• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہ رمضان, عبادات کے ساتھ ایک دوسرےکا خیال بھی رکھیں

ماہ رمضان, عبادات کے ساتھ ایک دوسرےکا خیال بھی رکھیں

کوثر ضیاء

ماہ رمضان کی آمد آمد کا شور تھااور یہ بابرکت مہینہ آ ہی پہنچا ۔رمضان المبارک،جس کے صبح و شام ایک بندہ مومن کو کتنا خدا کے قریب کر دیتے ہیں۔ رحمتوں، برکتوں اور رب کریم کی مغفرتوں کے دن، سونا بھی عبادت ہےاور جاگنا بھی ،کھانا پینا بھی عبادت اورایک دوسرے کا خیال رکھنا بھی عبادت ،عجیب لذت و سرور کے دن ہم مسلمانوں کا نصیب بنتے ہیں۔ اس بابرکت مہینے میں مصروفیت دو چند ہو جاتی ہے۔ ایسے میں خواتین کے لئے ایک نیا امتحان ہے۔ایسا امتحان جو ان کو پریشان نہیں کرتا بلکہ سرخرو کرتا ہے۔ اپنی عبادات کا بھی خیال رکھنا ہے اور دوسروں کے لئے بہترین ماحول بھی رکھنا ہے۔ سحری اور افطاری کے خاص اوقات کار کے لئے کر ہمت کس لینی ہے تاکہ تمام افراد خانہ کو وقت پر ہر چیز میسر ہو۔ ان کو وقت پر جگانا،ہر ایک فرد کی صحت اور ضرورت کو مدنظر رکھ کر خوراک کا خیال رکھنا۔

سمجھدار اور بہترین خاتون خانہ وہی ہو سکتی ہے جو موسم کو بھی مدنظر رکھے، پسند و ناپسند کا بھی خیال رکھے ۔عمر اور مزاج کے ساتھ بجٹ کا بھی خیال رکھے،تو گویا اس کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ سخت مہنگائی کے دور میں ہر چیز کا پورا کرنا انتہائی مشکل بلکہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ اس کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں وہ کوشش کرتی ہے کہ کھانا ضائع نہ ہو، نہ فالتو بنے اور نہ ہی زیادہ بن جانے کے بعد خراب ہو کر پھینک دیا جائے۔ کھانا اگر زیادہ پک جائے تو وہ ضرورت کے مطابق نکال کر باقی اچھی طرح پیک کرکے فریز کر سکتی ہے تاکہ ہفتے ،دس دن بعد دوبارہ نکال کر استعمال ہو سکے۔ مثلاً آئےروز چنے ابالنا تو سراسر وقت کا ضائع کرنا ہے۔ ایک مناسب مقدار میں چنے ابال کر مختلف پیکٹوںمیں سنبھال کررکھےجاسکتےہیں۔ ضرورت کے مسالہ جات ایک دفعہ تیار کرکے رکھے جا سکتے ہیں تاکہ ضرورت کے وقت فوراً مل جائیں۔ دال کے یا بیسن کے بھلے بھی ایسی چیز ہے کہ روز روز گرمی کے موسم میں چولہے یا کڑاہی کے آگے کھڑا ہونا بھی مشکل اور وقت کا زیاں بھی ہے۔ کیوں نہ ایک ہی مرتبہ تیار کر کے سنبھال لئے جائیں اور جتنی ضرورت ہو نکال کر استعمال ہو جائیں۔

اب یہ گزرے وقتوں کی کہانی بن گئی کہ گھر کے تمام افراد چاہے نوکری پیشہ ہوں یااسکول کالج جانے والے ہوں شام کو ایک ہی وقت پر واپسی ہو گی اور اکٹھے ہی افطاری کا دستر خوان سجے گا۔ اب ایسا نہیں ہو سکتا اب دفتروں ،کاروبار،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اوقات کار تبدیل ہو چکے ہیں۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ سحری سب اکٹھے کر لیں۔ افطاری اکٹھا کرنا مشکل ہےا سلئے خاتون خانہ کی ذمے داریاں بھی زیادہ ہو گئی ہیں۔ ایسی باہمت خاتون نے مختلف وقتوں میں آنے والے گھر کے افراد کو اس وقت کی مناسبت سے پوچھنا ، سرو کرنا اور گھر میں سارے ہی تو روزہ دار نہیں ہے نا۔ گھر کے بزرگ بھی ہیں۔ اور بیمار بھی۔ ان کا کھانا ،ان کے اوقات بالکل مختلف ہیں اور چھوٹے بچے بھی جن کو ہر وقت کچھ نہ کچھ چاہئے ہونا ہے۔ گھروں میں صفائی ستھرائی اوردھلائی کے لئے آنے والی ماسیوں کےاوقات کار بھی مختلف ہوتے ہیں۔ ان سے کام بھی کروانا ہے اور نگرانی بھی کرنی ہے۔ مہینہ آتاہے تو پھر گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلتا عید کی تیاریاں بھی تو ساتھ ساتھ ہی کرنی ہیں۔

بہنوں ،بیٹیوں ، نندوں کو بھی تو عیدی بھجوانی ہے۔ گھر میں کام کرنے والے خدمت گزاروں کا بھی حصہ نکالنا ہے۔ غرض ایک دوڑ ہے اور کہیں بھی ذرا سی غفلت ہوئی تو سمجھو بہت کچھ خراب تو ہو گا ہی خاتون خانہ کا امیج ضرور متاثر ہو گا۔

کبھی ہم نے سوچا ہے کہ یہ سارے کام کوئی مرد بھی کر سکتا ہے یا نہیں، یہ زبردست صلاحیت صرف اور صرف عورت کو خدا تعالیٰ نے عطا کی ہے اور یہ خاتون خانہ جبکہ ورکنگ ویمن بھی ہو اور ان تمام ذمہ داریوں کو بہ احسن طربق نبھا رہی ہوتو اس کو ’سلیوٹ‘ ہی کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں سے فیضاب کرے۔

تازہ ترین