• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابقہ دور حکومت میں جرائم کی شرح

ملک کے دیگر صوبوں کی طرح سندھ میں صوبائی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر کے ختم ہو چکی ہے۔سندھ میں گزشتہ 10سال سے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت رہی۔پی پی پی کے پہلے دور 2008-2013تک شہر میں ٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری،اغواء برائے تاوان اور دہشت گردی اپنے عروج پر رہی۔دوسرے دور یعنی سال2013-2018میں کراچی آپریشن شروع ہونے کے بعد اان واقعات میں بتدریج کمی آئی ہے، جس میں وفاقی حکومت کےساتھ پاکستان رینجرز سندھ اور پولیس کا مرکزی کردار ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران بھی کراچی میں دہشت گردی کے بڑے واقعات ہوئے۔کراچی آپریشن شروع ہونے کے بعد شہر میں پولیس کلنگ کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ ہوا اور متعدد پولیس افسران اور اہل کاروں کو ٹارگٹ کر کے قتل کیا گیا۔سانحہ صفوراگوٹھ میں جہاں آغا خانی برادری کی بس کو نشانہ بنا کر درجنوں افراد کو قتل کیا گیا وہیں بعض اہم شخصیات جن میںمعروف قوال امجد صابری ،ایس ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم سمیت متعدد پولیس افسران کو نشانہ بنایا گیا،ان میں اورنگی ٹاؤن میںقتل ہونے والے7پولیس اہل کار بھی شامل ہیںجبکہ کراچی ائیر پورٹ پردہشت گرد حملہ،، نائن زیرو پر رینجرز کا چھاپہ بھی اسی دور حکومت میں ہوا۔سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے10 سالہ دور اقتدار کے دوران 1034پولیس اہل کارشہید ہوئے ،سب سے زیادہ 736اہل کارکراچی میں جاں بحق ہوئے،سال2013میں سب سے زیادہ205اہل کار جاں بحق ہوئے۔سال 2008سےمئی2018 تک کراچی ،حیدر آباد،میر پور خاص،شہید بے نظیر آباد،سکھر اور لاڑکانہ رینج میںپولیس کلنگ میںایک ہزار34پولیس اہل کار اور افسران جاں بحق ہوئے۔سندھ پولیس کے ریکارڈ کے مطابق سال2008میں سندھ میں مجموعی طور پر 83پولیس ہل کار جاں بحق ہوئے ،اس دوران کراچی میں 48،حیدرآباد میں8،میر پورخاص میں 1،شہید بے نظیر آباد میں 1،سکھر میں4اور لاڑکانہ میں 21پولیس اہل کار جاں بحق ہوئے۔ریکارڈ کے مطابق سال2009میں سندھ بھر میں 67پولیس اہل کار جاں بحق ہوئے ،کراچی میں 41،حیدر آباد میں 4،سکھر میں 9اور لاڑکانہ میں 13اہل کار جاں بحق ہوئے۔سال2010میں سندھ کے مختلف علاقوں میں 83پولیس اہل کار جاں بحق ہوئے،83میںسے 49اہل کار کراچی میں ،8اہل کار حیدر آباد میں،3اہل کار میر پورخاص میں،3اہل کار، بے نظیر آباد میں،7اہل کار سکھر میں جبکہ 13اہل کار لاڑکانہ میں جاں بحق ہوئے۔ سال 2011کے دوران صوبے میں 87پولیس اہل کارشہید ہوئے ،اس دوران کراچی میں 53،حیدر آباد میں 5،میر پور خاص میں 5،شہید بے نظیر آباد میں 7،سکھر میں 9اور لاڑکانہ میں 8اہل کار جاں بحق ہوئے۔سندھ پولیس کے ریکارڈ کے مطابق سال2012میں سندھ میں 156پولیس اہل کار جاں بحق ہوئےجن میں کراچی میں123،حیدر آباد میں 7،میر پور خاص میں 3،شہید بے نظیر آباد میں 5،سکھر میں5اور لاڑکانہ میں13اہل کار شامل ہیں۔سال2013میں صوبے میں 205پولیس اہل کار جاں بحق ہوئے ،اس دوران کراچی میں165،حیدر آباد میں 9،شہید بے نظیر آباد میں 8،سکھر میں 3 اور لاڑکانہ میں 20اہل کار جاں بحق ہوئے۔سال2014میں مجموعی طور پر سندھ میں 183اہل کار جاں بحق ہوئے جن میں کراچی میں 136،حیدر آباد میں 27،میر پور خاص میں1،شہید بے نظیر آباد میں 7،سکھر میں 2اور لاڑکانہ میں 10اہل کار جاں بحق ہوئے۔سال2015میں 90اہل کار جاں بحق ہوئے،اس دوران کراچی میں 67،حیدرآباد میں 2،میر پور خاص میں 6،شہید بے نظیر آباد میں 4،سکھر میں 2اور لاڑکانہ میں 9اہل کار جاں بحق ہوئے۔سال2016میں سندھ بھر میں 41اہل کار جاں بحق ہوئے جن میں کراچی میں 29،حیدر آباد میں 2،سکھر میں5لاڑکانہ میں5اہل کار شامل ہیں،سال2017میں صوبے میں33اہل کار جاں بحق ہوئے جن میں کراچی کے 20،حیدر آباد کا1،شہید بے نظیر آباد کا 1،سکھر کے4اور لاڑکانہ کے7اہل کار شامل ہیں۔سندھ پولیس کے ریکارڈ کے مطابق سال 2018میں اب تک 5پولیس اہل کار مختلف واقعات میں جاں بحق ہوئےجن میں کراچی میں 2،سکھر میں 2اور لاڑکانہ میں ایک اہل کار جاں بحق ہوا۔

’’ انکاؤنٹر اسپیشلسٹ‘‘ راؤ انوار کی جانب سے جہاں 400سے زائد دہشت گردوں کو مبینہ مقابلوں میں مارنے کے دعوے کیے گئے وہیں راؤ انوار بھی نوجوان نقیب اللہ محسود سمیت چار افراد کو مبینہ مقابلے میں قتل کرنے کے جرم میں معطل کر دیئے گئے ۔سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ کے مطابق راؤ انوار کی ملیر میں تعیناتی کے 7 سال کے دوران 745 مبینہ پولیس مقابلے کیے گئے۔پولیس رپورٹ کے مطابق رائو انوار کی ملیر میں تعیناتی کے دوران 192 مبینہ پولیس مقابلے ہوئے جن میں 444 نوجوانوں کو مارا گیا، جب کہ 553 کیسز میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔ سال 2012 کے پہلے 10 ماہ میں سب سے زیادہ 195 مقابلے ہوئے۔رپورٹ کے مطابق جنوری سے اکتوبر 2012 میں ملیر میں پولیس مقابلوں میں سب سے زیادہ183 ہلاکتیں ہوئیں۔ جنوری 2018 میں 2پولیس مقابلے ہوئے اور دونوں میں 8افر اد کو ہلاک کیا گیا۔ کراچی پولیس کے ریکارڈ کے مطابق سال2013میں شہر میں بم دھماکوں میں 140ہلاکتیں ہوئیں۔

2014میں 32بم دھماکوں میں36افراد ، 2015میں5دھماکوں میں 8 افراد، اور 2016 میں دو بم دھماکوں میں ایک شخص ہلاک ہوا۔ریکارڈ کے مطابق سال 2013میں ایک خودکش حملہ ہوا،سال2014 میں 3 اور سال 2015میں ایک خودکش حملہ ہوا جن میں مجموعی طور پر 12افراد ہلاک ہوئے۔سال2013 میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں248ہلاکتیں ہوئیں جبکہ سال 2014 میں 189،2015میں153،2016 میں 22اور2017میں13ہلاکتیں ہوئیں۔ کراچی پولیس کے ریکارڈ کے مطابق سال2013میں شہر میں قتل کے 1842 افراد قتل ہوئے،2014میں 1460،2015 میں 759، 2016 میں 503 اور 2017میں410افراد قتل ہوئے۔ریکارڈ کے مطابق سال 2013میں شہر میں اغواہ کے 1667واقعات رپورٹ ہوئے، سال 2014 میں 1468، سال 2015میں 629،سال 2016میں1298اور سال 2017میں اغواہ کے 1412واقعات رپورٹ ہوئے۔ سال 2013 میں شہر میں 1469پولیس مقابلے ہوئے،2014میں 1748، 2015میں 1636، 2016 میں650اور2017میں 421 پولیس مقابلے ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق سال2013میں بھتہ خوری کے 546، 2014میں450،2015میں 233،2016میں139اور 2017میں بھتہ خوری کے 114واقعات رپورٹ ہوئے۔سال2013میں گاڑیاں چھیننے اور چوری کرنے کے 1821،2014 میں1508 ، 2015میں 795، 2016میں 442اور2017میں468واقعات رپورٹ ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق سال2013 میں شہر میں موٹر سائیکل چوری اور چھیننے کے 6352واقعات رپورٹ ہوئے،سی پی ایل سی کے ریکارڈ کے مطابق رواں سال (2018)کے پہلے چار ماہ کے دوران شہر میں 115افراد قتل ہوئے۔ اس دوران 466گاڑیاں ،8253موٹر سائیکلیں چھینی اور چوری کی گئیں۔رواں سال کے آغاز سےاب تک 10ہزار391موبائل فون چوری اور چھینے جا چکے ہیں۔سال2018میں اغواہ برائے تاوان کے3،بھتہ خوری کے20 اور بینک ڈکیتی کا ایک واقعہ ہوا۔

تازہ ترین
تازہ ترین