اسلام آباد( طارق بٹ ) گزشتہ 5 ماہ کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان غیر معمولی طور پر خاموش ہے کیونکہ انتہائی متحرک اور فعال چیف جسٹس میاں ثاقب نثار بیرون ملک دو ہفتوں کے سرکاری دورے پر ہیں، وہ روس اور چین گئے ہوئے ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطاء بندیال بھی ان کے ساتھ ہیں۔ جمعرات کو جسٹس ثاقب نثار نے بیجنگ میں چین کی سپریم پیپلز کورٹ کے صدر سے ملاقات کی جہاں سے وہ 14 مئی کو ماسکو روانہ ہوگئے۔ معمول کے مطابق چیف جسٹس کی بیرون ممالک دورے پر روانگی کے ساتھ ہی سینئر ترین جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان کی غیر موجودگی میں قائم مقام چیف جسٹس کے فرائض سنبھال لئے۔ جسٹس ثاقب نثار کی آئندہ جنوری میں ریٹائرمنٹ پرجسٹس آصف سعید کھوسہ مستقل چیف جسٹس بن جائیں گے ۔گزشتہ سال دسمبر کے بعد سے شاید ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جب سپریم کورٹ کی کارروائی ٹیلی وژن چینلز اور اخبارات میں سہ سرخیوں کی زینت نہ بنی ہوں۔معروف سیاست دانوں کی سیاسی سرگرمیوں سمیت ہر سرگرمی پس منظر میں چلی گئی۔ٹیلی وژن چینلزپر حالات حاضرہ کے پروگراموں میں وہی زیر بحث رہ رہا جو عدالت عظمیٰ میں ہوتا رہا۔گزشتہ پانچ ماہ کے دوران سپریم کورٹ ہی خبروں کی فراہمی کا ذریعہ بنی رہی ۔ 14 مئی کے بعد سے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے یہ کر دکھایا ہے کہ وہ معمول کی روایتی عدالتی کارروائی پر یقین رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں انہوں نے کسی بھی غیر معمولی واقعہ کا ازخود نوٹس نہیں لیا۔ چیف جسٹس کی غیر موجودگی میں معمول کے دفتری اوقات میں عدالتی کام نمٹایا جارہا ہے ، جبکہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے تو ہفتہ وار تعطیلات بھی ختم کر دی تھیں۔ ہفتہ اور اتوار کو بھی عدالتوں میں کام ہوتا رہا۔ یہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے اعلیٰ ترین جج نے ہفتے کے ساتوں دن کام کیا۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے اوقات کار بڑے طویل رہے۔ وہ رات گئے تک دفتر میں موجود ہوتے تھے لیکن انہوں نے کبھی اپنی ہفتہ وار تعطیل ترک نہیں کی۔ دونوں کے درمیان ایک اور حیران کن مماثلت از خود نوٹس لئے جانے کے رجحان کے حوالے سے ہے ۔ پیپلز پارٹی سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے اپنے خلاف ضرورت سے زیادہ متحرک ہونے سے نالاں تھی جبکہ مسلم لیگ ( ن) کی موجودہ حکومت کو موجودہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے شکایات ہیں، حتیٰ کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے عدالتی ازخود نوٹسز اور عدلیہ کے متحرک ہونے پر کہا تھا ، اس سے حکومتی مشنری مفلوج ہو کر رہ گئی ہے ۔ اس کی وجہ سے حکام فیصلے لینے اور کام کرنے سے گریزاں ہیں۔ اپنے غیر ملکی دورے سے واپسی کے فوری بعد چیف جسٹس پھر سے اپنی عدالتی کارروائیوں میں سرگرم ہو جائیں گے ۔ اس وقت موجودہ حکومت کی 5 سالہ آئینی مدت پوری ہو رہی ہوگی۔ افتخار محمد چوہدری کے بعد جتنے بھی چیف جسٹسز آئے انہوں نے جوڈیشیل ایکٹوازم سے گریز کیا۔ جسٹس ثاقب نثار ان سے مختلف ہیں۔