• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں عام طور پر ذاتی قسم کاکالم لکھنے سے ’’پرہیز‘‘ کرتا ہوں لیکن کبھی کبھار ذاتی تجربات سیاسی صورتحال سے ہم آہنگ ہو جائیں تو لکھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔ کئی دن گزرے مجھے اپنے نہایت مخلص اورعزیز دوست ڈاکٹررشید سیال صاحب کا فون آیا۔ ڈاکٹر صاحب اگرچہ ماہر امراض قلب ہیں اور دلوں پہ نشتر چلاتے ہیں لیکن میں ان کو ایک روحانی شخصیت اورمخلص دوست کی حیثیت سے جانتاہوں۔ میں ملک سے باہر ہوں اس لئے سیاسی پیش رفت اور ہر لمحہ بدلتی سیاسی صورتحال سے آگاہ نہیں رہ سکتا۔ یوں بھی میں مارچ اپریل میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ وقت گزرنے کےساتھ ساتھ ہماری سیاست اصولوں کو ترک کرکے ذاتیات، نفرت، معاشرتی نفاق اور گروہی جھگڑوں کی سیاست کا روپ دھارلے گی اور سیاسی کارکنوں کی آپس میں لڑائیوں مار کٹائیوں کا باعث بنے گی۔ ایسی سیاست پہ کیا لکھنا جس کی بنیاد ہی نفرت اور انتقام پر ہو، جو اتحاد کے بجائے قومی انتشار کی پیامبر ہو اور جس میں مخالفین کی کردارکشی کے لئے گھٹیا وارداتیں کی جائیں۔ بہرحال نگرانوں کا ’’رولا‘‘ پڑنے سے پہلے ڈاکٹر صاحب کا فون آیا۔ انہوں نے خوشی سے مجھے مبارک باد دی، پتا چلا کہ گزشتہ بار کی مانند اب بھی جماعت اسلامی نے مجھے پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ کے لئے نامزد کیا ہے۔ میں نے ڈاکٹرصاحب سے عرض کیا کہ مبارکباد کا بہت شکریہ۔ مگر یہ بات ذہن میں رکھیں کہ یہ تجویز کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتی ۔ نہ عوام جماعت اسلامی کو ووٹ دیتے ہیں کیونکہ انہیں صادق و امین نمائندے قبول ہی نہیں اور نہ بڑے بڑے سیاسی لیڈران یا حکمران ان کی نامزدگی کو گھاس ڈالتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ میں جماعت اسلامی کی جانب سے نامزدگی کو ایک اعزاز سمجھتا ہوں اور ان کا ممنون ہوں۔ یہی نامزدگی اگر کسی اور جماعت کی طرف سے ہوتی تو مجھے اتنی خوشی نہ ہوتی جتنی جماعت کی نامزدگی سے ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا جواب میرے لئے مزید باعث تسکین تھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بھی علم ہے کہ تم نہ مسلم لیگ (ن) کو قبول ہو نہ تحریک ِ انصاف کو لیکن جماعت اسلامی کی نامزدگی یقیناً بہت بڑا اعزاز ہے اور تمہارے شفاف کردار پر مہر تصدیق ہے۔ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس میں نامزدگی پارٹی لیڈر نہیں کرتا بلکہ نامزدگی کئی مراحل طے کرتی اور چھلنی سے چھن کر اوپر آتی ہے۔ نیچے سے لے کر اوپر آنے تک امیدوار کی صلاحیت، اہلیت، کردار،شہرت وغیرہ ہر پہلو کی چھان بین کرکے نام منظور کیا جاتا ہے جبکہ دوسری پارٹیاں اپنے لیڈر کے حکم پر نامزد کرتی ہیں۔
چند دن گزر گئے تو لاہورسے بعض دوستوں نے ٹی وی کلپس، انگریزی اور اردو اخبارات کی خبریں بھیجیں جن کے مطابق مجھے تحریک ِ انصاف نے بھی طارق کھوسہ کے ساتھ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے نامزد کیا تھا۔ میرا جواب ایک ہی تھا کہ میڈیا کی خبروں پر بھروسہ نہ کریں۔ یہ اندازوں کے تیر ہوتے ہیں۔ پارٹی کے اعلان کا انتظار کریں اگرچہ اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ میاں برادران کسی صورت بھی میری نامزدگی کو منظو ر نہیں کریں گے۔ 2013میں یہ ہوچکا ہے جو ایک دلچسپ داستان ہے اورہمارے سیاسی لیڈروں کو تھوڑا سا ’’فاش‘‘ یعنی ایکسپوز کرتی ہے۔ اس کا ذکر بعد میں۔
پھرپتا چلا کہ تحریک ِ انصاف کی نامزدگی پر مسلم لیگ(ن) نے آصف کھوسہ کو نگراں وزیراعلیٰ بنانے کا اعلان کردیا ہے۔ تفصیلات سے قارئین آگاہ ہیں۔ اس لئے دہرانا بے سود۔ اس خبر پر ایک جرنلسٹ نے تبصرہ مانگا تو میں نے عرض کیا کہ تحریک ِ انصاف میاں شہباز شریف کی جادوگری سے مات کھا گئی ہے۔ میاں صاحب نے نہایت ہوشیاری سے تحریک ِ انصاف کو پہلے قدم پر شکست دے دی ہے۔ میں اس سے زیادہ تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ پھر خبر آئی کہ تحریک ِ انصاف کی آنکھیں اچانک کھلی ہیں اور اس نے یہ نامزدگی مسترد کردی ہے۔ یہ سطور لکھنے تک ’’رولا’’ جاری ہے اور لگتا ہے کہ بالآخر میاں شہباز شریف پہلا میچ جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو دوسرے اور اصل میچ میں فتح کا پیش خیمہ ہوگا۔ ہم اس کا عملی مظاہرہ 2013میں دیکھ چکے ہیں۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ نگرانی نری بدنامی ہے۔ اس بار 35نہیں تو 30پنکچروں کا الزام بہرحال لگے گا۔ آپ دیکھتے جائیں۔
