پبلو پکاسو نے کہا تھا ، ’’ ہر بچہ پیدائشی طور پر آرٹسٹ ہوتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ وہ بڑا ہونے تک کب تک آرٹسٹ رہتا ہے۔‘‘
پکاسو کی بات درست ہے، ہر انسان کے اندر ایک آرٹسٹ چھپا ہوتا ہے ، اب وہ کب تک اس فن کی آبیاری کرتاہے ،یہ سب اس کی پرورش، گھریلو ماحول اور درس و تدریس پر منحصر ہوتاہے ۔ اگر ایک بچہ اوائل عمری ہی سے اچھی مصوری کررہاہوتاہے تو والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ صلاحیت شوق سے آگے نہ بڑھے اور وہ دوسرے شعبہ جات میں دھیان لگائے جو ان کے مطابق بہتر ہوتے ہیں۔ ہاں، اگر والدین یا ان میں سے کوئی ایک خود آرٹسٹ ہے تو خواہش یہی ہوتی ہے کہ ان کابچہ بھی اسی پیشے میں نام روشن کرے۔
آج ہم زمانے کی روش دیکھیں تو ہر شعبہ زندگی کی طرح مصوری کا فن یا اس میں کمالِ فن حاصل کرنے کا جنون بھی نرم پڑتا جارہاہے۔ جہاںتک مصوری کی بات ہے تو نت نئی ٹیکنالوجی نے طلبہ کے ہاتھ سے برش اور رنگ چھین کر مائوس اور پیڈز پکڑادیے ہیں۔آج کے لحاظ سے یہ کوئی بری بات نہیں ہے، کیونکہ زمانے کے ساتھ ہمیں خود کو اپ ڈیٹ رکھنا پڑتاہے توایسے میں ان دونوں کا امتزاج زیادہ بہتر ثابت ہوتاہے۔ اگر صرف مصوری کی بات کی جائے تو یہ نہ صرف کسی قوم یا معاشرے کے لئے آئینہ کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر کسی قوم کی شناخت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ کہنا بھی بجا ہو گا کہ سماجی، ثقافتی، اقتصادی حالات کے مختلف ادوار اور تبدیلیوں کے اتار چڑھاؤ کو عیاں کرنے میں مصوری کے نمونے بے حد مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہر قوم اس شعبہ کے فروغ کےلئے کوشاں رہے۔ یوں بھی یہ عمل انسان کو ایک لطیف احساس دیتا ہے جو اسے تمام الجھنوں سے کچھ دیر کےلئے نجات دلاتا ہے۔ فن مصوری کی شروعات بنی نوع انسان کی پیدائش سے منسلک کی جاتی ہے۔
قدیم زمانہ میں پتھروں اور غاروں کے ادوار میں مصوری کسی حد تک ایک زبان کی حیثیت رکھتی تھی۔ انسان تصاویر کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔آہستہ آہستہ یہ فن منظر کشی کے ساتھ ساتھ احساسات کی ترجمانی کا ذریعہ بھی بن گیا۔ قدرت نے انسان کو بے پناہ تخلیقی صلاحیتیں عطا کی ہیں جن کا اظہار خواہ وہ شاعری میں کرے، موسیقی کو اپنائے ،عمارات کی ڈیزائننگ کرے یا پھر مصوری میں اپنے خیالات کو سموئے ،یہ سب اس کی اپنی پسند یا ناپسند پر منحصر ہے۔ بہر حال انسان کی دماغی قوت اسے تخلیقی کاموں کے لئے اکساتی رہتی ہے۔ اس سلسلہ میں اگر غور کیا جائے تو دنیا کے تمام عجائب گھر اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ مختلف ادوار میں لوگوں کے رہن سہن اور رسم و رواج کیا اور کیسے تھے۔ یہ سب اس لیے ممکن ہوا کہ مصور نے اپنی تخلیقی قوت، جو قدرت کی عطا کردہ تھی، کو بروئے کار لائے اور آنے والے زمانہ کے لئے اپنی مصوری ایک تاریخ کے طور پر چھوڑ گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جو تبدیلیاں آتی رہیں ان کواپنے اسلوب فن اور مہارت کے ساتھ کینوس پر اتارتے رہے۔ ان کایہ کام آج ہمارے لیے نئی راہیں تلاش کرنے میں مددگار ثابت ہو رہا ہےاور ضرورت اس امر کی ہے کہ معیار کی اس سطح کو بلند کیا جائے اور نئے زمانے کے مطابق ا س فن کو ڈھالا جائے ۔
پاکستان میں بہت سے نامور ادارے ہیں جہاں فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے، جہاں روایتی اور جدید طریقوں کے امتزاج سے طلباءکو تیار کیا جاتاہے ۔ فائن آرٹس کی تعلیم سے جہاں آپ کے اپنے ذوق کی تسکین ہوتی ہے، وہاںدنیا کو اپنے نئے رنگ اور مزاج سے روشناس کرواسکتے ہیں، آپ کو اپنے طرز زندگی کو بہتر بنانے کے بھی کئی مواقع میسر آ سکتے ہیں۔
فائن آرٹس ڈگری کے حامل افراد مصوری کرنے کے علاوہ ایگزیبیشن ڈیزائنر ، ایجوکیشن ٹیچر، مفسر، میوزیم /گیلری کیوریٹر، پرنٹ میکر یا سیکنڈری اسکول ٹیچر کی حیثیت سے اپنے فن کے جواہر دکھا سکتے ہیں۔اس کے علاوہ ان طلباء کے کیریئر کیلئے جو دروازے کھلے ہیں، ان میں آرٹ تھراپسٹ، آرٹس ایڈ منسٹریٹر، کمرشل آرٹ گیلری منیجر ، انٹیریرڈیزائنر ، میوزیم /گیلری ایگزیبیشن آفیسر ، ملٹی میڈیا پروگرامر اور اسٹائلسٹ شامل ہیں۔
اپنا سی وی بنانا آپ کو اسی وقت سے شروع کردینا چاہئے جب آپ گریجویشن کر رہے ہوں۔ اس میں وہ تما م آئیڈیاز اوران کی مثالیں موجود ہوں جو آپ کی کورس آئوٹ لائن سے ہٹ کر ہوں۔ مزیدیہ کہ اپنی پہچان بنانے کیلئے جتنا ممکن ہو ،زیادہ سے زیادہ نمائشوں اور مقابلوں میں حصہ لینا چاہئے ۔
مزید یہ کہ آپ کو اپنے حلقہ احباب سے تعلق بنا کررکھنا چاہیے جو آپ کے کیریئر یا ملازمت کے حصول میں آپ کیلئےمددگار ثابت ہوسکتاہے۔ دوست احباب کے لیے کئےگئے کام کو بھی اپنے پورٹ فولیو کا حصہ بنائیں۔ فلاح عامہ یا کمیونیٹی کیلئے کوئی قابل ذکر پروجیکٹ کرنے کی پیشکش ہوتو وہ آپ اپنے ادارے کی اجازت سے دوران تعلیم کرسکتے ہیں اور سمر کیمپس وغیر ہ میں بھی اپنی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