• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برصغیر کی تاریخ کے حیران کن اور تذبذب میں ڈال دینے والے انتخابات کا قصہ سنانے سے پہلے آپ بچوبھائی کی بات سن لیجیے۔ بچو بھائی کہتے ہیں :رمضان کے ایک مہینے میں ہم دل و جاں سے نفس کی خوب خدمت کرتے ہیں۔ ہم رمضان کے ایک مہینے میں نفس کو اس قدر کھلا پلا کر سانڈ بنا دیتے ہیں کہ سال کے باقی گیارہ مہینے نفس کا سانڈ ہم پر حکومت کرتا ہے۔ نفس ہمیں اپنا غلام بنا دیتا ہے۔ سال کے باقی گیارہ مہینے ہم نفس کے تابع رہ کر زندگی گزارتے ہیں۔
تو میرے بھائیو، بہنو اور بچو آج کل میں نفس کی خوب خدمت کر رہا ہوں۔ نفس کو خوب کھلا پلا رہا ہوں۔ نفس کو خوش رکھنے کے لئے خوب دل کھول کر خرچ کر رہا ہوں۔ نفس کی خواہشیں پوری کرنے کے لئے مجھے اگر بینکوں سے قرضہ لینا پڑے تو میں اس سے بھی گریز نہیں کرتا۔ کئی رمضان کے مہینے ایسے بھی آتے ہیں کہ جن مہینوں میں نفس کو مطمئن رکھنے کے لئے مجھے بنکوں سے اس قدر قرض لینا پڑتا ہے کہ سال کے باقی گیارہ مہینے رمضان میں لیا ہوا قرض اتارنے میں گزر جاتے ہیں۔ جب قرض اترتا ہے تب پھر سے رمضان کی آمد آمد ہوتی ہے۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ آج کل میں نفس کی خوب خدمت کر رہا ہوں۔ بہت مصروف ہو گیا ہوں۔ مجھے سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی۔ بے انتہا مصروف ہو جانے کے باوجود میں اپنا وعدہ کبھی نہیں بھولتا۔ ہر حال میں وعدہ وفا کرتا ہوں۔ آج آپ کو حیران کن انتخابات کا قصہ سنا کر دم لوں گا۔ تولیجئے۔ قصہ سنئے۔
ایک تھا ملک! اس ملک کے پانچ صوبے تھے۔ پانچ صوبوں کے نام تھے سندھ، پنجاب، بلوچستان، صوبہ سرحد اور مشرقی پاکستان۔ ملک کا نام تھا پاکستان۔ مشرقی پاکستان ملک کا سب سے بڑا صوبہ تھا۔ پاکستان کی کل آبادی کے چھپن فیصد لوگ مشرقی پاکستان میں رہتے تھے۔ سندھ، پنجاب، سرحد اور بلوچستان کی مل ملا کر آبادی پاکستان کی کل آبادی کا چوالیسواں حصہ تھی۔ ان چاروں صوبوں کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملتی تھیں۔ ان چار صوبوں کو کہتے تھے مغربی پاکستان۔ مشرقی پاکستان چار صوبوں والے مغربی پاکستان سے ایک ہزار میل دور تھا۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان تھا ہندوستان۔ ستر سالہ تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا جان چکی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کے دیرینہ دشمن ہیں۔ ایک دوسرے کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ دونوں ممالک کی ہزاروں میل لمبی سرحدیں ایک ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ قدرتی طور پر دونوں ممالک ایک دوسرے سے دور نہیں ہو سکتے۔ قیامت تک دونوں ممالک آپس میں جڑے رہیں گے۔ ایک ساتھ جنم لینے والے جڑواں بچے دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک وہ جن کے وجود الگ الگ ہوتے ہیں۔ ان کے وجود میں آنے کے بعد پتہ چل جاتاہے کہ دونوں کی طبیعت ایک دوسرے سے الگ ہوتی ہے۔ دونوں کی سوچ الگ ہوتی ہے۔ دونوں کے رویے ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ وہ دونوں اس وقت تک ساتھ ساتھ، بھائی چارے میں رہتے ہیں جب تک دونوں بھائی تحمل سے کام لیتے ہیں۔ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ اگر کبھی اونچ نیچ ہو جائے تو ایک دوسرے کو برداشت کر لیتے ہیں۔ آگے چل کر اگر بھائیوں کے درمیان اختلافات پیدا ہو جائیں اور اختلافات ٹکرائو کی صورت اختیار کر لیں، تو پھر دونوں بھائی اپنے اپنے راستے الگ کر لیتے ہیں۔ اس طرح دونوں بھائی روز روز کے لڑائی جھگڑوں میں اپنی توانائی ضائع کرنے سے بچ جاتےہیں اور اپنے اپنے وسائل اپنی اپنی فلاح و بہبود پر لگا دیتے ہیں اور خوش حال زندگی گزارتے ہیں۔ مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جڑواں بچے آپس میں جڑے ہوئے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے سر آپس میں جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کی پشت آپس میں جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ پا پھر ان کا سینہ آپس میں جڑا ہوا ہوتا ہے۔ ایسے بچے طبیعتاً ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود ایک ساتھ زندہ رہنا سیکھ لیتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان جڑے ہوئے جڑواں بچے ہیں۔ ان کو ایک دوسرے کو برداشت کرنا پڑے گا۔ ایک دوسرے کی عزت کرنا سیکھنا پڑے گا۔ ایک دوسرے کو اپنی اپنی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کرنا پڑے گا۔
معافی کا طلب گار ہوں۔ کہنا کچھ چاہتا تھا، مگر کہہ گیا کچھ اور ہوں۔ میں آپ کو بتا رہا تھا کہ چار صوبوں والے مغربی پاکستان اور ایک ہی صوبے مشرقی پاکستان کے درمیان ہندوستان تھا۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو ملا کر کہتے تھے پاکستان۔ صرف پاکستان۔ نت نئے نسخوں سے پاکستان پر حکومت کرنے کے طریقے آزمائے گئے۔ مگر بے سود۔ صوبوں کی ایک دوسرے کے خلاف شکایتیں بڑھتی گئیں۔ تب بادل نخواستہ حاکموں نے فیصلہ کیا کہ انتخابات کروائے جائیں اور ملک کو جمہوری طریقے سے چلایا جائے۔ یہ باتیں انیس سو ستر اور اکہتر کی ہیں۔ خیر سے ملک میں انتخابات ہوئے۔ نتیجہ آتے ہی ایک بار پھر اقتدار پر قبضہ کرنے کی جنگ چھڑ گئی۔ جنگ کیوں چھڑی تھی۔ کس کے درمیان چھڑی تھی؟ یہ ایک الگ قصے کا مواد ہے۔ پھر کبھی آپ کو سنائوں گا۔ آپ اصل اور حیرت انگیز بات سنیں۔ اقتدار کے لئے کشمکش کے دوران پاکستان ٹوٹ گیا۔ مشرقی پاکستان بن گیا بنگلہ دیش ،رہ گیا مغربی پاکستان ۔ جس الیکشن کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹ گیا، فریقین اس الیکشن کے نتائج کے حوالے سے اقتدار پر قابض ہو گئے۔ اصولاً جس الیکشن کے بعد پاکستان ٹوٹا تھا۔ اس الیکشن کے نتائج کو لازمی طور پر غیرموثر، کالعدم اور منسوخ ہو جانا چاہیے تھا ۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ الیکشن کے نتائج میں سب سے زیادہ ووٹ مجیب الرحمٰن کو ملے تھے۔ اور دوسرے نمبر پر زیادہ ووٹ ذوالفقار علی بھٹو کو ملے تھے۔ مجیب الرحمٰن بنگلہ دیش کے وزیر اعظم بن بیٹھے اور ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ اصولاً بنگلہ دیش اور مغربی پاکستان میں از سر نو انتخابات ہونا ضروری تھے۔ لازمی تھے ۔ بنگلہ دیش میں بے شمار لوگ ایسے تھے جو مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی کے حق میں نہیں تھے۔ اسی طرح مغربی پاکستان میں کئی لوگ ذوالفقار علی کے حق میں نہیں تھے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کے دو لخت ہونے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ دونوں نئے ممالک نے نئے الیکشن سے اجتناب کیا اور ایک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ملک میں منعقدہ الیکشن کے نتائج سے استفادہ کیا، جو کہ غیر موثر اور کالعدم ہو چکے تھے۔ بڑا بھیانک نتیجہ نکلا۔ شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو غیر طبعی موت مر گئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین