• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

چین کے اسکولوں میں چہرے کے تاثرات شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی

چین کے اسکولوں میں چہرے کے تاثرات  شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی

ہم اکثر کلاس روم میں دماغی طور پر غیر حاضر ہوتے ہیں۔ پڑھائی میں دل نہیں لگ رہا ہوتا ،ٹیچر جو سمجھاتے ہیں وہ سمجھ نہیں آرہا ہوتا لیکن کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ آیا ہم لیکچر دھیان سے سن رہے ہیں یا سو رہے ہیں۔ اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے چین نے ٹیکنالوجی کا سہارا لینا شروع کیا اورچینی اساتذہ نے طلباء کے تاثرات کو پڑھنے کیلئے نت نئے اقدامات کیے ہیں۔

حال ہی میں بانگژو چین کے نمبر گیارہ مڈل اسکو ل میں چہرہ شناس (Facial Recognition)ٹیکنالوجی پر مشتمل ’ اسمارٹ کلاس روم بیہویئر مینجمنٹ سسٹم‘ (Smart Classroom Behavior Management System)انسٹال کیا گیا ہے ۔ یہ سسٹم تین ہائی ٹیک کیمروں پر مشتمل ہے جو کلاس روم کے بلیک یا وائٹ بورڈ کے اوپر نصب کیے گئے ہیں۔یہ کلاس میں موجود طلباء کے چہروں کے تاثرات ریکارڈ کرکے مصنوعی ذہانت پر مبنی سافٹ ویئر میں تجزیے کے لیے بھیجتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کا یہ سوفٹ ویئر تجزیہ کرکے پتہ چلاتاہے کہ آیا طلباء اپنی پڑھائی کی طرف متوجہ ہیں یا ادھر ادھر دیکھنے میں مصروف ہیں۔

ہر30سیکنڈ کے بعدریکارڈ ہونے والے چہرے کے تاثرات کاتجزیہ کرنے سے مصنوعی ذہانت یہ اندازہ لگا سکتی ہے کہ طلباء نارمل ، پرجوش، خوش ، اداس، ناامید، پریشان ، خوف زدہ یا حیرت زدہ ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی طالبعلم توجہ دینے سے قاصر ہے تو فوراً استاد کو ایک نوٹیفیکیشن بھیج دیا جائے گا اور استاد اس طالبعلم کے خلاف ایکشن لے سکے گا۔

یہ مانیٹرنگ سسٹم ٹیچرز کی کارکردگی کا بھی جائزہ لینے میں مدد کرے گا اورساتھ ہی طلباء کی حاضری لگانے میںبھی کام آئے گا کیونکہ یہ طلباء کو پہچان کر ان کی حاضری کا ریکارڈ رکھے گا۔ یہ سسٹم اتنا کارگر ہے کہ یہ طلباء کے لکھنے ، پڑھنے یا سننے کو بھی پہچان سکتاہے۔ اگرچہ یہ سسٹم صرف بانگژو کے اسکول میں نصب کیا گیا ہے تاہم مثبت نتائج اور کارکردگی کو دیکھ کر اسے چین کے دیگر اسکولوں میں بھی نصب کیا جاسکتا ہے۔ اس سسٹم کے بارے میں ایک ٹیچر کا کہنا ہے کہ اس کاواحد مقصد دوران ِ تعلیم طلباء کی توجہ پڑھائی پر مرکوز رکھنا ہے، نیز یہ کہ طلباءہائی ٹیک کیمروں کی موجودگی میں خوف کھارہے ہیں کیونکہ اب ان کی حرکات اور چہرے کے تاثرات کیمرے کی نگاہ سے چھپے نہیں رہیں گے ۔ اسی وجہ سے کچھ طلباء کے پڑھائی کے رویّوں میں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔

چین کے اسکولوں میں چہرے کے تاثرات  شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی

اس کا مطلب ہے کہ اب طلباء کو صرف ٹیچر کو ہی دھیان میں نہیں رکھنا بلکہ نگرانی کرنے والے ان کیمروں کو بھی دیکھنا ہو گا جو ان کی حرکات وسکنات کو ریکارڈ کررہے ہوں گے اور شاید یہ طلباء کے لیےدبائو کا باعث بھی بن جائیں ۔

حاضری لگانے اور کلاس روم میں تاثرات ریکارڈ کرنے کے علاوہ یہ سسٹم اس وقت بھی تاثرات کو پڑھے گا جب طلباءکینٹین میں کیے جانے والے لنچ کی ادائیگی کریں گے یا لائبریری سے کتابیں مستعارلیں گے۔

اسکول کے وائس پرنسپل کا کہنا ہے کہ طلباء کی پرائیویسی محفوظ ہے اور یہ ٹیکنالوجی کلاس روم کی لی گئی تصاویر کو محفوظ نہیں کرتی ، یہ کلائوڈ کے بجائے صرف لوکل سرور پر ڈیٹا اسٹور کرتی ہے ۔

چین کی بات کی جائے تو وہاں سرویلنس سسٹم نے اس وقت مقبولیت حاصل کی جب کنڈرگارٹن اسکولوں میں بچوں کے لڑائی جھگڑےاور پرتشدد واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ بیجنگ میں اب ہر کنڈر گارٹن اسکول میں سرویلنس کیمرے نصب ہیں او ر ان میں سے کچھ تو براہ راست مقامی پولیس کے مانیٹرنگ سسٹم سے جڑے ہوئے ہیں۔

صرف چین ہی وہ ملک نہیں ہے جو اسکولوںمیں سرویلنس سسٹم متعارف کروارہا ہے بلکہ کچھ عرصے پہلے بھارتی دارالحکومت دہلی میں بھی تمام سرکاری اسکولوںمیں سرویلنس کیمرے لگانے کی خبریں گردش میں تھیں ، جس کے ذریعے والدین کو بھی کلاس روم کی اصل فوٹیج دیکھنے کی اجازت ہوگی۔

تازہ ترین
تازہ ترین