• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی، شہری ماحول دوست درخت اگائیں تو گرمی کم ہو سکتی ہے

کراچی (نیوز ڈیسک) شہر قائد میں قیامت خیز گرمی نے شہریوں کا جینا دو بھر کر دیا ہے اور ممکن ہے کہ رواں سال مئی کا مہینہ کراچی کیلئے گرم ترین مہینہ ریکارڈ کیا جائے۔ پورا ہفتہ پارہ 40؍ ڈگری سے اوپر ہی رہا جبکہ رات کو بھی درجہ حرارت 30؍ ڈگری سے نیچے نہیں گیا، ایسے میں رمضان المبارک میں روزہ داروں کی رہی سہی کسر کے الیکٹرک نے نکال دی ہے۔ سوشل میڈیا ہو یا آپسی گپ شپ، سب ہی گرمی اور بجلی کا رونا روتے نظر آ رہے ہیں۔ اس دوران گرمی سے بچنے کیلئے جن طریقوں کا ذکر بہت زیادہ ہو رہا ہے ان میں شہر میں ماحول دوست درخت اگانا بھی شامل ہے۔ کسی بھی شہر میں درختوں کی تعداد بتاتی ہے کہ اس کے شہری کس قدر صحت مند ہیں یا بیمار۔ امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کم ہریالی والے علاقوں میں رہنے والے افراد کے مقابلے میں قدرتی ماحول سے قریب رہنے والے افراد میں نمایاں طور پر شرح اموات 12؍ فیصد کم تھی۔ درخت زیادہ ہوں تو نہ صرف زمین کا درجہ حرارت کم رہتا ہے بلکہ لوگوں کی عمر میں بھی اضافہ ہو تا ہے۔ ماحول کو صاف رکھنے اور آلودگی سے بچانے کیلئے بھی درخت بیحد ضروری ہیں لیکن درخت لگانے سے پہلے اس بات پر وسیع تحقیق ضروری ہے کہ مخصوص علاقے کیلئے کون سے درخت موزوں ہیں کیونکہ ایسے درخت بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف ماحول پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ شہری ان کی وجہ سے سانس کی بیماریوں میں بھی مبتلا ہوتے ہیں۔ ایسے ہی درختوں میں سے ایک کونو کارپس ہے جسے کراچی میں لاکھوں کی تعداد میں اس وقت لگایا گیا تھا جب مصطفیٰ کمال شہر کے میئر تھے۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسی حکومت ہوگی جو عوام کو ماحول دشمن درختوں کا تحفہ دے کر خدمت کا کریڈٹ لیتی ہو۔ یہ درخت کراچی کی آب و ہوا سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتے۔ شہر کو ہرا بھرا کرنے کیلئے گرین کراچی کے نام پر شروع کی گئی اس مہم کا خمیازہ کراچی کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے، یہ درخت شہر میں پولن الرجی کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ تحقیق کی عدم موجودگی اور معلومات نہ ہونے کی وجہ سے شہر میں بڑے پیمانے پر یہ درخت موجود ہیں۔ صرف شاہراہِ فیصل پر یہ سیکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق کونو کارپس بادلوں اور بارش کے سسٹم پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جس کے باعث کراچی میں مون سون کے موسم پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ گزشتہ سال نومبر میں کمشنر کراچی اعجاز احمد خان کی زیر صدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ شہر میں کونو کارپس اور دیگر صحت کیلئے نقصان دہ پودے لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور فروری میں کراچی میں شجر کاری مہم شروع کی جائے گی تاکہ ماحول کو بہتر بنانے، شہر میں درختوں کی کمی کی وجہ سے مسائل پر قابو پانے اور کراچی کو سر سبز بنانے میں مدد ملے۔ اس اجلاس میں ترجیحی طور پر نیم، مورنگا، گل موہر، املتاس، سکھ چین، رین ٹری، ساہ جن اور دیگر ماحول دوست پودے لگانے پر اتفاق کیا گیا تھا تاہم اب تک ایسی کوئی عملی صورتحال نظر نہیں آتی۔ حکومتی بے حسی دیکھ کر حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر جاری مہم میں ایک صاحب نے درخت لگانے والوں کیلئے سوشل میڈیا پرانعامی اسکیم کا اعلان بھی کردیا ہے کہ درخت لگا کر سیلفی بنائیں اور 50؍ روپے کا موبائل بیلنس حاصل کریں۔ ملائیشیا اور نیوزی لینڈ سے تعلیم یافتہ فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی کے پروفیسر محمد طاہر صدیقی کی ماحولیات اور درختوں کے حوالے سے 45؍ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے بتایا تھا کہ سندھ کے ساحلی علاقوں میں پام ٹری اور کھجور لگانا موزوں رہے گا جبکہ شہر کے دیگر علاقوں میں املتاس، برنا، نیم، گل مہر، جامن، پیپل، بینیان، ناریل اور اشوکا لگایا جائے۔ اندرون سندھ میں کیکر، بیری، پھلائی، ون، فراش، سوہانجنا اور آسٹریلین کیکر لگانا موزوں رہے گا۔ درخت لگانا صرف حکومت ہی نہیں بلکہ عام شہریوں کا بھی فرض ہے کیونکہ یہ صرف ماحول دوست فعل نہیں بلکہ مذہبی لحاظ سے دیکھا جائے تو صدقہ جاریہ ہے۔ ہر شہری اگر ایک درخت لگائے تو اس سے نہ صرف وہ قومی فریضہ ادا کرے گا بلکہ ماحول کو آلودگی سے بچانے کے ساتھ ثواب بھی حاصل کرے گا۔
تازہ ترین