نوازشریف احمق نہیں ہیں۔ یہ کہنا کہ انٹرویو میں دھوکے سے اُن کے منہ سے کچھ الفاظ بلا ارادہ نکل گئے، اُنہیں ایک سوچ سمجھ رکھنے والے انسان کے منصب سے گرانے کے مترادف ہے ۔لیکن ہمارے ہاں ایک اخلاقی روایت موجودہے ۔چھوٹا بھائی اعلانیہ طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ بڑا بھائی غلطی پر ہے۔ یہی اخلاقیات ہر اُس شخص کو آنکھیں دکھاتی ہے جو سیکورٹی پالیسی پر تنقید کرتا ہے ۔ ہم خود کو بتاتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے گندے کپڑے گلی میں نہیں دھونے چاہئیں۔ گویا غلطیوں کا اعلانیہ اعتراف کرنے سے گریز ہوگا ۔یہی وجہ ہے کہ پی ایم ایل (ن) ہمیشہ نون لیگ ہی رہے گی، چاہے اس پر کسی بھی شریف کا کنٹرول کیوں نہ ہو۔ اور اسی وجہ سے ہم سول ملٹری عدم توازن کو دیکھتے لیکن کھل کر بات نہیں کرتے ہیں۔
ڈ ان لیکس سے اٹھنے والے ہنگامے کے بعد سرل المیڈا کی انٹرویو کی درخواست قبول کرتے ہوئے نواز شریف نے ایک پیغام دیا تھا۔ دراصل سرل المیڈا نے نوازشریف کو کسی مقصد کے لئے نہیں چنا، نوازشریف نے سرل کو اپنا پیغام دینے کے لئے چنا تھا۔ پیغام یہ تھا کہ نواز شریف کو پتہ ہے کہ اُن پر مسلط کی گئی جنگ کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اور وہ ڈریں گے نہیں، بلکہ چیلنج قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ غیرریاستی عناصر کے بارے میں بات کرتے ہوئے نوازشریف نے استفہامیہ انداز میں پوچھا۔۔۔ ’’کیا ہمیں اُنہیں اجازت دینی چاہئے کہ وہ سرحد پار ممبئی میں ایک سو پچاس افراد کو ہلاک کردیں؟‘‘ ماضی کے کسی فعل کے لئے لفظ ’’اجازت دینا‘‘ ایک سے زیادہ تشریحات کا حامل نہیں ہوسکتا۔
اس وضاحت کا سب سے نرم پہلو یہ نکلتا ہے کہ نوازشریف الفاظ کے استعمال میں زیرک یا دانا نہیں ہیں۔ وہ اچھی سوچ رکھنے والے محب وطن، اور اس دھرتی کے بیٹے ہیں، لیکن اُن کے الفاظ کا کچھ اور مطلب نکالا گیا۔ شہباز شریف اور وزیر ِاعظم عباسی اس وقت یہی کچھ کہنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نوازشریف اس وضاحت کے ساتھ نہیں کھڑے ہیں۔ وہ بیان کا حوالہ بھی دیتے اگر اُن کا مطلب کچھ اور ہوتا۔ لیکن اُنھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔ پی ایم ایل (ن) کی رسمی وضاحت بے معنی اور مبہم ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر، نوازشریف نے نیشنل سیکورٹی کونسل کے اعلامیے کو مسترد کردیاہے ۔
کسی بھی جارحانہ تقریر کے بعد سب سے بہتر دفاع سچائی پر کھڑے رہنا ہوتاہے ۔ تاہم یہاں یہ اصول لاگو نہیں ہوتا۔ نوازشریف پالیسیوں پر تنقید کرنے والے کوئی عام شہری نہیں ہیں۔ وہ گزشتہ تین دہائیوں سے اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہیں۔ گزشتہ سال تک وہ تیسری مرتبہ منتخب ہونے والے وزیر ِاعظم تھے ۔ وہ کسی بھی سویلین سے زیادہ اندر کی بات جانتے ہیں۔ چنانچہ اُن کے بیان کو یک لخت آنے والا اچھوتا خیال کہنا درست نہیں۔ نوازشریف کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے گھنٹوں کے حساب سے اس موضوع پر بحث کی تھی، جس کے افشا کو ڈان لیکس کا نام دیا گیا۔ تو پھر اُنھوںنے اُس وقت اپنے دو وزراکو قربانی کا بکرا کیوں بنایا تھا؟
نوازشریف اس وقت وہ کچھ کہہ رہے ہیں جس کی رپورٹ ڈان نے اُس وقت دی تھی ۔ نیشنل سیکورٹی کونسل کے سویلین دھڑے کا کہنا تھا کہ سیکورٹی پالیسی نے پاکستان کو دنیا میں تنہا کردیا ہے ۔ نیز دنیا ہمارے اس بیانیے پر اعتماد کرتی دکھائی نہیں دیتی کہ ہم دہشت گردی کو کسی طور برداشت نہیں کرتے ۔ دنیا کو شک ہے کہ ہماری ’’اچھے اور برے دہشت گرد ‘‘ میں تمیز ابھی ختم نہیں ہوئی ۔ اگر اُن وزرا کو قومی سلامتی کی خفیہ بحث کو افشا کرنے کی پاداش میں عہدوں سے ہٹایا گیا تھا، توپھر اس وقت یہ چیز نوا ز شریف کے لیے خود کیوں کر درست ہوگئی؟ وہ اندرونی معلومات عوام کے سامنے کیوں لارہے ہیں؟
سچی بات کرنے والوں کی سرزنش بھی کی جاتی ہے اور ستائش بھی۔ ایسے لوگ ان سائیڈر ہوتے ہیں۔ تو کیا نوازشریف ایک انقلابی لیڈر ہیں؟ اگر وہ ایسے ہوتے تو ہمیں بتاتے کہ ہماری غیر حقیقی پالیسیاں کیا ہیں اور وہ کس طرح ہمارے قومی مفاد کو نقصان پہنچا رہی ہیں، نیز انہیں کیا ہونا چاہئے؟ اگر ایسا ہوتا تو اس جرات کو سلام کیا جاتا۔ لیکن یہ بازو سب کے آزمائے ہوئے ہیں۔ ہم نے اسی نواز شریف کو فوجی عدالتوں کی وکالت کرتے اور قائم کرتے دیکھا۔ دھرناختم کرانے کے لئے راحیل شریف کو اختیار دے دیا۔ اقتدار سے باہر کیے جانے تک اسٹیبلشمنٹ کی ہر بات مانی ۔ تو جرات رندانہ کہاں تھی؟
میثاق ِ جمہوریت میں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو نے ’’Truth and Reconciliation Commission‘‘ قائم کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ یہ کمیشن فوجی شب خون کے ساتھ ساتھ دیگر واقعات جیسا کہ کارگل کی بھی تحقیقات کرتا۔ لیکن یہ 2006 ء کی بات ہے ۔ اس کی بجائے 2007ء میں پی پی پی نے مشرف کے ساتھ مفاہمت کرلی، اور مذکورہ کمیشن قائم نہ کیا جاسکا۔ ا س کے بعد 2008 ء میں پی پی پی اقتدار میں آگئی۔ لیکن جب نوازشریف 2013 ء میں اقتدار میں آئے تو اُنہیں کمیشن قائم کرنے سے کس نے روکا تھا؟ اب ایک مرتبہ پھر اقتدار سے چلتا کئے جانے کے بعد وہ اس کے قیام کا مطالبہ کررہے ہیں۔
انقلاب کا نعرے لگانے والے اصولوں پر کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ کسی خوف کے بغیر اتھارٹی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔ نوازشریف کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس بہت سے راز ہیں، جنہیں وہ وقت آنے پر ظاہر کریں گے۔ قیاس ہے کہ وہ دھرنے کے پیچھے اصل ہدایت کار کو ظاہر کرنے کی بات کررہے ہیں۔ لیکن وہ اس بات کی وضاحت کیسے کریں گے کہ اگر اُن کے پاس یہ معلومات تھیں تو اُنہوں نے اتنی دیر تک اپنے سینے میں کیوں چھپائے رکھیں۔ اگر وہ جانتے تھے، جیسا کہ وہ تاثر دے رہے ہیں، کہ کچھ افسران اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاست میں ملوث تھے، اور وہ عوام کی منتخب حکومت غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہے تھے تو اُن کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کیوں نہ کی گئی؟ کیا نوازشریف نے یہ معلومات کسی اور مناسب وقت کے لئے چھپا رکھی تھیں؟
پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشمکش اختیار، نہ کہ اصولوں کے لئے ہے۔ ہم 2018 ء کے عام انتخابات میں جیتنے اور ہارنے والوں کو دیکھیں گے لیکن سول ملٹری تنائو کی وجہ سے یہ پاکستان ہے جو آخرکارہارے گا۔ نوازشریف نے کئی ایک انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ بن کر کامیابی حاصل کی تھی۔ اب وہ اسی مقصد کے لئے اسٹیبلشمنٹ مخالف آواز کے طور پر ابھرنے کی توقع رکھتے ہیں۔ لیکن وہ اپوزیشن رہنما، جو اُنہیں غدار قراردے رہے ہیں، اُن کے سفر سے سبق سیکھیں۔
