• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عیدین کے مواقع فلموں کی نمائش پر پابندی!!

عیدین کے مواقع پر پاکستانی سینمائوں پر بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی کا فیصلہ گو کہ کافی تاخیر سے کیا گیا مگر یہ حکومت پاکستان کا مستحسن قدم ہے، پاکستانی فلم سازوں اور تقسیم کاروں کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ کم ازکم عیدین اور قومی تہواروں کے مواقع پر پاکستانی سینمائوں پر صرف پاکستانی فلموں کی نمائش ہونی چاہئے کیونکہ بھارتی فلمیں عیدین کے مواقع پر سارا بزنس لے جاتی تھیں اور بعض سینما مالکان بھی پاکستانی فلموں کے شوز کم کردیتے تھے یا فلم اتار دیتے تھے جس کی وجہ سے پاکستانی فلم سازوں اور تقسیم کاروں کو شدید مالی نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے، فلم ساز وہدایت سید نور نے کہاکہ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں فلم کنونشن میں پاکستانی فلم وفد نے جہاں اور بہت سے مطالبات رکھے تھے اس میں عیدین کے مواقع پر بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا تھا اور حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم بھی کیا تھا حالیہ نوٹیفکیشن کے ذریعہ ہمارے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے پابندی عائد کردی ہے، سید نور نے مزید کہا کہ فلم کنونشن میں اور بھی کئی معاملات طے کئے گئے تھے جن کا ابھی عمل درآمد ہونا باقی ہے، بھارتی فلموں پر عارضی طور پر عیدین کے موقع پر پابندی اچھا قدم ہے، پاکستانی فلم سازوں کو بھی اب اس چیلنج کو قبول کرنا چاہئے اور عیدین کے مواقع پر اچھی اور معیاری فلمیں ریلیز کرنی چاہئیں، خوشی کی بات ہے کہ اس عید پر پنجاب سرکٹ میں چار فلمیں ریلیز کرنے کی تیاریاں جاری ہیں، پاکستانی فلمی صنعت کے معروف تقسیم کار آئی ایم بی سی کے میاں امجد رشید نے کہا کہ حکومت کا عیدین کے موقع پر بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی اچھا فیصلہ ہے اور ہم اس فیصلے کی مکمل حمایت کرتے ہیں تاکہ پاکستانی فلموں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں سینما مل سکیں۔ حکومتی اقدام سے پاکستانی فلمی صنعت کو فائدہ ہوگا، ہم بھی پاکستانی فلمی صنعت کی ترقی کے خواہاں ہیں اگر پاکستانی فلمیں اچھی اور معیاری ہوں گی تو پورے سال فلمیں باقاعدگی سے ریلیز ہوتی رہیں گی اور بزنس بھی کریں گی، اصل وجہ یہ ہے کہ پاکستانی فلمیں سال میں سینمائوں کی ضرورت کے مطابق فلمیں دستیاب نہیں ہوتیں جس کی وجہ غیر ملکی فلموں کا سہارا لینا پڑتا ہے، اگر ہم پاکستان اور بھارتی ثقافتی تعلقات کا تجزیہ کریں تو 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد سے کئی ایسے موڑ آئے جب دونوں حکومتوں کے مابین کبھی تو تعلقات بہت اچھے ہوتے دکھائی دیتے اور کبھی فاصلے بڑھ جاتے ہیں، پرویز مشرف کے دور بھارتی فلموں کی پاکستان میں درآمد کا سلسلہ شروع ہوا تھا اس وقت یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی بارٹر سسٹم کے تحت پاکستانی فلموں کی بھارت میں اور بھارتی فلموں کی پاکستانی سینمائوں میں نمائش کی جائے گی، بھارتی تقسیم کاروں نے شروع میں چند پاکستانی فلموں کے بھارت میں نمائش کے حقوق حاصل ضرور کئے مگر ان فلموں کی وہاں نمائش نہ کی جاسکی، جبکہ بھارتی فلموں کی پاکستانی سینمائوں پر نمائش بھرپور طریقے سے جاری ہے، اسی طرح پاکستانی فنکاروں کی کارکردگی کی بنا پر بھارت میں مقبولیت میں اضافہ ہوتا رہا جب سے نریندر مودی کی تعصب حکومت برسر اقتدار آئی ہے، پاک بھارت ثقافتی تعلقات میں کشیدگی عروج پر آگئی، اسی تناظر میں رواں سال مارچ میں انڈین موشن پکچرز پروڈیوسرز ایسوسی ایشن صدر ٹی پی اگر وال نے 14مارچ 2018 کو نریندر مودی کو خط لکھا کہ پاکستانی فنکاروں، گلوکاروں اور تیکنیک کاروں کی بھارت میں کام کرنے کا ورک پرمٹ نہ جاری کیا جائے اور پاکستانی فنکاروں پر پابندی عائد کی جائے، جس کے بعد بھارتی حکومت نے پاکستانی فن کاروں، گلوکاروں پر پابندی عائد کردی حالانکہ متعدد پاکستانی اسٹیج کے فنکار بھارتی ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں اپنی پرفارمنس کے ذریعہ نمایاں مقام حاصل کئے ہوئے تھے، بھارتی حکومت کے اس متعصبانہ رویے پر پاکستانی فلمی صنعت کے کرتا دھرتائوں نے بھی حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ بھی رد عمل کے طور پر بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کردی جائے، چیئرمین فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن سید نور اور چیئرمین پاکستان فلم ڈسٹری بیوٹرز ایسوسی ایشن چوہدری اعجاز کامران نے بھی ایک پریس کانفرنس میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا مگر اس پر خاطر خواہ عمل درآمد نہ ہوسکا، چوہدری اعجاز کامران نے بھی عیدین کے مواقع پر بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فلمی صنعت کی ترقی کے لئے راہ ہموار ہوگی، جبکہ انڈین موشن پکچرز پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے پاکستانی فنکاروں کے ورک پرمٹ منسوخ کرنے پر بھارتی اداکار سلمان خان نے مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ فنکاروں پر پابندی عائد کرنا مستحسن اقدام نہیں ہے، مہیش بھٹ اور اوم پوری نے بھی اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا تھا جس پر انہیں وہاں بہت زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، بھارت میں اب بھی پاکستانی فنکاروں کے خلاف لابی سرگرم عمل ہے، جبکہ پاکستانی فلم صنعت میں بھارتی فلموں کے خلاف وہ شدت نہیں ہے جتنی بھارت میں ہے، اس تناظر میں عیدین کے موقع پر بھارتی فلموں پر پابندی حکومت کا ایک مستحسن قدم جسے ہم متعصبانہ نہیں کہہ سکتے ہیں، حکومت کا یہ اقدام پاکستانی فلموں کی ترقی اور پروموشن کی غرض سے کیا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین