امریکی ریٹیل چین اسٹور ’وال مارٹ‘ دنیا کا سب سے بڑا ریٹیلر ہے۔31جنوری 2018کو ختم ہونے والے مالی سال میں وال مارٹ نے 511ارب 37کروڑ ڈالر کی’ اِن۔اسٹورز‘ اور ’آن لائن‘ اشیاء فروخت کیں۔ایک ایسے وقت میں جب ای۔کامرس، خریداری کا تیزی سے مقبول ہوتا ذریعہ بن رہا ہے، امریکا اور دنیا کے کئی ممالک میں وال مارٹ اب بھی پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔ آمدنی کے لحاظ سے وال مارٹ کے مقابلے میں آن لائن ریٹیلر ’ایمازون‘ ابھی کتنا دور ہے، یہ اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسی عرصے میں ایمازون کی آمدنی 138ارب ڈالر رہی۔ وال مارٹ، امریکا کی 1% ورک فورس کو روزگار فراہم کرتا ہے، جب کہ دنیا بھر میں اس کے ملازمین کی تعداد 23لاکھ ہے۔ دنیا بھر میں اس کے صارفین کی تعداد 27کروڑ سے زائد ہے اور ان میں اضافہ ہورہا ہے۔
1962میں سیمیول والٹن نے وال مارٹ کی بنیاد ایک مقصد کے تحت رکھی تھی:’’شاپنگ میںپیسے بچائیں، بہتر زندگی گزاریں‘‘۔ آج اتنے برس بعد بھی وال مارٹ اپنے مقصد سے نہیں ہٹا۔
سیمیول والٹن کی کہانی
سیمیول والٹن، جنھیں اکثر ’مسٹر سیم‘ کے نام سے پُکارا جاتا تھا، 1918میں کنگ فشر، اوکلاہوما میں پیدا ہوئے۔ سیمیول والٹن نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کی ابتدائی زندگی جس طرح گزری تھی، اس کو مدِنظر رکھ کر کوئی بھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ یہ شخص کبھی ’وال مارٹ‘ جیسے زبردست اور دنیا کے سب سے بڑے ریٹیل چین اسٹور کا مالک بن سکتا تھا۔سیمیول والٹن نے ایک چھوٹی سے کریانے کی دکان سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا تھا اور اپنی جدت اور لگن کے باعث وہ ترقی کی منزلیں طے کرتے چلے گئےاور چند ہی برسوں میں ان کی چین دنیا بھر میں نام بنا چکی تھی۔ سیمیول نے کم عمری میں ہی بہت سے کام ایک ساتھ سنبھالنا شروع کردیے تھے۔ وہ دن میں بھینسوں کا دودھ بذات خود نکالتے اور پھر اس دودھ کو بوتلوں میں پیک کرکے گھر گھر جاکر دے آتے۔ شام میں وہ ’کولمبیا ٹریبیون‘ اخبار بیچتے۔ اس کے لیے بھی وہ فیکٹری سے اخباروں کی گٹھری اُٹھاتے اور گھر گھر جاکر اخبار ڈراپ کرتے۔ کالج کی تعلیم کے حصول کے درمیان وہ کبھی کبھار ریسٹورنٹس اور کیفے میں جاکر پارٹ ٹائم ویٹر کی نوکری بھی کرلیتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران 24برس کی عمر میں سیمیول نے امریکی فوج میں شمولیت اختیار کرلی اور 1945میںجنگ ختم ہونے پر اسے کو خیرباد کہہ دیا۔ اسی دوران 1943میں انھوں نے ہیلن روبسن سے شادی کرلی۔ ملٹری سروس ختم ہونے کے بعد سیم اپنی بیگم کے ساتھ آئیووا اور پھر نیوپورٹ منتقل ہوگئے۔ 1950ء میں والٹن نے نیوپورٹ کو بھی خیرباد کہہ دیا اور بینٹن وِل(Bentonville) منتقل ہوگئے۔ اسی عرصے میں سیمیول نے ریٹیل کاروبار میں تجربہ حاصل کیا اور اپنا ایک ورائٹی اسٹور کھول لیا۔ اسٹور کھولنے کے لیے انھوں نے پیسے اُدھار لیے تھے۔ اپنے اسٹور میں انھوں نے مختلف سازوسامان رکھا۔ ان کا آئیڈیا باقی تمام اسٹورز سے بہتر اور مختلف تھا۔ اس زمانے میں کازمو، میٹرو اور ٹوائز آر اَس جیسے بڑے بڑے اسٹورز نہیں ہوا کرتے تھے۔ یہ سیمیول کی محنت، لگن اور جدت پسندی تھی کہ انھوں نے جلد ہی دوسرا اسٹور بھی کھول لیا اور ان کے دونوں اسٹورز کا منافع صرف تین سال کے مختصر دورانیے میں 2لاکھ 25ہزار ڈالر تک پہنچ گیا۔ اپنی اس کامیابی کو کیش کراتے ہوئے اور صارفین کو بہتر خدمت اور بہتر قیمتوں پر اشیاء فراہم کرنے کی لگن میں والٹن نے 1962 میں 44 سال کی عمر میں راجرز، آرکانسا (Arkansas)میں پہلا وال مارٹ اسٹور کھولا۔
فوربز کے سروے کے مطابق 1982سے 1988کے درمیان 6سال کے عرصے میں سیمیول والٹن دنیا کے امیر ترین شخص تھے۔ سیم کے حریفوں کا خیال تھا کہ کم قیمتوں پر بہترین خدمات اور اشیاء فراہم کرنے کا سیم کا نظریہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ حریفوں کے خیال کےبرعکس، وال مارٹ کو سیم کی اپنی توقعات سے بھی زیادہ بڑھ کرکامیابی نصیب ہوئی۔ 1970میں وال مارٹ کواسٹاک ایکس چینج پر لسٹ کرالیا گیا اور والٹن نے اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو کاروبار کی توسیع میں لگادیا۔
وال مارٹ سے آگے
وال مارٹ اسٹورز کی ترقی کے ساتھ والٹن کی خواہشات بھی بڑھتی چلی گئیں۔ انھوں نے ناصرف ریٹیل کاروبار میں نئی سوچ اور ٹیکنالوجیز متعارف کرائیں، بلکہ اسٹورز کے نئے فارمیٹ بھی متعارف کرائے۔ یہ اسی سوچ کا نتیجہ تھا کہ والٹن نے’سیمز کلب‘ اور ’وال مارٹ سپر سینٹر‘ جیسے ریٹیل شاپنگ کے نئے فارمیٹ متعارف کرائے۔
سیمیول والٹن کے 10اصول
سیمیول والٹن کا ماننا تھا کہ ایک کامیاب کاروبار کے 10 سنہری اصول ہوتے ہیں اور ان ہی اصولوں کے باعث وال مارٹ کی ریٹیل شاپنگ میں آج بھی عالمی لیڈر کی حیثیت برقرار ہے۔ وہ قوانین ہیں، اپنے کاروبار سے کمٹ منٹ، منافع کو ایسوسی ایٹس کے ساتھ بانٹنا اور ان کو پارٹنر کی حیثیت دینا، پارٹنرز کی حوصلہ افزائی کرنا، اپنے پارٹنرز کے ساتھ ہر ممکن حد تک ہر بات شیئر کرنا، کاروبار کے لیے ایسوسی ایٹس کی ہر کوشش کو سراہنا، اپنی کامیابی کا جشن منانا، کمپنی میں ہر شخص کو سُننا، صارفین کی توقعات سے بڑھ کر پیش آنا، اپنے حریفوں کے مقابلے میں اخراجات کو کم رکھنا اور بھیڑچال کے برخلاف چلنا۔