ صنعت کاروں، تاجروں اور عوام کے درمیان رابطوں کو مزید مضبوط کریں اور امن و امان کی مثالی صورتحال کو بحال رکھنے کے لئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں۔