پاکستان کی اولین فلم ’’تیری یاد‘‘ 1948ء عیدالفطر کے دن ریلیز ہوئی تھی، اس مسرت بھری ساعتوں سے وطن عزیز کی فلمی صنعت نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ برِصغیر پاک و ہند میں عیدین اور دیگر تہواروں پر عوام الناس فلم کے ذریعے تفریح حاصل کرنے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ ان تہواروں پر سنیما ہائوسز کو نئی فلموں کے لیے خُوب سجایا جاتا ہے، ان کی تزئین و آرائش کا خاص طور پر اہتمام کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں عیدالفطر کے موقع پر اب تک بے شمار فلمی دنگل ہوئے ہیں۔ اس عید پر بھی فلم وجود، سات دِن محبت اِن، آزادی، نہ بینڈ نہ باراتی کے درمیان زبردست دنگل ہونے کی توقع ہے۔ ماضی میں اس موقع پر ریلیز ہونے والی فلموں میں یہ مقابلہ بازی دیکھنے کے قابل ہوا کرتی تھی ۔ آج ہم اس حوالے سے ریلیز شدہ یادگار فلموں کی یادوں کو تازہ کریں گے۔
اس سلسلے کی پہلی بلاک بسٹر فلم’’پھیرے‘‘ تھی، اسے اولین پنجابی فلم کا اعزاز بھی حاصل ہے، جو بروز بدھ 27؍ جولائی 1949ء کو لاہور کے پیلس سنیما میں ریلیز ہوئی اور وہاں مسلسل 25؍ ہفتے کا ریکارڈ بزنس کرکے سولو سلور جوبلی قرار پائی۔ یہ وہ دور تھا، جب پاکستانی فلمی صنعت اپنے ابتدائی دور سے گزر رہی تھی، نئی فلم صرف کسی ایک ہی سنیما پر پیش کی جاتی تھی۔ اس فلم کی کہانی ہندو معاشرے اور رسومات سے متعلق تھی۔ اداکار نذیر نے اس فلم میں ہیرو کا کردار کیا ،جب کہ ہیروئن سورن لتا، دیگر کاسٹ میں علاء الدین، نذر، مایادیوی، زینت، ایم اسماعیل، وغیرہ کے نام شامل تھے۔ ہدایت کار مجید جو کہ سینئر اداکار بھی تھے، ان کا نام نذیر نے ٹائٹل پر دیا تھا، جب کہ فلم ساز و نگراں ہدایت کار کے طور پر نذیر کا نام شامل تھا۔ یہ فلم خاص طور پر اپنے سپر ہٹ نغمات کی وجہ سے بے حد پسند کی گئی۔ موسیقار بابا چشتی نے لازوال دھنوں کو ترتیب دے کر اس فلم کی کام یابی کو یقیناً بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس فلم کی تمام دھنیں انہوں نے ماچس کی ڈبیہ پر صرف ایک ہی دن میں مرتب کرکے ایک ایسا ریکارڈ قائم کیا، جو آج بھی سُرسنگیت کی دنیا میں قائم ہے، خاص طور پر فلم کے چند نغمات آج بھی سدابہار ہیں، جن میں ’’اکھیاں لاویں نہ فیر پچھتاویں ناں‘‘، ’’مینوں رب دی سو تیرے نا پیار ہوگیا وے چناں سچی مچی‘‘ آج بھی یہ گیت ماضی کی طرح تازہ ہیں۔
بروز پیر 23؍ مئی 1955ء کو منائی جانے والی عیدالفطر پر پانچ فلمیں پہلی بار ایک ساتھ ریلیز ہوئیں، ان فلموں میں فلم ساز و ہدایت کار عطاء اللہ شاہ ہاشمی کی ’’نوکر‘‘ نے پورے ملک میں بزنس کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ کراچی کے ایروز سنیما میں یہ فلم مسلسل 53؍ ہفتے چل کر پہلی سولو گولڈن جوبلی کے اعزاز سے ہم کنار ہوئی۔ لاہور کے پلازہ سنیما پر بھی اس فلم نے گولڈن جوبلی منائی۔ اس فلم میں سورن لتا اور نذیر نے اپنے فنی کیریئر کے یادگار کردار کیے۔ خاص طور پر اس فلم کو خواتین نے بے حد پسند کیا۔ فلم کی شہرہ آفاق لوری ’’راج دلارے میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جائوں‘‘ کو خواتین نے بے حد پسند کیا۔ یہ لوری ہر گھر سے ہر ماں کی مامتا بن کر سنائی دی جانے لگی۔
