• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرف اقتدار میں تھے تب ہم نے این آر او نہیں کیا، وزیراعظم

مشرف اقتدار میں تھے تب ہم نے این آر او نہیں کیا، وزیراعظم

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ چوہدری نثار پرانے ساتھی اوردوست ہیں،جھگڑا نہیں اختلاف رائے ہوسکتا ہے،پارٹی کیساتھ ہمیں 30سال سے زائدہوگئے اب پارٹی میں رہینگے یاگھر جائینگے، میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ چوہدری نثار علی خان کہیں نہیں جاسکتے،شایدالیکشن قریب ہیں اس لئےبھی کچھ ارکان نے فاٹا بل پرنہ حمایت کی نہ مخالفت ،11میں سے9فاٹا ارکان اسمبلی فاٹا اصلا حا ت کےحق میں ہیں،فاٹا ارکان پارلیمنٹ سے فاٹا اصلا حا ت پر ہمیشہ مشاورت کی گئی،فاٹا اصلاحات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے دوران ایسےمسائل بھی سامنے آئے جوسو چے نہ تھے،فاٹااصلاحات پر اتفاق رائے کیلیے نوازشریف نےبہت محنت کی،پرویز مشرف جب اقتدار میں تھے تب ہم نے ان سے این آر او نہیں کیا،پاکستان کیلئے مستقبل میں سب سے بڑا چیلنج پانی کا ہے۔ فاٹا کے خیبر پختو نخوا میں انضمام کا مسئلہ پیچیدہ تھا، ہماری پہلے دن سے اس ایشو پر کمٹمنٹ تھی، نواز شریف نے اس پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے بہت محنت کی،پہلا بل جو سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کی jurisdiction کا تھا وہ ایک سال تک رُکا رہا کیونکہ اس پر مولانا فضل الرحمٰن اور اچکزئی صاحب نے اعتراض کیا تھا او کوشش ہوئی کہ کوئی اتفاق رائے پیدا ہوجا ئے لیکن ایسا نہیں ہوسکا، ہم جب بھی اس کو examine کرتے تھے کوئی نہ کوئی نیا مسئلہ کھڑا ہوجاتا تھا، رپورٹ آئی سرتاج عزیز صاحب کی کمیٹی کی، اس کو FATA implementation committeeکہا جاتا ہے جس میں چیف منسٹر کے پی کے بھی ہیں، گورنر بھی ہیں ، چیف آف آرمی اسٹاف بھی ہیں، وزراء بھی ہیں، اس نے اس کو examin کرنا شروع کیا کہ اس بل پر عملدرآمد کیسے ہوگا، آپ یقین کریں کہ جہاں ہم پہلے دن تھے اور جہاں آج اختتام ہوا ہے اس میں زمین آسمان کا فرق ہے، کیونکہ ایسے ایسے مسائل نکلے جس کا ہمیں اندیشہ نہیں تھا ، کل رات بھی ایک مسئلہ آیا کہ پاٹا جو ہے اس کو ٹیکسز سے چھوٹ حاصل تھی اب جب فاٹا ختم ہوگیا تو کیا پاٹا رہے گی یا نہیں رہے گی، کیونکہ پاٹا کو یہ چھوٹ فاٹا کی وجہ سے ملی تھی، اس پر کافی بحث ہوئی پھر یہ فیصلہ ہوا کہ پانچ سال کی چھوٹ جس طرح ہم نے جی بی کو دی ہے اسی طرح کی چھوٹ اب فاٹا او پاٹاکودی جائےکیونکہ اب وہ ڈسٹرکٹس بن جائیں گے اب آپ انہیں فاٹا اور پاٹا نہیں کہہ سکتے ان کو بھی دی جائے، بہرحال اس قسم کے مسائل پیدا ہوتے رہے لیکن ایک اچھی اسپرٹ میں گورنمنٹ اور اپوزیشن نے کام کیا اور تمام مسائل کو حل کیا۔ فاٹا اراکین کے غائب ہونے پرانہونے کہا کہ میں اس پر اندازے نہیں لگانا چاہتا، میں نے ان کو کہا بھی کہ ہم یہ بل آپ کیلئے کررہے ہیں آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں کرتے، ہمیشہ وہ اتفاق کرتے رہے کہ ہاں یہ ہونا چاہئے، میرے پاس جرگے بن بن کر آئے سینیٹرز اور ایم این ایز کے کہ آپ فاٹا بل کو فاٹا کے انضمام میں تاخیر کررہے ہیں، اگر میں کچھ کہہ سکوں تو وہ سیاسی مسئلہ ہی ہے، الیکشن آرہے ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ فیصلہ غیرمقبول نہیں، جو آدمی الیکشن لڑتا ہے وہ ہر ووٹ حاصل