2013میں میری نامزدگی کے حوالے سے کیا ہوا؟ یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ اچانک میرے بھتیجے کا فون آیا کہ تایا ٹی وی آن کریں۔ ٹی وی لگایا تو پیپلزپارٹی پنجاب کے لیڈر راجہ ریاض نظر آئے۔راجہ ریاض نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب کے لئے مشورہ کرنے منصورہ گئے تھے اور میٹنگ سے فارغ ہو کر منصورہ ہی میں میڈیا سے خطاب کر رہے تھے۔راجہ صاحب نے انکشاف کیا کہ جماعت اسلامی نے ڈاکٹر صفدر محموداور جسٹس اللہ یار کو نامزد کیا ہے۔ اب وہ دوسری جماعتوں سے مشاورت کریںگے۔ دو تین دن کے بعد خبر آئی کہ عوامی تحریک اور تحریک ِ انصاف نے بھی میری نامزدگی کی حمایت کردی ہے۔ پھر ایک دن پیپلز پارٹی کے ایک اہم اوربڑے لیڈر کا پیغام بذریعہ ایک دوست ملا کہ ہم پینل صدر زرداری صاحب کے سامنے رکھیں گے۔ ان کے فیصلے کے مطابق آگے بڑھیں گے۔ آپ صرف یہ یقین دہانی کردیں کہ نیوٹرل رہیںگے اور پی پی پی کے خلاف ہونے والی سازش کو ناکام بنادیں گے۔ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ انہیں یقین دلا دو کہ میں اپنے فرائض نہایت ایمانداری سے سرانجام دوں گا۔ ویسے میری نامزدگی کبھی بھی نتیجہ خیز نہیں ہوگی۔ میاں برادران کو میرا نام قبول نہیں ہوگا کیونکہ انہیں علم ہے کہ میں تابع فرمان قسم کا بندہ نہیں۔ پھر خبر آئی کہ زرداری صاحب نے میرے نام پر اعتراض نہیں کیا اور کہا ہے کہ ہمارا میاں نواز شریف صاحب سے معاہدہ ہے کہ ہم پنجاب میں دخل نہیں دیں گےاور وہ سندھ میں نہیں دیں گےچنانچہ اب آپ کا نام میاں صاحب کے سامنے رکھا جائے گا۔مجھے اس پر شدید حیرت ہوئی کہ زرداری صاحب نے میرے نام پر اعتراض نہیں کیا حالانکہ میں ان کے خلاف ببانگ دہل لکھا کرتاتھا۔ مختصر یہ کہ جب ایک سیاسی شخصیت منظوری کے لئے رائے ونڈ پہنچی تو میاں صاحب نے میرا نام پس پشت ڈال کر سابق جسٹس عامر اور خواجہ ظہیر کا نام دے دیا۔ شاید یہ دونوںنام زرداری صاحب کو پسند نہیںتھے اس لئے درمیان سے نجم سیٹھی صاحب نکل آئے۔ ان پر دونوں بڑی جماعتوں کااجماع ہوگیا۔ میرے لئے یہ بالکل حیرت کی بات نہیںتھی۔ حیرت تھی تو وہ پی پی پی کی منظوری پر جس کو میں ہمیشہ تنقید کا نشانہ بناتا رہا تھا۔ معاملہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا تو پی پی پی کے ایک اہم لیڈر نے مجھے ایک ایسا پیغام دیا جس نے مجھے ’’جھٹکا‘‘ بھی دیا اور شرمندہ بھی کر دیا۔ پیغام کچھ اس طرح تھا۔ زرداری صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے تو آپ کوبطور نگران وزیراعلیٰ قبول کرلیا تھا حالانکہ آپ ہمارے خلاف لکھتے رہتے ہیں لیکن انہوں نے آپ کو مسترد کردیا جن سے آپ کے دیرینہ تعلقات ہیں اور جن کی وجہ سے آپ زیرعتاب بھی آتے رہے ہیں۔ یہ پیغام سن کر میں نے دل میں سوچا کہ زرداری صاحب بھی ٹھیک کہتے ہیں لیکن میرے لئے کیا یہی کافی نہیں ہے کہ میرا ضمیر مطمئن ہے،ایمانداری سے نوکری کی ہے، حاکموںکا کبھی تابع مہمل یا خوشامدی حواری نہیں رہا نہ کسی سے دانستہ ناانصافی کی نہ کبھی انتقام کا خیال آیا۔ 39برس کی نوکری کے بعد نہ کسی حکمران نے توسیع دی نہ جاب۔ اللہ پاک کے فضل و کرم سے سکون قلب حاصل ہے اور یہ میرے رب کا انعام ہوتاہے۔ اطمینان کی نیند سوتا ہوں، اپنی مرضی سے زندگی گزارتا او ر آخرت کی تیاری میں مصروف رہتا ہوں۔ لوگ بڑا عہدہ، اقتدار، دولت، شہرت چاہتے ہیں، خوشی اور اہمیت کے لئے حالانکہ یہ خواہشات قلبی مسرت و آسودگی کی دشمن ہوتی ہیں۔ اب ان خواہشات کے غلاموں کا انجام دیکھتے جائو۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین