ڈرامے شہریوں کی تفریح کا ایک ذریعہ ہیں۔ کام کاج کی تھکن کے بعد یا پھر چھٹی والے دن اکثر لوگ فلم یا تھیٹر کا رخ کرتے ہیں۔ تاریخ اس حوالے سے کچھ نہیں بتاتی کہ پہلا ڈرامہ کب سٹیج کیا گیا اور تھیٹر کا آغاز کب ہوالیکن یہ ضروربتاتی ہے کہ دنیا کی تمام ہی تہذیبوں میں، چاہے وہ رومی تہذیب ہو، یونانی، چینی ، جاپانی یا افریقی، تھیٹر کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔
1855ء میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے اپنے محل کے صحن میں آغا حسن امانت کا تحریر شدہ ڈرامہ ”اندر سبھا“ سٹیج کیا۔جو شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی ڈرامہ تھا۔ پس منظر میں موسیقی دی جاتی تھی۔ بعد ازاں اردو تھیٹر کی اس روایت نے بتدریج پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی۔ تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر پارسی تھیٹر کا راج رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔ پھربرٹش راج کے دَور میں تھیٹر داستانوںسے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کی محرومیوں و مصائب کا عکاس بنا۔
لاہور میں سٹیج ڈرامے کی روایت بہت پرانی ہے اور یہاں سٹیج ڈرامے کے آغاز کا سہرا گورنمنٹ کالج لاہور کے سر ہے جہاں ڈرامیٹک کلب کے زیراہتمام 1876ء میں پہلا ڈرامہ سٹیج ہوا۔بعد میں جب سٹیج ڈرامہ تعلیمی اداروں سے نکل کر باقاعدہ تھیٹر کی شکل میں پیش کیا جانے لگا تو امتیاز علی تاج، رفیع پیر، خواجہ معین الدین اور کمال احمد رضوی نے اردو سٹیج ڈرامے کے فروغ کے لئے ناقابلِ فراموش خدمات سر انجام دیں۔ اردو تھیٹر نے پارسی تھیٹر سے زیادہ عروج حاصل کیا۔
پھر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں عوام الناس کو ایک نئے پاکستان کا تصور دیا۔ تھیٹر کا یہ زمانہ عوامی کلچر پر مبنی تھا۔ تازہ سیاسی حالات نے تھیٹر، فنون اور موسیقی میں عوامی تحریک کو جنم دیا۔ اس عرصے میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور اکیڈمی آف لیٹرز جیسے ثقافتی اور ادبی ادارے قائم کئے گئے۔ الحمرا آرٹس کونسل کو نئی عمارت دی گئی۔ تھیٹر میں غیر ملکی ادب سے ڈرامے ماخوذ کئے گئے۔ سٹوڈنٹ تھیٹر کو فروغ ملا۔ بھٹو صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو جنرل ضیاالحق نے مارشل لاء لگا کر پاکستانی تاریخ کے تاریک ترین دور کا آغاز کیا۔ ہر قسم کی ثقافتی اور تھیٹر سرگرمی حتیٰ کہ سٹوڈنٹ تھیٹر پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
لاہور میں کمرشل تھیٹر کا آغاز اسی کی دہائی میں ہوا۔ شروع شروع میں اوپن ائیر تھیٹر باغِ جناح میں جگتوں سے بھرپور ڈرامے سٹیج کیے گئے اور بعد میں الحمراء ہال میں ان کا فیشن چل نکلا۔ الحمراء ہال میں کمرشل ڈراموں کی کامیابی سے حوصلہ پا کر پرائیویٹ پارٹیوں نے تھیٹر ہالز قائم کرنا شروع کر دیئے۔ فلم انڈسٹری کے بحران کے ساتھ ہی سنیما مالکوں نے سنیما گھروں کو تھیٹر ہالوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیا۔شروع میں کمرشل تھیٹر طنز و مزاح اور جگتوں کے بل بوتے پر چلتا رہا جس سے لطف اندوز ہونے کے لئے لوگ اپنی فیملی کے ساتھ آتے تھے۔ اس وقت ان ڈراموں میں منجھے ہوئے اداکار جن میں سہیل احمد،قوی خان،خالد عباس ڈار،عرفان کھوسٹ ،فردوس جمال،ڈاکٹر انور سجاد ، امان اللہ، عاصم بخاری، عمر شریف، سہیل احمداور مسعود اختر جیسے فنکار شامل تھےجو اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے اور لوگوں کے دل جیت لیتے تھے۔ ان ڈراموں کا باقاعدہ سکرپٹ لکھا جاتا تھا اور تمام اداکار اس سکرپٹ میں رہتے ہوئےجگتوں کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھانے کے پابند ہوتے تھے ۔ لیکن آنے والے برسوں میں کمرشل تھیٹر اس طرح سے اخلاقیات سے عاری کلچر کو فروغ دے گا یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ بد قسمتی سے تھیٹر میں کچھ غیر تعلیم یافتہ لوگ آ گئے جنہوں نے بغیر سکرپٹ کے ڈرامے بنانے شروع کر دیئے جن میں جگتوں کی جگہ بولڈ رقص نے لے لی اور ڈانس کو کمرشل ڈرامے کا لازم و ملزوم حصہ سمجھا جانے لگا جس کی وجہ سے فیملیز نے ڈرامہ دیکھنا چھوڑ دیا۔ اگر غلطی سے کوئی فیملی آبھی جائے تو ڈرامہ کے شروع میں ہی ماحول دیکھ کر ڈرامہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ پہلے ایک ہی ڈرامہ کئی کئی ماہ چلتا تھا لیکن اب ہر پندرہ دن کے بعد نیا ڈرامہ آ جاتا ہے جس میں وہی جگت بازی اور غیر اخلاقی رقص دکھایا جاتا ہے۔اس چیز کو تھیٹر کے چلنے کا کامیاب ذریعہ سمجھا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ معیاری کام سے ہی سٹیج ڈراموں کے شائقین کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈرامہ، معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور عوام کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ جو ڈرامے پیش کیئے جا رہے ہیں ان میں کوئی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے۔ ایسے تھیٹر سے ہم اپنی نوجوان نسل کو کس بے راہ روی کی طرف گامزن کر رہے ہیں۔ جب تمام فنکار اس بات کا فیصلہ کرلیں گے کہ ہم نے معیاری کام کرنا ہے تو پھرڈراموں میںغیر اخلاقیات کی عکاسی کاتصوربھی نہیں رہے گا۔
کمرشل تھیٹر سے اختلاف رکھنے والےکچھ تھیٹر فنکاروں نے 1980ء کی دہائی میں ایک متوازی راستہ اختیار کیا۔ جن میں اجوکا تھیٹر اور رفیع پیر گروپ کا نام سر فہرست ہے۔ انہوں نے گھروں اور سڑکوں پر تھیٹر ڈرامے سٹیج کرنے شروع کر دئیے اور ان کے ذریعے سیاسی و تھیٹریکل انتظامیہ اور آمریت کو نشانہ بنایا۔ لاہور میں اجوکا تھیٹر ایک ایسا نمایاں گروپ تھا جس نے اپنا پہلا کھیل ”جلوس“ 1984ء میں ایک گھر کے لان میں سٹیج کیا۔ ابتدائی طور پر یہ گروپ یونیورسٹی طلبا پر مشتمل تھا، جس کے ڈراموں کے موضوعات سماجی تبدیلی اور انسانی حقوق ہیں۔ ٹی وی اداکارہ اور ہدایت کارہ مدیحہ گوہر کی سربراہی میں شروع ہونے والایہ تھیٹر آج بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ گروپ نہ صرف پرفارم کرتا ہے بلکہ دوسروں کو تربیت بھی دیتا ہے۔\رفیع پیر گروپ بھی نظریاتی پابندیوں سے آزاد ایساگروپ ہے جس کی بنیاد 1974ء میں سلمان پیرزادہ اور ان کے دیگر بھائیوں نے رکھی۔ رفیع پیر برصغیر میں جدید اردو پنجابی ڈرامہ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ اس گروپ نے ہم عصر حالات کے مطابق اوریجنل ڈرامے کی تخلیق کی کوشش کی اور پاکستان میں پتلی تماشا کو بھی متعارف کروایا۔ یہ گروپ تھیٹر، موسیقی اورپتلی تماشے کے فیسٹیولز کا انعقاد بھی کرواتا ہے جہاں عوام اور فنکار بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔اس کے علاوہ سینئر فنکاروں میں نعیم طاہر، ثانیہ سعید، کمال احمد رضوی، بشریٰ انصاری جیسے فنکاروں نے تھیٹر کے لئے نمایاں خدمات انجام دیں۔
ملک میں بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کو موضوع بنا کرکمرشل تھیٹر بھی ایسے ڈرامے پیش کر سکتا ہے جس میں عام آدمی کو تفریح کے ساتھ ساتھ اس کی اصلاح بھی کی جا سکتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان ڈراموں کے لئے ایسا سکرپٹ لکھا ہی نہیں جاتا۔ جو ڈرامے پیش کئے جا رہے ہیں، ان میں کوئی بھی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے بلکہ یہ ہماری نوجوان نسل کو غلط راہ کی طرف گامزن کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ لیکن دیکھا جائےتواس میں بھی ہمارا اپنا ہی قصور ہے۔ اتنے پڑے پیمانے پر اگر ایسے ڈرامے دکھائے جاتے ہیں تو عوام کی ہی وجہ سے۔ اگر ہم آج ان کمرشل ڈراموں کا بائیکاٹ کردیں تو تھیٹر انڈسٹری بھی ایسے ڈرامے بنانا بند کردے۔
برائی کے خاتمے کے لئے برائی کو جڑ سے ختم کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے اب ہمیں اور حکومتوں کو برائی کی جڑوں تک جانا ہو گا اور معا شرے میں پھیلی تمام ایسی برائیوں کا دیرپا حکمت عملی سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ میڈیا،اداکاروں، پروڈیوسرز اور رائٹرز کو بھی تعمیری ذہن سازی والا مواد سامنے لانا ہو گاجس سے تہذیب یا فتہ معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے۔
یقیناً جو سٹیج ڈرامہ پر دکھایا جا رہاہے اس کی ذمہ دار مقامی حکومت ہے۔ لہٰذا حکومت کا فرض بنتا ہے کہ ان ڈراموں پر چیک اینڈ بیلنس رکھے۔ عوام کو صحت مند تفریح مہیا کرنے کی آڑ میں غیر اخلاقی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی اجازت بالکل نہ دی جائے۔جو بھی اس میں ملوث نظر آئے، اسے سزا دی جائے۔تمام سٹیج ڈراموں کی مانیٹرنگ کی جائے، جو پروڈیوسر ،فنکار یا انڈسٹری سے منسلک لوگ غیر اخلاقی حرکات کو فروغ دینے میں کوئی کردار ادا کریں تو انھیں سخت سے سخت سزا اور بھاری جرمانے کئے جائیں تا کہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت کرنے کے بارے میں نہ سوچےاور تمام ڈی سی حضرات اپنی ر پوٹس ماہانہ بنیاد پر محکمہ داخلہ کو ارسال کرنے کے بھی پابند ہوں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ان تمام پروڈیوسروں کو پابندکرے جو سٹیج ڈرامہ بناتے ہیں کہ وہ ایسے ڈرامے تخلیق کریں جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں تاکہ معاشرے کو ایک مثبت سبق مل سکے۔ اگر ان ہدایات پر پوری ایمانداری کے ساتھ عمل کیا جائے، تو ہی لوگوں کو صحت مندانہ تفریح کے مواقع مل سکیں گے اور لوگ پہلے کی طرح اپنی فیملی کے ساتھ سٹیج ڈرامے کا رخ دوبارہ کر سکیں گے۔ سٹیج کی بہتری کےلئے بہترین رائٹرز اور ڈائریکٹرز کو واپس لانا ہو گا اور اس کےساتھ ساتھ فنکاروں کو بھی اسکرپٹ کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ جب یہ ساری چیزیں عملی طور پر ہونگی تو کوئی وجہ نہیں کہ ڈرامے ہٹ نہ ہوں۔ مانیٹرنگ کی سخت ضرورت ہے۔مانیٹرنگ نہ ہونے کی صورت میں سٹیج بھی فلم انڈسٹری کی طرح زوال کا شکار ہوجائے گا۔ حکومت کواس حوالے سے اپنی پالیسی واضح کرنے کی ضرورت ہے۔