کرنا چاہتا ہے، میں جو بات سمجھا ہوں میری کسی سے بات نہیں ہوئی، گیارہ میں سے نو قومی اسمبلی کے ممبران تھے ایک سیٹ خالی پڑی ہوئی ہے وہ مکمل طور پر اس کے حق میں ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن آج ووٹ کرنے ان میں سے کم لوگ آئے تو بنیادی وجہ جو نظر آتی ہے اور کل رات تک بھی حق میں تھے، یہ نہیں کہ مہینہ پہلے تھے کل رات تک بھی تھے، یہی نظر آتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ سارے ووٹ بینک کو قائم رکھ سکیں۔مولانا فضل الرحمٰن اور محمود اچکزئی کے حوالے سے ایک سوال پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بہتر راستہ یہی ہوتا ہے کہ انہوں نے غیرحاضر ہونا گوارہ کیا ورنہ مخالفت بھی کرسکتے تھے۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ چوہدری نثار ہمارے پرانے ساتھی ہیں دوست بھی ہیں، یہاں جھگڑا تو کسی کا بھی نہیں ہے، اختلاف رائے ہوسکتا ہے، اگر تیس تیس سال کی دوستی ہے یا رفاقت ہے یا اسمبلی میں ساتھ بیٹھتے ہیں، سیاسی طورپر ساتھی ہیں تو ناراضگیاں ہوتی ہیں، گلے شکوے ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ ہم تیس سال سے ایک جماعت کے ساتھ ہیں ہم کدھر جائیں گے ہم گھر ہی جاسکتے ہیں کوئی تیسری جگہ ہمار ے پاس نہیں ہے، جماعت کے اندر رہیں گے یا گھر جائیں گے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ چوہدری نثار ایک رائے کا اظہار کرتے ہیں میں اکثر اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا بہت سے اور لوگ بھی نہیں کرتے، بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ بہت سی ایسی باتیں چوہدری صاحب نے کی ہیں جو شاید پبلک میں نہیں کرنی چاہئے تھیں لیکن یہ ان کی مرضی ہے اور میں ان کے اظہار رائے کے حق کا مکمل دفاع کروں گا، یہ فیصلے ان کے ہیں کہ یہ بات وہاں ہونی چاہئے یا نہیں ہونی چاہئے، وہ اختلاف جاری رہتا ہے لیکن ایک سیاسی سفر تو اکٹھا ہی ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے پریس کانفرنس کے حوالے سے کہا کہ میں کبھی کبھی کوئی فیصلے کرلیتا ہوں۔عام جو تاثر ہے اس سے بڑھ کر کبھی کبھی ایک آدھ فیصلہ کرلیتا ہوں لیکن یہ بالکل حقیقت ہے کہ ہم نے اس کو ریکارڈ کیا تھا لائیو نہیں کی، پریس کانفرنس کے بعد چونکہ وہاں پر بہت سی ایسی باتیں ہوئیں جو اگر دکھائی جاتیں تو اس سے تاثر اور غلط ثابت ہوتا تو میں نے کہا اس کو رہنے دیں، میں نے اسمبلی میں بات کردی ہے اور اگلے دن میں نے اسمبلی میں جاکر بات کردی۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس وقت تک پریس ریلیز شاید جاری نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی میرا پریس ریلیز ان سے ڈسکس ہوا، پریس ریلیز میں وہ باتیں رکھی جاتی ہیں وہ کوئی اعلامیہ نہیں ہے پریس ریلیز ہے جن کی رائے کا اظہار اس میٹنگ میں کیا جاتا ہے، وہ پریس ریلیز دو باتوں پر مشتمل تھی، پہلی بات یہ تھی کہ جو وہ بیان ہے وہ مس رپورٹنگ پر مبنی ہے، وہ رپورٹنگ ٹھیک نہیں ہے، دوسری بات یہ تھی کہ جو الزامات لگائے جارہے ہیں انڈیا کہہ رہا ہے، اخبار والے کہہ رہے ہیں، پریس میں لوگ آکر انٹرویو دے رہے ہیں کہ یہ بات ہوگئی وہ بات حقیقت پر مبنی نہیں ہے، یہ دو باتیں وہاں پر ہوئیں، جو میں نے وضاحت کی اس کے وہ نکات تھے جو میری اور نواز شریف کی گفتگو ہوئی تھی اس پر مبنی تھی، اس میں پہلی بات یہ تھی کہ وہ ایک ذمہ دار آدمی ہیں، ملک کے وزیراعظم رہے ہیں، ان کی اس وقت پالیسی تھی اورآج بھی رائے یہی ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک پر حملے کیلئے استعمال نہیں ہونے دے گا، دوسری بات یہ تھی کہ جو اخبار میں آیا ہے وہ مس رپورٹنگ پر مبنی ہے، تیسری جو بات تھی کہ یہ تاثر کہ پاکستان نے اپنی سرزمین کسی کو استعمال کرنے دی یا ممبئی حملے کی اجازت دی یہ بالکل غلط تاثر ہے، یہ بنیادی بات تھی۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میں یہی کہہ رہا ہوں کہ جو انہوں نے کہا وہ درست کہا ہے اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جو ممبئی والی باتیں تھیں وہ ایک بہت بڑ ے انٹرویو کا چھوٹا سا حصہ تھا، اگر وہ انٹرویو ڈیڑھ سو جملوں پر مشتمل تھا جو اخبار میں چھپا ہے تو اس میں سے تین یا چار جملے یہ تھے، اس سے جو نتیجہ اخذ کیا گیا وہ غلط ہے، بات جو کہی گئی ہے پاکستان میں ہر شخص نے تقریباً وہ باتیں کی ہیں۔نگران وزیراعظم کے سوال پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آج بھی گفتگو ہوئی تھی، میری رائے یہ تھی کہ اگر کل تک فیصلہ نہیں ہوتا تو کمیٹی کے پاس دو دو نام بھیج دیئے جائیں گے۔ خورشید شاہ کی رائے یہ ہے کہ پیر تک انتظار کرلیں، اگر کوئی فیصلہ نہیں ہوتا تو پھر ہم کمیٹی کو نام بھیج دیتے ہیں ، اگر وہاں فیصلہ ہوجاتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ الیکشن کمیشن میں نام بھیج دے گی۔ بہرحال ایک اتفاق رائے ہوگیا۔اس وقت جو نام سامنے آئے تھے ان میں سے ایک نام پر اتفاق ہوگیا اور بات بن گئی، اب بدقسمتی سے وہ حالات نہیں ہیں، ابھی بھی کسی چوتھے نام پر اتفاق ہوسکتا ہے، کیونکہ ابھی بھی ہم پابند نہیں ہیں، کسی نام پر بھی اتفاق کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کشمکش تو اخباروں میں ہی ہے، میں اور خورشید شاہ تو اس ایشو پر پانچ منٹ گفتگو کرتے ہیں، وہ نام ڈسکس کرتے ہیں اتفاق نہیں ہوتا اپنے اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔یہ بات ٹھیک ہے، بہت سے ، ایک آدھ نام نہیں کئی نام ایسے ہیں۔ کافی لوگوں نے رابطے کیے ہیں مختلف وزارتوں کیلئے تو ان کو بتانا پڑا کہ یہ فیصلے نگران وزیراعظم کرے گا یہ ہم نہیں کرسکتے، ہم صرف نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے کرتے ہیں اس کے بعد کابینہ وہ خود بناتے ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مشرف صاحب جب اقتدار میں تھے تب ہم نے ان سے این آر او نہیں کیا، جب وہ اقتدار میں نہیں تھے ا ن کی کوئی سیاسی یا فوجی حیثیت نہیں تھی تو ان سے این آر او کر کے ہمیں کیا ملتا، یہ ذہنی اختراع ہے، میں گزارش یہ کروں گا آپ اس پورے ایشو کا جائزہ لیں، کس نے کہا کہ پراسیکیوٹ کیا جائے؟ کس نے اجازت دی باہر جانے کی؟ کس نے کہا کہ ای سی ایل سے نام ہٹایا جائے؟ یہ سب باتیں ریکارڈ کا حصہ ہیں، چوہدری نثار نے نہ ان کو باہر بھیجا نہ اجازت دی، کورٹ کے احکامات تھے عملدرآمد ہوئے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میں نے پڑھا ہے ، اس میں باہر جانے کے احکامات بڑے واضح تھے کہ باہر جانے دیں، اب واپس کب آئیں گے جب ان کا علاج ختم ہوجائے گا، واپس آنے کی تاریخ کا تعین اس میں نہیں ہے نہ کوئی ٹائم فریم ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اصغرخان کیس کابینہ میں رکھ دیں گے اور جو کابینہ اس میں فیصلہ کرے گی، پچھلی کابینہ میٹنگ میں ڈسکس نہیں ہوسکا ٹائم کی کمی کی وجہ سے، اس دفعہ ڈسکس کرلیں گے اور اپنی رائے سپریم کورٹ کو بھیج دیں گے۔ خلائی مخلوق کے حوالے سے ایک سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ سیاست میں راستہ بند کرنے والی بات، ایک تو آئین کیا کہتا ہے اس کو دیکھنا پڑے گا، میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ آپ کو اپنے ملک میں ایک truth and reconciliation commission بنانا پڑے گا، یہ سب معاملات وہاں لے جائیں ورنہ آپ عدالتوں میں گھسیٹیں گے تو اس سے خرابیاں ہی پیدا ہوتی ہیں اس سے کبھی فائدہ کا امکان نہیں ہے، اسی لئے جتنے ممالک ہیں جو اس قسم کے مراحل سے گزرے ہیں انہوں نے وہ راستہ اپنایا ہے، ہم بدقسمتی سے ، آپ لیاقت علی خان کے کیس میں کیا پراسیکیوشن کریں گے یا فال آف ڈھاکا میں کیا پراسیکیوشن کریں گے یا کارگل میں کیا کریں گے یا اصغر خان کیس ہے اس میں کیا ، اس طرح کے بہت سے معاملات ہیں، آپ کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ حقائق پاکستان کی عوام کے سامنے رکھ دیں، تاریخ کا فیصلہ کم از کم ہوجائے، ہم اس سے سبق حاصل کریں کہ مستقبل میں ہم ان چیزوں سے بچ سکیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ تاریخ کا ریکارڈ اس وقت درست ہوگا جب لوگ بلاخوف و خطر سامنے آکر اپنے حقائق بیان کرسکیں گے، جب پراسیکیوشن کا خطرہ ہو یا جیل میں جانے کا خطرہ ہو یا کسی دباؤ کا خطرہ ہو تو پھر کوئی نہیں کرتا، یہ آزمائے ہوئے طریقے ہیں، سب سے فیمس کیس ساؤتھ افریقا کا ہے جس ملک میں کیا کچھ نہیں ہوا، کئی عشرے وہاں بدترین ظلم ہوا لیکن انہوں نے کہا کہ بجائے بدلے لینے کے یا جیلوں میں ڈالنے کے انہوں نے کہا کہ ہم کمیشن بنادیتے ہیں جہاں کوئی بھی شخص آکر اقبال کرسکتا ہے اور اپنا بیان عوام کے سامنے رکھ سکتا ہے، اس سے اس معاشرے پر بڑا مثبت اثر پڑا، یہی طریقہ ہمیں بھی اپنانا چاہئے۔ دس مہینوں میں آپ نے کون سا ایسا کام کیا کے سوال پر؟ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بات فخر کی نہیں ہے ایک ذمہ داری ہوتی ہے اس کو پورا کیا جاتا ہے، مجھ سے لوگ پوچھتے ہیں آپ کی legacy کیا ہوگی، میں کہتا ہوں میری کوئی legacy نہیں ہے، مجھے میری جماعت نے یہاں بھیجا تھا میں اپنی مرضی سے نہیں آیا تھا اور جماعت نے ایک مینڈیٹ پورا کرنا تھا انہوں نے وہ ذمہ داری مجھ سے لگائی اور میں نے اپنی بساط کے مطابق جو کوشش کرسکتا تھا وہ ان دس مہینوں میں کی ہے اور اب جو کچھ ہماری جماعت نے کیا ہے پانچ سال میں اس کا فیصلہ پا کستا ن کے عوام جولائی میں کردیں گے، یہ شخصیات کی بات نہیں ہوتی، یہ ادارے جو ہیں حکومت بنتی ہے ایک جماعت سامنے آتی ہے اس کا منشور ہوتا ہے وہ چیلنجز کو پورا کرتی ہے، ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم نے ملک کے جو چینلجز تھے ان کا سامنا بھی کیا بہت سے مسائل کو حل بھی کیا، بہت سے چیلنجز کا سامنا کیا، سیاسی طور پر جو دوسرے ہمارے ملک میں بدقسمتی سے حالات پیدا کیے جاتے ہیں ہم پر اٹیک بھی ہوئے، میڈیا کے اندر ، دھرنے بھی دیئے گئے، عدالتوں میں بھی گھسیٹا گیا، ہماری حکومت ختم کی گئی، اس کے باوجود ہم نے اپنا سفر جاری رکھا، جب اٹھائیس جولائی کو پاکستان کا ہر شخص جو ٹی وی پروگرام کرتا ہے اس کی رائے یہی تھی کہ چند ہفتوں کی بات ہے، چند مہینوں کی بات ہے۔

تازہ ترین