• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کروڑوں دلوں کی دھڑکن ’’لیڈی ڈیانا‘‘

بچپن میں سنی کہانیوں میں جب کسی خوبصورت پریوں جیسی شہزادی کا ذکر آتا ،جس کا دل اس کے چہرے سے بھی زیادہ صاف شفاف اور انسانیت سے معمور ہوتاتو ہماراپہلامعصومانہ سوال یہ ہوتاتھاکہ یہ شہزادی دیکھنے میں کیسے ہوگی ؟اس سوال کا جواب حقیقت میں تب ملا جب پہلی بار برطانیہ کی خوبصورت ترین شہزادی ’’ لیڈی ڈیانا،، کو دیکھا۔حسن و جمال کے بے پناہ خزانوں کی مالک،دلوں کی ملکہ ،انتہائی جاذب نظر،انسان دوست ،مقبول اور بہادر لیڈی ڈیانا سے کون واقف نہیں جووفات کے بعدآج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ برطانیہ کے اسپنسر خاندان کی معصوم اور بھولی صورت والی یہ پریوں جیسی لڑکی کروڑوں افراد کے دلوں کی شہزادی بنے گی، شاید ہی کسی نے کبھی سوچا ہوگا۔

ڈیانا 1 جولائی 1961ء کو برطانیہ کے شہر سینڈرنگھم میں جان اسپنسر کے گھر پیدا ہوئی۔ڈیانا کا پورا نام’’ ڈیانا فرانسز اسپنسر،،تھا اور وہ اپنے والدین کی تیسری اولاد تھیں ۔انھوں نےبرطانیہ اور سوئٹزرلینڈ سے تعلیم حاصل کی لیکن ڈیانا کوشروع سے ہی تعلیم سے زیادہ فلاحی کاموں میں دلچسپی تھی اور یہی وہ دلچسپی تھی جس کی وجہ سے وفات کے بعد آج بھی ڈیانا کروڑوں دلوں پر راج کرتی ہیں ۔برطانوی شہزادی ڈیانا کو پیانو بجانے ، سوئمنگ اور بیلے ڈانسنگ کا جنون تھا ۔

ڈیانا کا تعلق اعلیٰ خاندان سے تھا ،وہ علاقے کے آٹھویں ارل اسپنسر کی بیٹی تھی یا یوں کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا کہ ان کا گھرانا برطانیہ کے شاہی خاندان ہی کی ایک شاخ تھا تاہم ان میں بے جا فخر وناز کا شائبہ تک نہ تھا جوکہ ان کی عظمت کی واضح دلیل ہے۔ شادی سے پہلے ڈیانا اپنے تمام حسن وجمال اور اعلیٰ شخصیت کے باوجود ایک گمنام ہستی تھیں تاہم 1981کو برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس سے شادی ڈیانا کی مقبولیت کی وجہ بن گئی۔

لیڈی ڈیانااور پرنس چارلس کی ملاقات کا سلسلہ ملکہ الزبتھ کی ملکیت ’’پارک ہاؤس،، نامی گھر میں ہوا جو ڈیاناکے والد نےکرائے پر لیا تھا ۔پارک ہاؤس نامی گھر میں ڈیانا اور ان کی بہن سارہ کا بچپن ،پرنس اینڈریو اور پرنس ایڈورڈ کے ساتھ کھیل کود میں گزرا،دیکھتے ہی دیکھتے یہ معصوم شہزادی پرنس چارلس کو اتنی بھائی کہ وہ پرنس چارلس کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں ۔

فروری 1981ء میں پرنس آف ویلز اور ملکہ الزبتھ کے بڑے بیٹے پرنس چارلس کے ساتھ لیڈی ڈیانا کی منگنی کا اعلان کیا گیا۔ اور پانچ مہینے بعد یہ شادی 29 جولائی 1981کو سینٹ ہال کیتھیڈرل میں انجام پائی، ان کی شادی کو کہیں فیری ٹیل میرج،تو کہیں صدی کی شادی قرار دیا گیا۔پرنس چارلس اور لیڈی ڈیانا کی شادی کو دنیا بھر کے زرائع ابلاغ نے کوریج دی اور کروڑوں لوگوں نے اسے ٹیلی ویژن پر دیکھا۔

