کراچی ( جنگ نیوز)پاکستان کے سابق وفاقی وزیر قانون اور آئینی ماہر ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو اگلے ماہ ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے کا سپریم کورٹ کا حکم بہت حد تک آئین سے ماورا ہے۔جمعے کو برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ انکے خیال میں سپریم کورٹ اور سوسائٹی کا ماحول بھی تبدیل ہو چکا ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ مختلف مسائل کے حل کیلئے سپریم کورٹ مداخلت کرے اور سپریم کورٹ کی مداخلت کو اب لوگ کسی حد تک تسلیم بھی کر رہے ہیں کہ وہ اس طرح کے احکامات جاری کرے۔سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وزیر قانون ایس ایم ظفر سے وزیر قانون تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سوسائٹی میں ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں جنکی وجہ سے عدالت عظمیٰ بھی اپنے اختیارت سے باہر جانے کی مجبوری ہو گئی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ سوسائٹی کا ماحول تبدیل کرنے میں میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور میڈیا کو قانونی معاملات کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے اور یہ معاملات عدالتوں میں ہی طے ہونے چاہیے۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ سابق فوجی صدر کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت کے معاملے پر حساس اداروں کا سپریم کورٹ پر کوئی دباو تو نہیں تھا، ایس ایم ظفر کا کہنا تھا کہ خلائی مخلوق یاکسی ادارے کی پشت پناہی کا بغیر ثبوت فراہم کیے ذکر کرنا ملک کو بدنام کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ نے انسانی حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے سابق فوجی صدر کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی ہو لیکن سپریم کورٹ کے اس اقدام سے وہ ماتحت عدالتیں متاثر نہیں ہوں گی جہاں پر پرویز مشرف کے خلاف مختلف مقدمات زیر سماعت ہیں۔ سابق فوجی صدر کے خلاف آئین شکنی اور سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے جیسے سنگین مقدمات کے باوجود اُنھیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت کے سوال پر ایس ایم ظفر کا کہنا تھا کہ عدالت کی طرف سے ان مقدمات میں ملزم کی پاکستان میں جائیداد کی ضبطگی کا عمل اس لیے ہوتا ہے تاکہ وہ ملزم کو مجبور کرے کہ وہ اپنے خلاف دائر مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے مختلف عدالتوں میں پیش ہوں۔ ایس ایم ظفر جو نگراں وفاقی وزیر قانون علی ظفر کے والد بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ اگر مختلف عدالتوں نے ملزم پرویز مشرف کی جائیداد کی قرقی کے احکامات بھی جاری کر رکھے ہیں تو یہ احکامات ملزم کے پیش ہونے کی صورت میں واپس بھی لیے جا سکتے ہیں۔ پاکستان آنے کی صورت میں سابق فوجی صدر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ عدالتیں بھی ایسا کر سکتی ہیں لیکن یہ اختیار نگران وفاقی حکومت کے پاس بھی یہ اختیار ہے کہ وہ ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل کر سکتی ہے۔