ایک حلیم، بردبار، بھلے مانس نے ایک سادھو کو دیکھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ مدتوں سے تپسیا میں مگن، دنیا و مافیہا سے بے نیاز اپنی دھن میں رہتا ہے۔ نہ کوئی لالچ نہ لوبھ نہ اوڑھنے بچھونے کی پرواہ نہ کھانے پینے کا خیال۔ دن رات مالا لیئے رام رام جاپتا رہتا ہے۔ بھلے مانس نے سوچا سادھو جی کا چیلا بن جائو اور آہستہ آہستہ دنیا کی آلائشوں سے مکت ہو جائوں لیکن پھر خیال آیا کہ پہلے سادھو مہاراج کی تھوڑی سی جانچ پرکھ تو کرلوں کہ انسانیت کے کس درجہ پر فائز ہیں چنانچہ وہ مہاتما جی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کیا ......’’مہاراج! تھوڑی سی آگ دے دیں‘‘ سادھو نے سفید پلکیں اوپر اٹھائیں خوابیدہ و خشگیں نظروں سے سوالی کودیکھا اور سرد لہجہ میں کہا۔
’’مورکھ! میری کٹیا میں آگ کہاں؟‘‘
سچ مچ آگ تھی بھی نہیں لیکن سوال کا مقصد تو کچھ اور دیکھنا، شانتی اور ضبط کی انتہا معلوم کرنا تھا سو اس نے پھر کہا ’’مہاراج! تھوڑی سی آگ ہی دان کر دیجئے‘‘۔
سادھو نے غضب ناک ہو کر کہا۔
’’اندھا ہے یا بہرہ، تو کیسا گنوار آدمی ہے۔ ہم نے کہا آگ ہے نہیں اور تو مانتا ہی نہیں، مانگے چلا جارہا ہے‘‘۔
اس ڈانٹ پھٹکار پر اس بھلے مانس نے جو سادھو کی جانچ کررہا تھا، تیسری بار ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ......’’مہاراج! دھواں تو اٹھتا ہے تھوڑی سی ہی دے دیجئے‘‘۔ اب تو سادھو کا پارہ آسمان کو چھونے لگا، چہرہ سرخ آنکھیں انگارہ ہو کر آگ اگلنے لگیں اور ڈنڈا اٹھا کر مارنے کو لپکا توبھلا مانس بے اختیار سادھو کے پائوں پڑ گیا اور بولا۔
’’سادھو مہاراج! چھما کیجئے اب تو آگ پوری طرح بھڑک اٹھی ہے۔ مجھے بھی چند چنگاریاں مل جائیں تو کیا برا ہے‘‘۔ سادھو نے ڈنڈا رسید کرتے ہوئے چیخ کر کہا ’’جنم جلے سیاہ بخت! سمجھانے کے باوجود تو مجھ سے بار بار آگ کیوں مانگے جارہا ہے جو میرے پاس ہے ہی نہیں‘‘۔ بھلے مانس نے کہا۔
’’مہاراج! دراصل میں آپ کی دانش و دلداری کی جانچ کررہا تھا۔ آپ میں سبھائو رچائو، برداشت، عفو درگزر، مروت، محبت، رواداری، دید، لحاظ کی پرکھ کررہا تھا کہ موجود ہو تو چیلا بن کر جیون بھر آپ کی سیوا کروں اور باقی سانسیں آپ کے چرنوں میں گزار دوں۔ جو کرودھ آپ کو پہلے آیا تھا وہ آگ کا سلگنا تھا، میرے دوسری بار آگ مانگنے پر آپ میں سے دھواں اٹھنے لگا اور اس کے بعد بتدریج یہ آگ بھڑکتی پھیلتی گئی۔ یہ آگ آپ کے دل سے پیدا ہوئی اور پھر منہ کے راستے باہر نکلی جیسے جوالا مکھی پہاڑ کے اندر ہوتی اور پھر اس کے منہ سے باہر نکل کر اپنے آپ کو بھی جلا کر راکھ کردیتی ہے، اپنے اردگرد کی ہر شے کو بھی بھسم کر ڈالتی ہے۔ اگر آپ میں دلداری و خاکساری ہوتی تو آپ انسان سے آتش فشاں میں تبدیل نہ ہوتے‘‘۔
یہ بھولی بسری حکایت مجھے چوہدری نثار علی خان اور خورشید شاہ کے تازہ ترین رائونڈ پر یاد آئی۔ چوہدری صاحب نے کہا تھا کہ وہ جس کی دم پر پائوں رکھتے ہیں، وہ چیخنے لگتا ہے۔ جواباً خورشید شاہ صاحب نے فرمایا ہے
...... ’’نثار کی تو دم کا ہی پتہ نہیں‘‘۔
یہ ہیں وہ رہنما جن سے قوم رہنمائی کی طلبگار ہے۔
یہ ہیں ہمارے رول ماڈلز۔
یہ ہیں جو ہمیں منزل تک لے جائیں گے
یہ ہیں جمہوریت کے چیمپینئز اور سمبلز کہ جمہوریت برداشت اور رواداری سکھاتی ہے۔
لیکن سچ یہ کہ یہی ہماری جمہوریت ہے اور یہی ہمارے جمہوری رہنما۔ سوائے بابائے قوم محمد علی جناح کے باقی سب کالب و لہجہ ہمارے سامنے ہے۔ بھٹو صاحب ہماری سیاسی تاریخ کے دیو مالائی قسم کے کردار ہیں لیکن حسن گفتار میں ان کا ثانی نہیں ملتا۔ کسی کو آلو اور کسی کو ریلوے انجن قرار دیا، قیوم خان کیلئے ’’ڈبل بیرل خان‘‘ کی اصطلاح متعارف کرائی۔ کسی نے کرمانی صاحب کے بارے پوچھا تو کہا "WHO IS SHE" تو دوسری طرف بھٹو صاحب کے صالحین مخالفین نے ’’گھاسی رام‘‘ تک ایجاد کر ڈالا۔
بے نظیر بھٹو مرحومہ اور نوازشریف موجودہ کے درمیان جوکچھ ہوتا رہا بلکہ جو جو کچھ ہوتا رہا، وہ بھی ہماری جمہوری تاریخ کا اتنا روشن باب ہے کہ پوری طرح آنکھیں کھول کر دیکھنے سے بینائی بھی ضائع ہوسکتی ہے۔
"LEADERS GO DOWN IN HISTORY ....... SOME FARTHER THAN OTHERS.
اور ہمارے لیڈروں کے بارے میں حتمی اورآخری سچ یہ ہے کہ
"IT IS EXTREMELY DIFFICULT TO LEAD FARTHER THAN YOU HAVE GONE YOURSELF."
ہمارے نصیبوں میں یہی کچھ لکھا ہے۔
لیکن غور اس بات پر کرنا چاہئے کہ ...... کس نے لکھا؟
قدرت نے نہیں، ہم سب نے یہ سب کچھ اپنے ’’اجتماعی مقدر‘‘ میں خود بڑی محنت اور محبت سے لکھا ہے اس لیے مقدر سے شکوہ زیب نہیں دیتا۔
تجھ سے شکوہ تو نہیں کاتب تقدیر مگر
رو پڑے تو بھی اگر میرا مقدر دیکھے
کاتب تقدیر سے شکوہ کرنے سے پہلے انسان کو خود اپنے کرتوتوں پر اک نظر ڈال لینی چاہئے لیکن ہمارے ہاں گریبان پکڑنے کا شوق تو بہت ...... اپنے گریبان میں جھانکنے کا کوئی رواج نہیں۔