اس وقت پاکستان میں اس پر کوئی اتفاق رائے موجود نہیں کہ ملک کو کون چلائے گا اور کیسے چلائے گا؟ نظریہ ضرورت ہمارے نظام کا لازمی حصہ ہے۔ اس وقت یہ پہلے سے بھی توانا ہو کر اپنی ضرورت کا احساس دلا رہا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فطرت خلا نہیں رہنے دیتی۔ چونکہ ایگزیکٹو اپنا کام نہیں کررہا تھا، اس لئے کسی نہ کسی کو قدم بڑھانا پڑا۔ یہی ضرورت فوجی مہم جوئی اور کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا جواز پیش کرتی ہے۔ اس تریاق کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ صرف ایک بیماری کا ہی علاج نہیں کرتا، بہت سے دیگر نقائص دور کرنے کی ذمہ داری بھی اٹھا لیتا ہے۔ چنانچہ اس سے کوئی بہتری نہیں آتی۔ ہمارا طرزعمل یہ رہا ہے کہ ہم اداروں کو درست کرنے کی بجائے اُن کی ساکھ خراب کرتے، اور انہیں نظر انداز کرکے تمام امور ون ونڈو آپریشن کے حوالے کردیتے ہیں۔ ہمارے ہاں اسی کو مسیحائی کہتے ہیں۔
دسمبر 2016 ء میں نئے آرمی چیف کا تقرر کرتے وقت پی ایم ایل (ن) کے پاس تمام اختیار موجودتھا۔ اُس وقت میں نے لکھا تھا۔۔۔ ’’پاکستان میں سول ملٹری اختیارات کی حدود واضح نہیں ہیں۔ درحقیقت یہ ایک دوسرے کو کراس کرجاتی ہیں۔ سویلین حکومتوں اور فوج کے درمیان رسہ کشی جاری رہتی ہے۔ حریف ریاست کی سیاسی طاقت کو اپنے بس میں کرنے کے لئے بر سرپیکار رہتے ہیں۔ ان کی تمام توانائیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں صرف ہوتی ہیں۔ اس دوران فوج اپنی طاقت میں پھیلائو کو ضروری سمجھتی ہے۔ چونکہ پیشہ ورانہ اصول توسیع پسندی کے راستے میں حارج ہوتے ہیں، اس لئے یہ سویلین اداروں کو ’’دیگر‘‘ قرار دینے کی پالیسی اپنا لیتی ہے۔‘‘
’’دوسری طرف سویلین حکومت بھی اداروں کو تقویت دینے کی ضرورت سے بے نیاز رہتی ہے۔ سویلین اداروں کے درمیان پایا جانے والا عدم توازن دور کرنے کی مطلق کوشش نہیں کرتے۔ اداروں کو چلانے کے لئے ایسے افراد کا چنائو کرتے ہیں جن کی واحد اہلیت حکمران جماعت کے قائد کے ساتھ وفاداری ہوتی ہے۔ اس ناکام پالیسی کو جاری رکھنے کا مطلب ہے کہ وہ مسئلے کو سمجھنے کے قابل نہیں ہیں۔ چنانچہ ہم عشروں سے دیکھ رہے ہیں کہ سویلین طاقت کی کمزوری فوج کی پیش قدمی کا باعث بنتی ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ‘‘
’’اگر نواز شریف کو یقین ہے کہ ذاتی وفادار افراد اداروں کو چلا لیں گے، تو وہ ایک مرتبہ پھر سویلین بالادستی کھو بیٹھیں گے۔ اگر نئے آرمی چیف کا بھی تاثر یہ بن جاتا ہے کہ وہی ملک کے مسیحا ہیں تو اُن کی سویلین حکومت کے لئے برداشت کم ہوتی جائے گی۔ 2018 ء میں یہ تنائو اپنے عروج پر پہنچ جائے گا۔ اگلے پانچ سال کے لئے پی ایم ایل (ن) کی حکومت اسی طرح ناقابل برداشت ہوگی جس طرح 2008 ء میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاہدہ کرکے آنے والے پی پی پی کی حکومت 2013 ء تک ناقابل برداشت ہوگئی تھی۔‘‘
چنانچہ اب ہمارے سامنے یہ کھیل کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہورہا ۔ اس کا تعلق الیکشن یا صحیح اور غلط کی بحث کے ساتھ نہیں۔ اب یہ تنائو اچھائی اور برائی، اور محب وطن اور غدار کی بحث میں ڈھل چکا ہے۔ لیکن ایک مرتبہ جب انتخابات ہوجائیں گے، نئی حکومت قائم ہوجائے گی تو پھر ہمیں یکایک احساس ہوگا کہ سول ملٹری اختیارات میں عدم توازن موجود ہے۔ وہ وقت ہوگا جب ہم نئے غدار اور نئے محب وطن تراشیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)