چیف جسٹس صاحب کے ہسپتالوں کے دوروں اور از خود نوٹس لینے سے یہ بات تو اجاگر ہوتی ہے کہ اس ملک کو کیسے کیسے اندھیروں نے گھیر رکھا ہے۔ جہالت، گمراہی، رشوت ستانی، ذخیرہ اندوزی اور نامعلوم کیاکیا۔ باہر رہنے والے اس ملک کے بارے میں کیا پوچھتے ہیں ذرا اس نظم میں پڑھ لیں۔
’’اے دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی بجلی جاتی ہے
اور ساری رات جگاتی ہے
کیا اب بھی کلمہ پڑھتے ہیں
جب ویگن میں ہم چڑھتے ہیں
کیا اب بھی مسجد جاتے ہیں
تو ننگے پائوں آتے ہیں
کیا اب بھی بارش ہوتی ہے
تو بعد میں خارش ہوتی ہے
کیا اب بھی دام نہیں ہوتے
تو ہرگز کام نہیں ہوتے
کیا اب بھی پرچہ ہوتا ہے
تو کافی خرچہ ہوتا ہے
کیا اب بھی بھاگنا پڑتا ہے
جب پیچھے کتا پڑتا ہے
کیا پایا ہے کیا کھویا ہے
کیا اب بھی تھاں تھاں ٹویا ہے
اے دیس سے آنے والے بتا
یہ نظم جس میں روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے اکثر حالات کا ذکر ہے اس کا رونا تو ہر کوئی رورہا ہے۔ سوائے ہمارے حکمرانوں کے جن کی جیبیں بھاری ہوتی چلی جارہی ہیں، اگر کچھ لوگ اب بھی خواب غفلت کا شکار ہیں تو بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ کو یاد کرلیں کہ جن موصوف نے غلطی صرف یہ کی کہ اپنی جمع شدہ پونجی، رشوت اور بے ایمانی کے پیسوں سمیت، گھر میں چھپائی ہوئی تھی۔ وہ اس سے کوئی آف شور کمپنی بنالیتے تو کتنے سکھی رہتے۔ سیاسی پارٹیاں انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتیں۔ سرمایہ داروں میں ان کا شمار ہوتا۔ ملک کودیکھنے کا ایک اور انداز ان لوگوں کا ہے جنہوں نے خواہ مخواہ کی مذہبیت اپنے اوپر سوار کر رکھی ہے۔ انہیں ویسے تو شاید ہر چیز ٹھیک لگتی ہو لیکن ان کے اصل مسائل کچھ اس طرح کے ہیں۔ یہ سوالات انٹرنیٹ پر نظر آتے ہیں یا وہ ایسے سوالات مذہبی پروگراموں کے اینکروں سے پوچھتے ملتے ہیں۔ ’’میں ایک ایسے دفتر میں کام کرتا ہوں جہاں خواتین بھی کام کرتی ہیں۔ وہاں اکثر خواتین کا کوئی ٹوٹا ہوا بال گر کر کرسی یا صوفے پر نظر آجاتا ہے اگر ایسے کسی بال پر انجانے میں ہم بیٹھ جائیں تو کیا اس سے نکاح تو نہیں ٹوٹ جاتا؟‘‘۔
’’اکثر گھروں میں سبزیاں مکس کرکے پکائی جاتی ہیں مثلا آلو مٹر اور گاجریں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنے سے ہم ملاوٹ کے مرتکب تو نہیں قرار پاتے؟‘‘
’’میں نے اکثر سنا ہے کہ نماز کے لئے وضو اور شادی کے لئے نکاح شرط ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا ایسا کہناجائز ہے کیونکہ شرط تو مذہب میں حرام ہے؟‘‘
’’میرے موبائل میں اکثر دوست بیہودہ ویڈیویا تصاویر بھیج دیتے ہیں میں ایسی چیزیں فوراً ڈیلیٹ کردیتا ہوں لیکن دل مطمئن نہیں ہوتا۔ براہ کرم فرمایئے کہ ایسی صورت میں موبائل کو پاک کیسے کیا جائے؟‘‘ اگر ملک میں کرپشن، اقرباءپروری، رشوت اور مینجمنٹ کی ناقص کارکردگی ایک مسئلہ اور بڑا جرم ہے تو جس طرح کی غلط مذہبی سوچ پروان چڑھ رہی ہے یہ بھی جرم ہے۔ اس سے کند ذہنی پیدا ہورہی ہے۔ ایسی کند ذہنی جس سے لوگ اپنے آپ کو بہت قابل سمجھنے لگے ہیں کہ اب انہیں موبائل پر ایپ لوڈ کرنے اور استعمال کرنے آگئے ہیں لیکن اصل چیز یہ ہے کہ آپ ان کا استعمال کیسے کرتے ہیں؟
میں کئی بار گزارش کر چکا ہوں کہ ملک میں ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ہمہ جہتی سوچ آگے بڑھے اور اس کا فروغ ہو۔ تعلیم کے میدان میں ہم استدلالی نظام کو آگے بڑھائیں۔ جب نظام اس طرح ترتیب پاتے ہیں تو لندن میں ایک مسلم بس ڈرائیور کا بیٹا میئر بن جاتا ہے اور ہندوستان میں بھی مسلمان صدر بن سکتا ہے لیکن جب بھی ایسی سوچ کے خلاف ہو جائیں تو کالج اور یونیورسٹیاں صرف نام کی ڈگریاں بانٹ رہے ہیں جس سے فارغ التحصیل بچے ذہنی طور پر انتہائی کم صلاحیت کے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے ایک کرم فرما نے انپے ملک کو کچھ اس انداز سے دیکھا ہے۔
’’ایک پاکستانی نژاد مسلمان صادق لندن کے میئر کا انتخاب جیت جاتا ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا بلکہ اکثریت اسے قبول کر لیتی ہے۔ کیا کوئی برطانوی نژاد عیسائی بھی اسلام آباد کے میئر کا انتخاب لڑ سکتا ہے؟ ہندو اکثریت والے ملک میں کسی بھی مسلمان کو صدر کے انتخاب کا الیکشن لڑنے کی مکمل آزادی ہے جبکہ پاکستان کے آئین میں کوئی غیر مسلم صدر کے طور پر منتخب نہیں کیا جاسکتا۔ برطانیہ میں مذہبی اور نسلی تعصب نہیں ہے نہ ہی صنفی تعصب۔ اس لئے کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے مفکروں نے سیکولر ازم کوگالی سمجھ رکھا ہے اور اس کا انجام بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ نہ تعلیم ہے نہ ترقی، نہ تحقیق نہ جستجو اور نہ ہی کوئی ایجاد۔ نہ سوال ہے نہ استفسار، اگر جمود کی تشریح بتانی ہو تو پاکستانی معاشرہ اس کی بہترین مثال ہے‘‘۔
سیکولرازم کے حوالے سے میں نے ابھی ہندوستان کی مثال بھی دی ہے۔ کیا تعجب کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں مذہبی رہنما سیکولر ازم کے نام سے ہی چڑ کھاتے ہیں اور ہندوستان کے مسلمان مذہبی رہنما یہ درخواست کرتے نظر آتے ہیں کہ ہندوستان کے لئے بہترین نظام سیکولرازم ہے۔ اس لئے کہ اگر یہ نہ ہو تو مسلمانوں کے لئے بڑا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس ضمن میں دیوبند ہندوستان کے مقتدر علما ءکے بیانات پڑھے جاسکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)