قدرتی گیس، دنیا میں توانائی کا تیسرا عظیم ذریعہ شمار ہوتاہے جو ایران میں وافرمقدار میں پایا جاتا ہے۔تحقیقات کے مطابق ایران میں ۳۳ ٹریلین میٹر مکعب گیس کے ذخائرکا تخمینہ لگایا گیا ہے ،جبکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں گیس کے سالانہ استعمال کی افزائش کی شرح 5.5فیصد تخمینہ لگائی جاتی ہے جو اس ملک کو باہر سے گیس درآمد پر مجبور کرتی ہے ۔ ایران سے گیس درآمدات کے امتیازات واضح وروشن تھے لہذا ایران کے ساتھ پہلا گیس پائپ لائن کا معاہدہ طے پایا مگر ابھی تک عملی طور پر اس منصوبے سے بہرہ برداری ممکن نہ ہوسکا ۔اس کے اسباب میں سے ایک علاقائی اور بین الاقوامی حالات کے پیش نظر ایران کے ساتھ گیس منصوبے سے متعلق تعاون برقرار رکھ سکنے کے سلسلے میں بعض پاکستانی عہدیداروں کو درپیش شکو ک وشبہات ہیں۔
تحفظ توانائی کا مسئلہ، سبھی ملکوں کی توانائی پالیسی کا ستون ہے نیزیہی مسئلہ توانائی یعنی تیل، بجلی اور گیس وغیرہ کی منتقلی کےمعاہدوں کے اجرامیں حکمرانوںکی اصل پریشانی بھی ہے جبکہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ بھی اسی قانون کے تابع ہے ۔ توانائی کے تحفظ سے مراد یہ ہے کہ توانائی کی فراہمی کا تسلسل بعض سیاسی عوامل، مختلف حوادث اوربحرانوں کے نتیجے میں تعطل کا شکارنہ ہو۔ توانائی کا تحفظ،تیل وگیس کی منتقلی کی لائنوںکے حوالے سے دو باہم مربوط حصوں پر مشتمل ہے:
۱۔تحفظ تفراہمی(Security of Supply)
۲۔ تحفظ طلب(Security of Supply)
تحفظ فراہمی سے مراد یہ ہے کہ توانائی درآمد کرنے والا کچھ ایسی ضمانت فراہم کرے کہ بعض غیرمتوقع حوادث کے نتیجے میں توانائی کی فراہمی تعطل سے دو چار نہ ہو۔ یہ مفہوم پائپ لائنوں کی درست تنصیب اور ان کے دیکھ بھال پر تاکیدکرتاہےیعنی فریقین میں سے کسی کے بھی سیاسی عزائم یا بدامنی کےدیگر اسباب جیسے قدرتی عوامل،جنگ او ر دہشت گردی وغیرہ توانی کی فراہمی میں رکا وٹ نہ بنیں۔
تیل و گیس کے لائنوں کے اعتبارسےتحفظ توانائی ذیل کے معیاروں پر پرکھا جاتاہے:
۱۔اعتماد (Reliability):یہ معیار تیل یا گیس برآمد کرنےوالے سے متعلق صارفین کو اعتمادمیںلینے سے مربوط ہے۔
۲۔ وصول پذیری (Accessibility): یہ معیار تمام سیاسی،اقتصادی اور ٹیکنالوجی عوامل جو صارفین کے لئے توانائی کی مسلسل اور بلا تعطل حصو ل میں اثر انداز ہوتے ہیں ، کی طرف اشارہ رکھتاہے۔
۳۔دستیابی (Availability) :یہ مفہوم توانائی کی وافرمقدارمیں موجودگی نیز برآمد کنندہ کی مطلوبہ توانائی کی برآمدکو ممکن بنانے پر قادر ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔
۴۔ قابلیت فراہمی (Affordability) اس سے مراد قیمتوںکا مناسب اور منصفانہ ہوناہے۔
ایران کے ساتھ گیس معاہدہ کرنے والے ممالک اور خریداروں کی تعداد اور تنوع اس بات کی نشاندہی کرتاہے کہ ایران خریداروں کی نظر میں تحفظ توانائی کے معیار (Affordability)کا بھی حامل ہے۔ایران اس وقت اپنے ۲۰سالہ اور قابل تجدید معاہدے کے تحت پائپ لائن کے ذریعے روزانہ ۸۰ لاکھ میٹر مکعب گیس ترکی کو فروخت کرتاہے۔ ایران کے گیس کو تین گنابڑھانے یہاں تک کہ اسے یورپ برآمد کرنے کی قابلیت اور امکان بھی پایاجاتاہے چنانچہ اس سلسلے میں تحقیقات ہورہی ہیں۔ یورپ کے بعض مرکزی اور جنوبی ممالک گیس کے درآمدات میں روس پر انحصار کو ختم کرنے کےلئےاس نوعیت کے منصوبوں میں شرکت کے خواہاں ہیں۔
ارمنستان اور گرجستان، جنوبی قفقاز سے تعلق رکھتے والےایران کے جدید گیس کے خریداروں میں سے ہیںجو ایران سےروزانہ ایک کروڑ میٹر معکب گیس خریدنے کی گنجائش رکھتے ہیں۔گیس کے مانند بجلی فروخت کے منصوبے بھی ان ممالک کے ساتھ عمل میں لائے جارہے ہیں۔
مسلسل گیس کی فروخت نیز گیس اورمختلف مائع گیسوں کےسلسلے میںچین،جنوبی کوریااوربھارت جیسے ملکوں کے لئے قابل اعتماد ہونے کے علاوہ ایران تیل اور گیس سے متعلق تبادلاتی معاہدے (Sawap)کے میدان میں بھی ممتا زمقام کا حامل ہے۔ گزشتہ سالوںمیں ،جمہوریہ آذربائیجان کو توانائی کی ترسیل میں زمینی راستے کا حامل ہونے کے علاوہ ایران نے ترکمانستان اور عراق کے ساتھ تیل و گیس کے تبادلاتی معاہدوں سے متعلق تعاون میں بھی بہت مؤثر کردار کیا ہے۔
یہ موارد اس بات کی نشاندہی کرتےہیں کہ ایران اپنے ہمسایہ ممالک اور خریداروں کو تحفظ توانائی فراہم کرنے میں ReliabilityاورAffordabilityجیسے معیاروں کا بھی حامل ہے۔
بنابر یں تحفظ توانائی کی فراہمی کےبرقرار نہ رہنے اور خریداروں کی ضروریات کو پورا نہ کرسکنے کی بابت ایران کو کوئی تشویش لاحق نہیں،خاص طور پر اس حوالے سے کہ امریکہ کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیاں اس سلسلے میں ایران پر اثر انداز نہیں ہوسکتیں۔ایران نے ۴۰ سال تک امریکہ کی پابندیوں کے مختلف مراحل کامقابلہ کیا ۔لیکن اس عرصے میں نہ صرف ایران کے گیس کے پیداوار اس کی برآمدات تعطل کا شکار نہ ہوئیں بلکہ اس میںاور اضافہ ہواہے۔ ایران کی طرف سے عراق اور قفقاز کو گیس برآمدات کا سلسلہ حالیہ مہینوںاور جدید پابندیوں کے دوران ہی شروع ہواہے۔ پس اس سلسلے میں اسلام آبادکو کسی قسم کی تشویش نہیں ہونی چاہیے۔
پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ صرف اقتصادی کارکردگی کاحامل نہیں بلکہ یہ دیگر شعبوں میں بھی دوطرفہ تعاون کے فروغ کے لئے ایک اساس ہوسکتاہے نیزیہ باہمی احترام ومنافع اور روابط کے لئے بھی سنگ میل ہوسکتا ہے۔ درحقیقت امریکا کی پریشانی اسی حوالے سے ہے کہ کہیں گیس پائپ لائن دیگر سیاسی اور سیکورٹی مسائل میں بھی پاک ایران کےمشترکہ تعاون کے لئے سنگ میل ثابت نہ ہوچنانچہ ابھی تک یہ منصوبہ امریکہ کی مداخلت پسندیوںکی وجہ سے ادھورا رہ گیاہےاور مختلف قوموںاور حکومتوںخصوصاً پاک ایران کے لئے نقصان کا باعث بنا ہوا ہے ۔ افغانستان کی مسلسل بحرانی صورت حال ،شدت پسندی کے پھیلاؤ اور دہشت گردی وغیرہ ایسے امورہیں جو خطے میں امریکہ کی مداخلت پسندیوںکے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں۔ خطے کے بعض بحرانوں جیسے کردوں کے ذریعےعراق کو تقسیم کرکے شام میں کشیدگی سے پاک خطے کو وجود میں لانے کا منصوبہ، کو روکنے میں ایران-ترکی کے باہمی تعاون کے کامیاب تجربے نے یہ ثابت کردیا ہےکہ مضبوط اقتصادی تعلقات اور خاص طور پر اسے توانائی کے شعبے میں کام میں لانا کس قدر فیصلہ کن ہوسکتاہے۔پاک ایران گیس پائپ لائن بھی ایران اور پاکستان کے لئے اس سلسلے میں راہ گشا ہوسکتی ہے۔
