• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ظاہر میں بکھرے جلوئوں کی حقیقت کا سراغ باطن میں رکھا گیا ہے۔ آنکھ کا کیمرہ متحرک نہ ہو تو سامنے کا واضح منظر بھی اوجھل رہتا ہے۔ طبیعاتی اور مابعد الطبیعاتی دنیائوں کے علم کے حروف بھلے مادی تختی پر لکھے جاتے ہیں مگر ان حروف کی تفہیم باطن سے جڑی ہوئی ہے۔ آنکھ سے باطن کی تار کا کنکشن منقطع ہو جائے تو یہ لایعنی نقش بن جاتے ہیں۔ ذہن کی اسکرین پر صاف، اُجلی اور حقیقتوں سے روشناس تصویر کے لئے وجود کے تمام کیمروں کی تاریں ایک بورڈ میں لگانی پڑتی ہیں۔ یہ بورڈ دل ہی ہو سکتا ہے کیوں کہ اس کا تعلق ظاہر اور باطن دونوں سے ہے اور ہر ربط کی کڑی بھی یہی ہے۔
آج تک دریافت کے رستے پر چلنے والوں نے استغراق کو ہی اصل لیبارٹری سمجھا ہے۔ ایک ایسی حالت جس میں دنیا سے کٹ کر ایک نقطے پر توجہ کی سوئی سیٹ کر دی جائے۔ پھر ذہن میں کلبلاتے سوالوں، تخیل کی اڑانوں میں چھپے ابہام اور نظر سے اوجھل منظروں کے جواب ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔ مشکل خود کو اس سسٹم میں لانا ہے۔ تصوف ایک باقاعدہ نظام کا نام ہے جہاں داخلی دروازے پر بھرپور تلاشی لی جاتی ہے۔ اندر وہی داخل ہو سکتا ہے جو اپنے تکبر، نخوت اور فخر کا باعث بننے والی سونے چاندی کی اشیاء کی قربانی دے سکے۔ پھر ریاضت کا ایک لمبا سلسلہ ہے۔ آسان آزمائشوں سے کڑے امتحانوں کی طرف جانے والے راستے پر لوٹنے کا آپشن موجود نہیں۔ اس راہ پر چلنے والا خود بھی لوٹنے کی تمنا کھرچ کر پھینک دیتا ہے کیوں کہ ہر مرحلے کے بعد وہ لطیف احساسات و کیفیات کو محسوس کرتا ہلکا ہوتا جاتا ہے۔ تصوف میں استغراق کو خاص مقام حاصل ہے۔ ایک مقام ایسا آتا ہے کہ انسان اپنی ذات اپنے ہم نفس سے باتیں کرناشروع کر دیتا ہے اور کبھی روحِ مطلق سے بالکل اسی طرح جیسے کوئی کانوں میں ہینڈز فری لگائے کسی دوست سے باتیں کر رہا ہو اور اس سسٹم کو نہ سمجھنے والا اسے دیوانہ سمجھے سو اس قدر روحانی قابلیت اور فریکوئنسی نہ رکھنے والا شخص بھی سالک کی اس حالت کو دیوانگی سے تعبیر کرتا ہے۔ جب تک ’’میں‘‘ نہیں مرتی سالک کو ہر پل اذیت میں گرفتار رکھتی ہے۔ اسے خود سے نکالنے اور ذات کو پاک کرنے کے لئے وہ کبھی اللہ ھو کے ورد اور کبھی مجذوبانہ رقص سے کتھارسز کرنے اور تسکین حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب سارا کھوٹ قدموں تلے آ کے پس جاتا ہے، جسم سے پسینے کی طرح بہہ جاتا ہے تو چین آ جاتا ہے پھر وہ خاموش ہو جاتا ہے اور اس کی آنکھیں بولنے لگتی ہیں۔ آنکھوں کی کرنوں سے رازوں کے تالے کھلتے چلے جاتے ہیں اور انسان علم کی حقیقت سے واقف ہوتا جاتا ہے۔ پھر علم سے عشق کی طرف دروازہ کھلتا ہے جہاں نہ لفظ ضروری نہ حرکت بس دیدار اور خواہشِ دیدار۔ اگرچہ ہر انسان میں روح موجود ہے جس کا روحِ مطلق سے ناطہ ہے اس لئے ہر فرد روحانی اور ماورائی دنیا سے کسی نہ کسی حد تک جُڑت رکھتا ہے مگر ہر شخص صوفی نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک معتبر درجہ ہے جو لمبے سفر اور کٹھن ریاضتوں کے بعد ودیعت ہوتا ہے۔ یہ ذات کی عمارت کے پاس سے گزرنے سے نہیں بلکہ اس کے اندر داخل ہو کر باقاعدہ داخلہ لینے سے عنایت ہوتا ہے۔ قدم قدم آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ صوفی کے لئے بڑی ہستی انسپائریشن کا باعث ہوتی ہے جس کو نظر میں رکھ کر وہ سلوک کی منزلیں طے کرتا ہے۔ آخری نبی حضرت محمدﷺ سے محبت کا سلیقہ سیکھنے اور ان کی قربت کے لئے اولیاء کے اندازِ پیروی سے سبق حاصل کیا جاتا ہے یعنی ذات سے مرشد تک اور پھر آگے لامحدود سفر جو مسلسل دنیا سے بے نیازی کی طرف راغب کرتا ہے۔ جب کوئی بغیر مشق کے، مخصوص تعلیم و تربیت کے، ریاضت کے خود کو صوفی ہونے کی منزل پر فائز ہونے کا اعلان کر دے تو مسائل جنم لیتے ہیں۔ جرنیل بننے کے لئے کئی مرحلے طے کرنے پڑتے ہیں۔ میڈیکل کالج کے قریب سے گزرنے اور دوائیوں کی بو سے ڈاکٹر نہیں بن جاتا بلکہ اس میں مطلوبہ وقت گزارنا ضروری ہوتا ہے۔ تصوف کا بھی یہی عالم ہے۔ ایک خاص ضابطے سے وجود کو گزار کر کثافت سے پاک کیا جاتا ہے۔ صوفی کے لئے استغراق ایک معمول کی طرح ہے مگر عام فرد جو علت و معلول کے چکروں میں دن رات ایک کئے ہوئے ہے کو بھی قدرت ایسے مواقع فراہم کرتی ہے جہاں وہ زیست میں توازن کے لئے جدوجہد کر سکے۔ روزہ ایک ایسی مشق ہے، ایک ایسا عمل اور دریا ہے جس سے خیر کی کئی نہریں نکلتی ہیں، جو وجود کو سیراب کرتی ہیں۔جب انسان رضا کا انتخاب کر لیتا ہے تو روزہ وجود کے لئے رحمت بن جاتا ہے۔ وہ نفس کی منہ زور خواہشوں کا رُخ اطاعت کی طرف موڑ کر نئے سفر کا آغاز کرتا ہے۔
روزہ زندگی کی بھاگ دوڑ میں ٹھہر جانے اور سوچنے کا نام ہے۔ صوفی کا استغراق انفرادی عمل ہے جب کہ روزہ ایک اجتماعی منصوبہ بندی ہے۔ صوفی روح کی منشاء کے مطابق جسم کی امنگوں کی کانٹ چھانٹ کرتا ہے اور روزے دار روح کی آواز سننے کے لئے دنیا سے کٹ کر چلہ کشی کرتا ہے۔ روزے کی حالت میں وہ ہر وقت حاضری کی کیفیت میں ہے۔ ایسی کیفیت وہ عام دنوں میں محسوس نہیں کر سکتا۔ حاضری کی یہ حالت اسے ہر لمحہ ذات کے آگے جوابدہی پر اُکساتی ہے۔ ربّ سے قربت برائیوں سے دور لے جانے میں معاون ہوتی ہے۔ 24 گھنٹے ایک خاص محور میں وجود کو سرشار رکھتے ہیں۔ یہ مہینہ روح اور جسم کے درمیان بڑھے ہوئے فاصلے کم کرنے کا موجب بنتا ہے۔ فکر کرنے، محبت کرنے اور دوسروں کا دُکھ محسوس کرنے کی رغبت دیتا ہے۔ اس کے روحانی فضائل کے ساتھ ساتھ سائنسی ریسرچ نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ سال میں تقریباً ایک مہینے تک دس بارہ گھنٹے بھوکا رہنے سے کینسر جیسے موذی مرض سے بچا جا سکتا ہے۔ خالق کے کارنامے ہیں کہ جب جسم کو مطلوبہ خوراک نہیں ملتی تو وہ اپنا نظام بحال رکھنے کے لئے وجود میں زائد چیزوں کو استعمال میں لانا شروع کر دیتا ہے۔ انہیں ایندھن بنا کر جلاتے ہوئے وجود کو اُن سے پاک بھی کرتا ہے اور وقتی توانائی بھی حاصل کرتا ہے۔ اگر رمضان کو اس کی روح کے مطابق بسر کیا جائے تو اس مقدس مہینے میں بھی استغراقِ ذات کا مرحلہ انکشافِ ذات بن جاتا ہے۔ روح اور جسم کے ایک ہونے سے ربّ اور بندے کے درمیان حائل رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں اور رابطہ استوار ہو جاتا ہے، گرہیں کھلنے لگتی ہیں، حقیقت واضح ہونے لگتی ہے مگر اس سارے مرحلے میں خالق کی محبت، خوشنودی اور رضا کے ساتھ ساتھ مخلوق کی بھلائی کو بھی ترجیحات میں شامل کرنا پڑتا ہے، خواہشوں کی کانٹ چھانٹ کرنی پڑتی ہے، خوشیوں کی زکوٰۃ دینی پڑتی ہے، نبی ؐ سے محبت کی عملی گواہی دینی پڑتی ہے، رحمت اور خیر کے راستے کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ صرف بھوکا پیاسا رہنا تو بالکل ویسا ہی ہے جیسے ذہن کسی اور خیال میں ہو اور آنکھ کو سامنے کا منظر نظر نہ آئے۔ پورے وجود کو ایک نقطے پر مرکوز کرنا، وحدت میں لانا شرط ہے اور یہی مشیت ایزدی بھی۔ بکھرے ہوئے کی شیرازہ بندی کہ اس سے زندگی وابستہ ہے۔ اپنی موجودہ حالت کا تعین اور محاسبہ، سمت کی درستگی وہ مشق ہے جو لطافت کے درجے پر فائز کرتی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین