اسلام آباد(طاہرخلیل)اس وقت سب کی نظریں سید خورشید شاہ کی جیب پرلگی ہیں، جیب میں ایک چٹ پر انہوں نے نگران وزیراعظم کے نام لکھے ہوئے ہیں ۔ اپوزیشن لیڈر کی وزیراعظم سے نگران حکومت کے قیام پرپانچویں مشاورت بھی بے نتیجہ رہی ، وزیراعظم ترکی کےلئے عازم سفر ہوئے اسلئے اب معاملہ منگل تک طے ہونے کا امکان ہے ۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ایک نام ایسا ہے جس پرتمام جماعتیں اتفاق کرلیں گی ۔ دیکھنا ہوگا کہ وزیراعظم عباسی کی امید افزا باتیں منگل تک قوم کو خوشخبری دے سکیں گی ؟۔وزیراعظم پہلے ہی پیش کش کر چکے ہیں کہ قائد حزب اختلاف جو بھی نام دیں گے میں بطور وزیراعظم قبول کر کے اس کا اعلان کر دوں گا۔ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر یہ اصولی فیصلہ کر چکے ہیں کہ اس بار نگران وزیراعظم کا معاملہ الیکشن کمیشن تک جانے کی نوبت نہیں آئے گی اور باہمی اتفاق رائے سے یہ نام فائنل کر لیں گے ۔ جمعہ کو نگران وزیراعظم کےلئے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مشاورتی اجلاس کے ساتھ ایک اور اہم پیش رفت دیکھنے میں آئی کہ غیر یقینی صورت حال کے باعث آٹھ وفاقی سیکرٹری رخصت پر چلے گئے ۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ بیوروکریسی نے یتور بدل لئے ہیں اور اہم امور پر فیصلہ سازی موخر کر دی ہے ۔ سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ چیف منسٹر ہائوس سے ذاتی گھر منتقل ہو گئے ہیں ۔ اسلام آباد کا منسٹر انکلیو بھی ان دنوں عجیب سماں پیش کر رہا ہے ۔وزرأآئندہ چند روز تک پرائیوٹ بنگلوں میں منتقل ہو جائیں گے ۔ موجودہ حکومت کے جانے میں اب محض 12دن باقی ہیں ، قومی بجٹ کی منظوری کے ساتھ ہی اراکین پارلیمنٹ کی اپنے حلقوں میں واپسی ہو چکی ہے ۔ان تمام عوامل سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نے رخصت سفر باندھ لیا ہے اور وہ نئے انتخابات بقول وزیراعظم خلائی مخلوق بھی کرائے گی تو تب بھی ان کی پارٹی یعنی مسلم لیگ (ن) اس میں حصہ لے گی ،تاہم اس بار مسلم لیگ (ن) کو اپنے سپریم لیڈر نواز شریف کے سا تھ بیٹھ کر کچھ باتوں پر اتفاق رائے کرنے کی ضرورت ہے ۔ جس کا اظہار دو روز قبل اسلام آباد میں حکمران پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں متعدد اراکین کی طرف سے میاں صاحب کے بیانیے سے اختلاف کی صورت میں ہوا تھا ۔ میاں شہباز شریف اور وزیراعظم نے وعدہ کیا تھا کہ وہ میاں نواز شریف کو ارکان کے تحفظات سے آگاہ کرکے بیانہ نرم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے ۔ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ پارٹی کے تاحیات قائد کے بیانیے میں نرمی آئے گی ؟۔ چوہدری نثار علی خان سمیت اہم لیگی رہنما اصرار کر رہےہیں کہ میاں صاحب اپنے سخت موقف میں لچک پیدا کریں ۔اس حوالے سے وزیراعظم اور میاں نوا زشریف متضاد راہوں کے مسافر نظر آتے ہیں ۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار نہیں ۔ دہشت گردی سمیت درپیش معاشی چیلنجز پر قابو پالیا گیا ہے ۔بجلی ، گیس کے مسائل بھی حل ہوگئے ہیں جبکہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کا کہنا ہے کہ 28جولائی کے فیصلے کے بعد سے ملک انتشار کاشکار ہوا، اقتصادی ترقی کی رفتار رک گئی زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں، یعنی ایک طرف وزیراعظم کی امید افزا باتیں ہیں اور دوسری جانب قائد محترم کے اشاریے جو اپنی ہی جماعت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں ، اور کہا جارہا ہے کہ وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوتے ہی سب کچھ یوں بدل گیا جیسے یہ تاش کے پتوں کاگھر وندہ تھا جو زمین بوس ہوگیا ۔