تپتے ہوئے ریگستان میں جہاں لو کے تھپیڑے اہل قافلہ کے اوسان خطا کر رہے ہوں وہاں ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا لمحوں کیلئے مرجھائے چہروں پر بشاشت کی لہر دوڑا دیتا ہے۔ یہی صورت معیشت کے میدان میں اپنا جلوہ دکھاتی ہے کہ خیر کی کوئی معمولی سی خبر بھی مہنگائی اور تنگ حالی میں اطمینان و سکون کی مسیحا بن جاتی ہے۔ ملک میں شناختی کارڈ حاصل کرنا ہر فرد کیلئے ضروری ہے مگر اس کا حصول آسان نہیں۔ بوڑھے، کمزور اور بیمار شناختی کارڈ کے دفتر کے پھیرے لگاتے ہیں اور ناکام رہتے ہیں۔ البتہ ایجنٹ یا ملازم کی معقول خدمت کرنے سے یہ مشکل حل ہو جاتی ہے۔ اب حکومت نے یہ طے کیا ہے کہ شناختی کارڈ گھر پہنچا دیا جائے گا اور لانے والے کو دس، بیس روپے کا انعام دے کر خلاصی ہو جائے گی۔
دوسرا قدم پنشن کے طریقہ کار کی ادائیگی میں تبدیلی ہے۔ اب تک یہ ہوتا تھا کہ پنشنر کو بینک کا ایک فارم بھرنا پڑتا تھا اور ہر مہینے اپنی پنشن بک کے ساتھ بینک جا کر لائن میں کھڑا ہونا پڑتا تھا کافی وقفے کے بعد اس کا نمبر آتا تھا۔ بینکوں میں پنشنروں کیلئے کوئی خاص نشست گاہ نہیں ہوتی تھی اب یہ ہو گا کہ ابتدا میں اس کو ایک انڈیمنی (تلافی) فارم بھر کر اپنے بینک میں داخل کرنا ہو گا۔ اس میں پنشنر کا نام، ریٹائر ہونے کی تاریخ، پی پی او کا نمبر، بینک کا اکائونٹ نمبر، شناختی کارڈ کا نمبر اور دو گواہوں کے دستخط کرانا ہوں گے۔ براہ راست بینک میں پنشن داخل کرنے کا اختیاری فارم، اس میں پی پی او نمبر، ایس اے پی کا نمبر، اس اکائونٹ آفس کا نام جہاں سے ابتدا میں پی پی او جاری ہوا تھا، پنشنرز کا نام، ولدیت، زوجہ؍باپ اور ماں کا نام، پنشنر کے پرانے شناختی کارڈ کا نمبر، پنشنر کے موجودہ شناختی کارڈ کا نمبر، فیملی پنشنر کا نمبر، موجودہ رہائشی پتہ، مستقل رہائشی پتہ، ریٹائر ہونے کے وقت کا عہدہ اور گریڈ، متعلق وزارت؍ڈویژن؍ ڈپارٹمنٹ؍ آفس، نیشنل بینک کا موجودہ پتہ اور کوڈ، اقرار نامہ، پنشنر کے دستخط اور نشان انگشت کے ساتھ بینک برانچ کی اکائونٹ کی تصدیق۔
31؍مارچ 2016سے 17سے اوپر کے گریڈ کے تمام سرکاری وفاقی پنشنرز کی پنشن کی ادائیگی براہ راست ان کے بینک اکائونٹ میں ہو گی۔ پنشنرز پاکستان میں کسی بھی بینک کی برانچ میں اپنا اکائونٹ کھول سکتے ہیں چیک یا اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے بھی پنشن وصول کی جا سکتی ہے۔ یہ بڑا انقلابی قدم ہے اور اس کے ذریعے سے پنشنرز تمام جھنجٹوں سے بچ گئے ان کو گھر بیٹھے پنشن مل جایا کرے گی۔ حکومت کو ایک تاریخ مقرر کر دینا چاہئے تاکہ پنشنرز کو پتہ چل جائے کہ فلاں تاریخ پہ پنشن ان کے اکائونٹ میں جمع ہو گی۔ دوسرے جن لوگوں کی پنشن 50؍ہزار یا زیادہ ہو تو کیا ان کو پنشن نکلواتے وقت ود ہولڈنگ ٹیکس دینا پڑے گا؟
حکومت نے رضاکارانہ ٹیکس ادائیگی کی اسکیم شروع کی ہے۔ حکومت کا دعوی ہے کہ ٹیکس دہندگان نے اس کا استقبال کیا ہے اور تاجر اس ذیل میں اپنے آپ کو رجسٹر کرا رہے ہیں، رجسٹریشن کی آخری تاریخ 29؍فروری ہے۔ اس اسکیم کو کامیاب بنانے کیلئے ایف بی آر میں کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے اس کا مقصد تاجر برادری کو اس اسکیم کے خدوخال سے آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ اس میں زیادہ حصّہ لیں۔ سب سے اہم اور پیچیدہ مسئلہ پی آئی اے کی نج کاری کا تھا جس کی نج کاری 2015میں کرنے کا وعدہ آئی ایم ایف سے کیا گیا تھا، جب نج کاری کا اعلان ہوا تو پی آئی اے کے ملازمین نے احتجاج کیا۔ حکومت نے نج کاری کی مدت میں 6ماہ کا اضافہ کر دیا مگر احتجاج برقرار رہا اور نوبت ہرتال تک پہنچ گئی۔ پروازیں بند ہو گئیں۔ ایک احتجاجی جلوس میں گولی چل گئی اور پی آئی اے کے دو ملازمین شہید ہو گئے۔ ملازمین نے تحمل سے کام لیا اور کسی سخت ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ مذاکرات جاری رہے بلاخر مصالحت ہو گئی، ملازمین کی یونین کی بلاجواز ہرتال اور پروازوں کی بندش سے مسافروں کو جن مشکلات سے گزرنا پڑا اس پر معذرت کر لی اور یوں معاملہ بخوبی طے ہو گیا۔
حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا ہے کہ وہ 2016میں عوامی شعبے کی دس اکائیوں کی نج کاری کرے گا۔ ان میں اسٹیٹ لائف انشورنس کے 40-50فیصد حصّے، کاپ کو کے 25-40فیصد، پی آئی اے کے 26فیصد اور پیٹرولیم میں گورنمنٹ کے 18-39فیصد حصّے شامل ہیں۔ اسٹیل ملز کی فروخت ستمبر تک مکمل ہو گی، اسی طرح فیصل آباد الیکٹرک کمپنی کی فروخت بھی ستمبر تک ہو جائے گی، ناردن پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ اور جام شورو پاور جنریشن کمپنی کے کلیدی حصّے اور اثاثے دسمبر کے اختتام تک فروخت کر دیئے جائیں گے۔ مشن کے وفد کے سربراہ نے بتایا کہ حکومت یوبی ایل، پی پی ایل، اے بی ایل، ایچ بی ایل (ملک کے چار بڑے بینکوں) کی سودا کاری سے اور نیشنل پاور کنسٹرکشن کمپنی کی فروخت سے 1,715ارب ڈالر حاصل کر چکی ہے ( اس میں 1,124ارب ڈالر مبادلات خارجہ شامل ہیں) جس آسانی سے فنڈ نے یہ فیصلہ سنایا اسی آسانی سے نج کاری کا یہ عمل مکمل نہیں ہو گا۔ اداروں کے ملازمین کی طرف سے احتجاج ہو گا اب دیکھنا ہے کہ حکومت کس انداز سے معاملات حل کرتی ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ بھی آ گئی ہے اس نے گزشتہ ہفتے کو زری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے سود کی سالانہ شرح بدستور 6فیصد رکھی ہے۔ کاروباری افراد نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا۔ بینک کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں اہم معاشی اظہاریوں میں برتری کا سلسلہ جاری رہا مہنگائی کم ہوئی۔ معاشی ترقی کی شرح بڑھ گئی ہے۔ زیر گردش کرنسی میں اضافہ ہوا، بینک ڈیپازٹس میں کمی باعث تشویش ہے بڑے پیمانے کی اشیا سازی کے عمل میں تیزی آئی ہے۔ مالی استحکام کا عمل صحیح راہ پر گامزن ہے لیکن اس کو مستقل صورت فراہم کرنے کیلئے بہت کچھ کرنا ہو گا۔ بینک نے مالیاتی فنڈ سے مذاکرات کو تسلی بخش قرار دیا اور بیرونی بینکوں سے صوبوں کو ملنے والی رقوم کو بھی سراہا۔ بینک نے قومی بچت کی اسکیموں میں منافع پر کٹوتی پر خاموشی اختیار کی حالانکہ یہ پنشنروں اور بیوائوں کے حق میں ظلم ہے کہ ان کا گزارہ ان ہی منافعوں پر ہے۔ چھ ماہ پہلے ایک لاکھ روپے کی رقم پر 160روپے سالانہ ملتا تھا پھر 140ہوا اور 880روپے کر دیا گیا یعنی رقم آدھی کر دی گئی۔ اس کٹوتی سے بچت کی اسکیموں کو بھی خاصا نقصان ہو گا۔ عالمی بازار حصص کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اتار چڑھائو کے باوجود پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی بہتر رہی۔ پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر 5روپے فی لیٹر کمی کر دی گئی دوسری مصنوعات کی قیمت بھی کم کی، سندھ میں موٹر کاروں سے ہلاک ہونے والوں کے معاوضوں کی رقم بڑھا دی گئی یہ اب پنجاب کے برابر ہو گئی ہے۔ خیبر پختون خوا میں 115ملین پودے لگائے گئے، اگر ان کی بڑی تعداد بھی پنپ گئی تو صوبہ ’’شجرستان‘‘ ہو جائے گا۔ وزیراعظم نے پی آئی اے کے شہید ہونے والے ملازموں کے خاندانوں کو 25-25لاکھ اور زخمی ہونے والوں کو 5لاکھ کی رقم دینے کا اعلان کیا ہے۔