عیدالفطر پر فلمی مقابلے ہوتے رہے، پھر ایک اور یادگار عید ہفتہ 20نومبر 1971ء کو منائی گئی، جس میں فلم بینوں کے لیے کل آٹھ فلمیں ریلیز ہوئیں۔ اس عید پر ہدایت کار حسن طارق کی معاشرتی نغماتی فلم ’’تہذیب‘‘بلاک بسٹر ثابت ہوئی، یہ فلم کراچی کے ریوالی اور لاہور کے میٹروپول کی خوب صورت اسکرین کی زینت بنی۔ اداکارہ رانی اور صبیحہ خانم نے اس فلم میں اپنی ناقابل فراموش اداکاری سے فلم کو یادگار بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اداکار شاہد کی بہ طور ہیرو ریلیز ہونے والی یہ پہلی فلم تھی، جس میں ان کی کردار نگاری کا جواب نہ تھا۔ فلم کی دیگر کاسٹ میں عالیہ، زاہد خان، اسلم پرویز، لہری، رنگیلا، تمنا، ناصرہ، زمرد، الیاس کاشمیری کے نام شامل تھے۔ فلم کے موسیقار نثار بزمی تھے ، جن کی مقبول دُھنوں نے اس فلم میں چار چاند لگادیے تھے۔ فلم کے مقبول ترین نغمات میں ’’لگا ہے حُسن کا بازار دیکھو‘‘، ’’او مائی ڈارلنگ‘‘ اور ’’کیسا جادوگر دلبر مستانہ‘‘ کی مقبولیت نے ہر طرف دُھوم مچادی تھی۔ 28؍ اکتوبر 1973ء کو عیدالفطر پر پانچ فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میں فلم ساز و ہدایت کار شباب کیرانوی کی گھریلو نغماتی اصلاحی فلم ’’دامن اور چنگاری‘‘ کا بزنس سب سے آگے رہا، یہ فلم کراچی کے گوڈین اور لاہور کے نغمہ سنیما میں پیش کی گئی۔ زیبا، محمد علی اور ندیم فلم کے مرکزی کرداروں میں تھے، جب کہ اداکارہ عالیہ نے اپنی فنی زندگی کا ناقابل فراموش کردارا دا کرکے فلم بینوں سے خوب داد پائی ۔ فلم کے دیگر اداکاروں میں منور ظریف زرقا، علاء الدین، فرزانہ، خالد سلیم موٹا، چکرم، مینا دائود، اسلم پرویز کے نام شامل تھے، ایم اشرف کی موسیقی نے اس فلم میں سپرہٹ نغمات دیے، جن میں ’’دیس پرائے جانے والے‘‘، ’’ یہ وعدہ کرو کہ محبت کریں گے‘‘، ’’ایک ہاتھ پر سورج رکھ لو‘‘، ’’اصلی چہرے پر ہم نے بھی نقلی چہرہ سجالیا‘‘، ’’سہیلی تیرا بانکپن لٹ گیا‘‘ اور ’’ہمارے دل سے مت کھیلو کھلونا ٹوٹ جائے گا‘‘ یہ گیت اس یادگار عید پر پورے ملک میں گونج رہے تھے، جن کی باز گشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔
اتوار 26؍ ستمبر 1976ء کو عیدالفطر کےموقع پر سات فلمیں ریلیز ہوئیں، اس عید دنگل میں ہدایت کار اقبال یوسف کی سپر ایکشن فلم ’’ان داتا‘‘ نے بزنس کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ سینئر اداکار سدھیر نے اس فلم میں ٹائٹل رول میں لاجواب کردار نگاری کی، جب کہ ممتاز اور محمد علی اس فلم کے مرکزی کرداروں میں تھے۔ پنجابی فلموں کے سپرہٹ اداکار سلطان راہی نے اس اردو فلم میں اپنی عمدہ کردار نگاری سے خوب داد پائی، کمال احمد کی عمدہ موسیقی، ایم حسین کی اعلیٰ فوٹوگرافی، ممتاز کے دل کش رقص اس فلم کی ہائی لائٹ تھے۔
5؍ ستمبر بروز منگل 1978ء کو عیدالفطر پر دس نئی فلمیں پیش کی گئیں۔عید پر لگنے والے اس فلمی میلے میں اداکارہ اور ہدایت کارہ شمیم آرا کی گھریلو نغماتی فلم ’’پلے بوائے‘‘ نے بزنس میں نمبر ون پوزیشن حاصل کی۔ کراچی کے افشاں اور لاہور کے میٹروپول سنیما میں اس فلم نے کئی ہفتے رش کے ساتھ اپنی نمائش کو برقرار رکھا ۔ لیجنڈ فلم اسٹار ندیم نے پلے بوائے کے کھلنڈرے کردار میں حقیقت کی بھرپور عکاسی کی ، جب کہ وراسٹائل سپر اسٹار بابرہ شریف نے ایک مشرقی لڑکی کے کردار کو خوب نبھایا جو اپنے خاوند کو مغربی تہذیب سے نکالنے کے لیے لندن جاتی ہے۔ ایم اشرف کی مسحور کن موسیقی کا جادو سرچڑھ کر بولا، خاص طور پر فلم کا یہ نغمہ ’’تیرا میرا کوئی نہ کوئی ناطہ ہے ورنہ کون کسی کے پیچھے آتا ہے‘‘
اتوار 2؍ اگست 1981ء عیدالفطر کا یہ فلمی دنگل نو فلموں کے درمیان ہوا، جن میں سب سے ٹاپ بزنس ہدایت کار الطاف حسین کی فلم ’’سالا صاحب‘‘ نے کیا۔ یہ فلم لاہور کے میٹروپول سنیما پر دو سال سے زائد عرصے مسلسل نمائش پذیر رہی، اسی عید پر شیر خان اور چن وریام کا بزنس بھی غیر معمولی رہا۔ ’’سالا صاحب‘‘ کا ٹائٹل اداکار ننھا نے نہایت عمدگی اور بے ساختگی کے ساتھ کرکےفلم بینوں سے خوب داد پائی۔ اردو اور پنجابی فلموں کی سپر اسٹار ممتاز نے ہیروئن کے کردار میں بے مثال کردار نگاری پیش کی۔ علی اعجاز نے ہیرو کے کردار کو بڑی خوبی سے نبھایا، جب کہ اداکارہ انجمن نے طوائف اور سلطان راہی نے بدمعاش کے کرداروں میں جاندار کردار نگاری کا مظاہرہ کیا۔ رنگیلا کی مزاحیہ اداکاری اور مکالمے اس فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوئے۔ موسیقار وجاہت عطرے کی موسیقی میں اس فلم کی کام یابی میں نمایاں رہی۔ فلم کے چند مقبول گانوں میں ’’میں تے میرا دلبر جانی‘‘، ’’وے ایک تیرا پیار مینوں ملیا‘‘، ’’پہلا سلام کراں تینوں مہرباناں‘‘ کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔1985ء عیدالفطر پر 13؍ فلمیں ریلیز ہوئیں۔ یہ عید 20؍ جون کو منائی گئی، جس میں فلم ساز ہدایت کار جان محمد بلاک بسٹر ایکشن فلم ’’ہانگ کانگ کے شعلے‘‘ کا بزنس تمام فلموں سے آگے رہا، یہ فلم کراچی کے پلازہ اور لاہور کے رتن سنیما میں فلم بینوں کے لیے کئی ماہ تک توجہ کا مرکز بنی رہی۔ بابرہ شریف اور جاوید شیخ نے اس فلم میں یادگار کردار ادا کیے، جن میں ان کی اداکاری قابل تعریف تھی۔ ایم اشرف کی موسیقی اس معرکے کے حوالے سے بے حد دل کش رہی، گلوکار محمد علی شہکی کی آواز میں گایا ہوا یہ گیت ’’لیلیٰ اور لیلٰی، اس فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوا۔2000ء جمعرات 28؍ دسمبر کو عیدالفطر منائی گئی۔ اس عید پر آٹھ فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میں ایورنیو پکچرز کی فلم ’’تیرے پیار میں‘‘بلاک بسٹر ثابت ہوئی۔ اس فلم کے ہدایت کار حسن عسکری تھے، جب کہ اداکار شان اور زارا شیخ نے مرکزی رول پلے کیے، امجد بوبی کی موسیقی نے ایک بار پھر 70ء کی دھائی کے نغمات کی یاد تازہ کرادی۔
18؍ جولائی 2015ء کو عیدالفطر کے موقع پرریلیز ہونے والی تمام فلموں میں اداکار و ہدایت کار یاسر نواز کی ’’رانگ نمبر‘‘ نے بجرنگی بھائی جان، جیسی بھارتی بلاک بسٹر فلم کے مقابلے میں غیر معمولی بزنس کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ اس فلم میں موجودہ دور کے معروف سینئر اداکار جاوید شیخ نے حاجی ابا کا یادگار کردار نہایت عمدگی سے ادا کرکے فلم بینوں سے خُوب داد پائی۔دانش تیمور اور سوہائے علی ابڑو کی جوڑی کو بے حد پسند کیا گیا۔