شادی کے وقت پرنس چارلس اور لیڈی ڈیانا کی عمر میں خاصا فرق تھا ،ڈیانا کی عمر 21سال اورپرنس چارلس کی عمر40سال کے لگ بھگ تھی۔ عمر کایہ فرق ان کی سوچ میں بھی ظاہر ہوا۔ دو بچوں کی پیدائش کے بعدپرنس چارلس کے کیمیلا سے عشق اور سرد رویے سے لیڈی ڈیانا کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی اور دونوں کے رشتے میں اختلافات پیدا ہونے لگے ۔ اور پھر ایک دن وہ بھی آیا جب 1992 میں ان کے درمیان علیحدگی ہوئی اور بعد ازاں اگست 1996 میں طلاق ہوئی۔

پرنس چارلس سے علیحدگی کے بعد بھی ڈیانا کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی جس کی اصل وجہ ڈیاناکے فلاحی کام تھے، جنھوں نے مرنے کے بعد ڈیانا کو ایک دیومالائی کردار کے طور پر زندہ رکھا۔

لیڈی ڈیانا کے فلاحی کام

لیڈی ڈیانا نے شادی کے فوراً بعد امدادی اور فلاحی کاموں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا جس کا سلسلہ پرنس چارلس سے علیحدگی کے بعد بھی جاری رہا۔

٭ڈیانا نےشاہی خاندان کا فرد ہونے کے ناطے فلاحی کاموں کا آغاز کرکےایک منفرد کردار نبھایا، اپنے ایک انٹرویو میں ڈیانا کا کہنا تھا کہ میں ایک ایسا نظام چاہتی ہوں جہاں عوام سےمیرا رابطہ زیادہ سے زیادہ ہو۔

٭بےگھر افراد، بے سہارا بچے، نشے کا شکار افراد اور ایچ آئی وی(ایڈز) میں مبتلا افراد کے لیے انھوں نےیادگارخدمات انجام دیں۔ ڈیانا وہ پہلی اور منفرد شخصیت تھیں جنھوں نے اتنا اعلیٰ مقام رکھنے کے باوجود ایڈز کے مریضوں سے ہاتھ ملا کر دنیا کوورطہ حیرت میں ڈالااور انھیں اپنے خیالات بدلنے پر مجبور کردیا۔

٭ڈیانا کے نمایاں ترین فلاحی کاموں میں ایڈز کے خلاف مہم کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر بارودی سرنگوں پر پابندی کی مہم کو فوقیت دینا تھا ۔اس کا مقصد دنیا کو ایک مہلک بیماری اور خود کردہ تباہی کے اثرات سے آگاہی دینا تھا۔ان بارودی سرنگوں کا نشانہ خاص طور پر جنگ زدہ علاقوں کے بچے تھےچنانچہ اس پابندی کے لیے لیڈی ڈیانا کی مہم اور اوٹاوا معاہدہ ان کے فلاحی کام کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

٭ڈیانا نے بوسنیا اورہرزگوینیاکا بھی دورہ کیا اور بے گھر افراد کی مدد کے طور پر لندن میں سینٹر پوائنٹ قائم کیا ۔

٭ڈیانا نے اپنی موت سے پہلے تک جذام کے مریضوں کے لیے کام کیا، انھوں نے دنیا کو بتا یا کہ یہ وہ بیماریاں ہیں جو چھونے سے نہیں پھیلتیں۔ان امراض سے متعلق ڈیانا نے نیپال ،زمبابوے اور بھارت کا دورہ کیا اور لوگوں میں ان امراض سے متعلق آگاہی فراہم کی ۔

٭لیڈی ڈیانا کی موت کے بعد ان کے گھر کو بھی ان کے مداحوں کے لیے کھول دیاگیا جہاںایک ہفتے قیام کی قیمت 175 ہزار پونڈ مقرر کی گئی ہے ۔اس گھر سے حاصل ہونے والی رقم بھی لیڈی ڈیانا کے فلاحی ادارے کو دی جاتی ہے، جو دنیا بھر میں بچوں کی فلاح و بہبود اور تعلیم کے لیے اقدامات کررہا ہے۔

٭لیڈی ڈیانا نے 1995ء اور 1997ء میں عمران خان اور ان کی سابق اہلیہ جمائما خان کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کیااور شوکت خانم اسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ میں بھی حصہ لیا۔

ڈیانا31اگست1997کوپیرس میں ایک کار حادثے کے نتیجے میں دنیا سے چل بسیں تاہم انکی پُرکشش شخصیت اور فلاحی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائینگی۔

تازہ ترین