نتیجہ
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ عوامل کا مجموعہ دونوں ملکوں کے لئے،علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر پاک ایران گیس پائپ لائن کی بابت مؤثر ہوسکتاہے ۔ اگر دیکھا جائے تودونوں ملکوں کی سطح پر کوئی خاص مشکل دکھائی نہیںدیتی ورنہ اسلام آباد اس معاہدے کو منعقد کرنے کے لئے تیار نہ ہوتا۔یہ ایک پرامن اور قابل اعتماد منبع اور راستے کے ذریعے توانائی درآمدات کی شدید ضرورت کو پورا کرنے کےلئے پاکستانی حکام کی طرف سےاٹھایا گیا ایک ہوشمندانہ قدم تھاجو دیگر ٹرانزٹ راستوں کے پیش کیے جانے کے باوجود اپنے نسبی امتیازکا حامل ہے ۔
دو قوموں اور دو حکومتوں کی۷۰ سالہ پرامن مشترکہ زندگی اوردوستانہ تعلقات اس منصوبے کے لئے مضبوط سہار اقرار پائیں گے۔ بعض سطحی اختلافات نیز پاکستان کی طرف باقی ماندہ پائپ لائننگ کی روشِ تکمیل سے متعلق فنی مسائل اور قیمت کا تعین وغیرہ کوئی ایسی مشکلات نہیں جو قابل حل نہ ہوں۔ان کا حل فریقین کی خواہش اور ارادے پر منحصر ہے ۔حالیہ دنوں میں پیدا ہونے والے دوطرفہ سیاسی اور اقتصادی تحرکات کافی امید آور ہیں ۔پہلی بار دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تبادلات کا حجم ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی سطح پر پہنچی ہے ۔منصوبے کی تکمیل سے متعلق بین الاقوانی سطح پر امریکہ کی مخالفت یوں ہی جاری رہے گی ۔لیکن جیسا کہ ہم نے اس تجزیے میں ملاحظہ کیا کہ خطے کی سطح پر اور یہاں تک کہ امریکہ کے دوست اور اتحادی ممالک جیسے ترکی،جمہوریہ آذربائیجان اور عراق یا عمان کے ساتھ بھی ایران کے گیس معاہدے پائے جاتے ہیں،تو ایسے میں واشنگٹن کی مخالفت کا اس منصوبے پر اثر انداز ہونا بعید معلوم ہوتاہے۔ چنانچہ بعض مغربی ایشیائی ممالک نے بھی اپنی خارجہ پالیسی میںملکی خودمختاری کو زیادہ اہمیت دیتےہوئے کامیاب انداز میں امریکہ سے کنارہ کشی شروع کی ہے ۔یہ کنارہ کشی نیزآئی پی گیس پائپ لائن کی تنصیب کے ذریعے یونائٹیڈ اسٹیٹ کے دباؤ سے مقابلہ کرنا بھی حکومت پاکستان کے لئے متوقع اور پیش بینی شدہ ہے۔
یہ کنارہ کشی اورتحفظِ خود مختاری کا مسئلہ ،خطے کے ا یک طاقتور ملک کے عنوان سے پاکستان -جو شدت پسندی اور دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کی منافقانہ سیاست کی بھینٹ چڑھا ہے-کے وقار اور مقام و منزلت کے ساتھ بھی زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔امریکہ وہ ملک ہےجواپنے آپ کو JCPOA جیسے بین الاقوامی معاہدوں کا بھی پابند نہیں سمجھتا۔
ان مؤثر عوامل پرکیا گیا تجزیہ یہی حکم دیتاہے کہ ایران سے پاکستان گیس منتقلی کے اس منصوبے کی نسبت ہمیں خو ش بیں ہونا چاہیے ۔امید ہے کہ اسلام آباد کے فیصلے میں ملکی حکمرانوں کے طرز عمل کے ذریعے دونوں ملکوں کے توانائی کے شعبے میں ایک روشن مستقبل دیکھنے کو ملے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)