عمران خان نیازی کے برادرِ نسبتی اور میرے دیرینہ دوست حفیظ اللہ نیازی کی پُرکاری کہوں یا سادگی کہ وہ عمران صاحب ”تو تڑاک“ کی گفتارِ نازیبا کو سیاست کا شعار بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ جوازِلنگ یہ پیش کرتے ہیں کہ منافق کو منافق اور غنڈے کو غنڈہ نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔ ممکن ہے وہ اتنے بھولے اور سادہ ہیں کہ انہیں سمجھ نہیں آرہا کہ اس کا شائستہ متبادل کیا ہے۔ اگر وہ سیاست میں اخلاق اور شائستگی کو اہمیت دیتے ہیں تو میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ الفاظ کا صحیح چناؤ گفتگو کی زینت اور عزت ہوتا ہے۔ خاص طور پر قومی رہنمائی کا دعویٰ کرنے والوں کو اس انتخاب میں احتیاط کا دامن تھام لینا چاہئے کیونکہ ان کے پیروکار اور چاہنے والے ان کے طرز تخاطب سے متاثر ہوتے ہیں اور پھر زندگی میں وہی اندازِ گفتگو اور طریقہ کار اختیار کرتے ہیں اور اب ایسا ہی ہورہا ہے جس کی واضح نشاندہی معزز اور موقر کالم نگار جناب عطا الحق قاسمی نے اپنے حالیہ کالم میں کی ہے۔
یہ بات تو بچے بھی جانتے ہیں کہ مناسب گفتگو کیا ہوتی ہے اور کیسے کی جاتی ہے۔ کسی بھی شخص پر سیاسی مخالفت کی وجہ سے چور یا منافق کی تہمت لگانا اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے اور قابل مذمت بھی ہے۔ آپ کسی کو بھی منافق یا چور ثابت کئے بغیر صرف الزام نہیں لگاسکتے۔ احتیاط ، تہذیب اور اخلاق کا یہ تقاضا ہے کہ ناشائستہ اور نامناسب الفاظ سے اجتناب کیا جائے۔
چونکہ یہ موضوع کافی وسیع ہے اس لئے میں ایک مثال دے کر اس کا احاطہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ دنیا بھر میں لوگ اپنے رہنماؤں سے سنجیدگی، راست بازی، نیکی اور ایمانداری کی توقع کرتے ہیں۔ زباں زدِ عام ہے کہ ایک سیاسی رہنما کی زندگی ایسی حرکات سے عبارت ہے اور وہ ایسے معاملات میں ملوث ہوتا ہے جس کے ارتکاب پر ان کی پشت پر کوڑے برسائے جاسکتے ہیں اور انہیں پتھر بھی مارے جاسکتے ہیں اور یہ آوازِ خلق ہے۔ مگر کیا سیاسی اجتماعات میں سرعام پوری آواز کے ساتھ اس لیڈر کو اس لقب سے پکارنا چاہئے جو اس کی حرکات کی وجہ سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔ کیا یہ مناسب ہوگا، ہرگز نہیں۔ کوئی بھی ذی شعور شخص اس کی حمایت نہیں کرسکتا۔ ایسے شخص کو صادق اور امین کہنا بھی ان الفاظ اور ان کے پسِ منظر کی تحقیر اور توہین ہے۔ ایک امریکی صدارتی امیدوار ”گیری ہارٹ“ کو اس کی پارٹی اور عوام نے محض اس لئے رد کردیا تھا کہ ان کا ایک مشہور امریکی ماڈل ”ڈونا رائس“ کے ساتھ اسکینڈل افشاء ہوگیا تھا۔ امریکی اخبارات نے ایک تصویر شائع کی جس میں”گیری ہارٹ “ نے اظہارِ شفقت کے طور پر”ڈونارائس“ کو اپنے دامن میں سمیٹا ہوا تھا۔ امریکی اپنے طرزِ زندگی میں خاصے کھلے اور وسیع القلب ہیں اور جدید طرز حیات کو اپنائے ہوئے ہیں مگر اس واقعے پر وہ بھی مشتعل ہوگئے اور اس واقعے کی مذمت کی۔ ”گیری ہارٹ“ کو امین اور صادق کے مقام سے رد اوراسے بددیانت سمجھتے ہوئے انتخابات سے پہلے ہی رد کردیا اور تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیا۔سیاسی اجتماع میں اپنے مخالفین کو تختہٴ مشق بنانا ہو یا اپنی تحریر میں اپنے مربی یا رشتہ دار کی تعریف وتوصیف میں احتیاط اور اعتدال کا دامن تھامنا لازم ہے۔ بہترین حل یہ ہے کہ الفاظ کو بے جان حروف کا مجموعہ سمجھ کر ان کا استعمال نہ کیا جائے۔ الفاظ جاندار ہوتے ہیں۔ دل میں اتر جاتے ہیں، رو ح اور دماغ کو صدمہ بھی دیتے ہیں اور لازوال خوشی سے ہمکنار کرتے ہیں۔ الفاظ مرہم بھی رکھتے ہیں اور دل شکستہ بھی کرتے ہیں۔ ان کا پسِ منظر، کردار، مقام اور مطلب ہوتا ہے۔ بلا سوچے سمجھے بے جا تعریف کے لئے استعمال کرنا یا سوچ سمجھ کر تحقیر کیلئے بولنا لفظو ں کی عزت وحرمت پامال کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے کہنے ، بولنے اور لکھنے والے کی عصمتِ اعتبار بھی تار تار ہو جاتی ہے۔آےئے مخاصمت کو، مخالفت کو بالائے طاق رکھ دیں۔ صیغہٴ واحد کے اندازِ تکلم کو ”تیاگ“ دیں اور عہد کریں کہ معاشرے میں انحطاط اور بگاڑ سے بچنے کیلئے مہذب اندازِ گفتگو اپنائیں اور نائشائستہ طرزِ تکلم سے پرہیز کریں۔ امید ہے میرے رفیق کار اور دوستِ دیرینہ یہ بات پڑھ کر سمجھ لیں گے اور جو ان کی سنتا ہے اسے بھی سنا ڈالیں گے اور امید ہے وہ بھی سمجھ جائیں گے۔ حرفِ آخر کچھ یوں ہے کہ گزشتہ برس سے موصوف عمران خان نیازی نے میاں محمد نواز شریف کے بارے میں جو اندازِ بیاں روا رکھا ہے اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ:۔
”آوازِ سگاں کم نہ کنند رزقِ گدارا“
پی ٹی آئی اور اس کے رہنماؤں اور مرکزی قائد کی تمام تر” ہرزہ سرائی“ کے باوجود میاں نواز شریف کی باوقار خاموشی کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے اور سیاسی پنڈت کہہ رہے ہیں کہ عنقریب کپتان نیازی سیاست کے میدان میں محض بارہویں کھلاڑی بن کر رہ جائیں گے۔