• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
استنبول....مشرق و مغرب کا حَسین امتزاج

وسیم اختر، مظفر آباد، آزاد کشمیر

عمرے کی ادائیگی کی سعادت کے بعد ہماری اگلی منزل، عظیم سلطنتِ عثمانیہ کی پہچان، ترکی تھا۔ جدّہ سے بذریعہ ترکش ائرلائنز روانہ ہوئے، تو ساڑھے تین گھنٹے بعد ہی استنبول کے اتاترک ائرپورٹ پر یخ بستہ ہوائوں نے استقبال کیا۔ ائرپورٹ سے نکلتے ہی سب سے پہلے استنبول کارڈ حاصل کیا۔ مذکورہ کارڈ شہر بھر میں سفر کے مختلف ذرایع مثلاً ٹرام، میٹروٹرین، بس اوربحری کشتی (Sea Boat) کے لیے درکار ہوتا ہے۔ کارڈ کے حصول کے بعد پہلےمیٹرو زینٹی برونوا اسٹیشن پہنچے، پھر وہاں سے بذریعہ ٹیکسی پرانے شہر میں واقع مشہور سلطان احمد اسکوائر کا رخ کیا، جہاں قریب ہی ایک ہوٹل میں ہمارا قیام و طعام تھا۔ ہوٹل پہنچ کرتازہ دَم ہونے کے بعد سب سے پہلے ’’مسجد سلطان احمد‘‘ المعروف ’’Blue Mosque‘‘ کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے۔ اس قدیم نیلی مسجد میں نماز و نوافل کی ادائیگی سعادت سمجھی جاتی ہے۔ عالمِ اسلام کی حسین ترین مساجد میں شمار ہونے والی ’’نیلی مسجد‘‘ کی شان و شوکت دیدنی ہے۔ استنبول کی شناخت بھی یہی مسجد ہے۔ چھے میناروں والی اس خوب صورت و دل کش نیلی مسجد کو اس وقت کے بادشاہ، سلطان احمد نے 1617ء میں تعمیر کروایا تھا۔ اس کے ہر مینار کی لمبائی 152فٹ ہے، جب کہ گنبد کے بیچوں بیچ فرش سے دس فٹ کی اونچائی پر ایک شان دار فانوس نصب ہے۔ چار دائروں پر مشتمل اس فانوس میں تقریباً600بلب چہار اطراف روشنی بکھیرتے ہیں۔ فرش پر انتہائی قیمتی اور دبیز قالین بچھے ہیں۔ ایوانِ مسجد کی ٹائلز پر قرآنی آیات اور اسمائے باری تعالیٰ کی نیلے رنگ سے گل کاری کے باعث یہ نیلی مسجد Blue Mosqueکے نام سے مشہور ہے۔ مسجد کے احاطے میں سیکڑوں سیّاح اس کی خوب صورتی اور حسن و جمال کیمروں میں محفوظ کرنے میں مصروف تھے۔ ہم نے بھی قیمتی لمحات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس عظیم شاہ کار کی یادگار تصاویرلیں۔ مسجد کے احاطے میں ایک خوب صورت فوّارہ نصب ہے، جو 1895ء میں جرمنی کے بادشاہ، ولیم دوم نے خیرسگالی کے جذبے کے تحت عثمانی خلیفہ، عبدالحمیدثانی کو تحفے میں دیا تھا۔ مسجد سے باہر کا علاقہ جو کبھی Hypodromeکے نام سے جانا جاتا تھا، اب ’’سلطان احمد اسکوائر‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ مسجد کی زیارت کے بعد جب یہاں سے نکلے، تو بھوک ستانے لگی، کھانے پینے کے لیے کوئی پاکستانی یا ایشین ہوٹل نظر نہیں آیا، تو مجبوراً ایک مقامی ہوٹل جاپہنچے اور وہاں کی مشہور ڈش، ترکش کباب سے پیٹ پوجا کی۔ تاہم، ایمان داری کی بات ہے کہ ہوٹل کے اس ذائقے دار کھانے نے ہمیں قطعاً متاثر نہیں کیا۔ کھانے کے بعد روایتی ترکش ٹی (چائے) پیش کی گئی۔ بغیر دودھ کی چائے میں میٹھے کے طور پر چینی کی جگہ میٹھی ڈلی (Suger Cube) استعمال کی جاتی ہے۔

استنبول....مشرق و مغرب کا حَسین امتزاج
مضمون نگار، استنبول کی مسجدِ حاجیا صوفیا کے سامنے

ترکی کی کرنسی LIRA کہلاتی ہے اور ایک لیرا، پاکستانی کرنسی میں تقریباً تیس روپے کے مساوی ہے۔ چوں کہ ہمارے پاس وقت کم تھا اور سیّاحتی مقامات زیادہ، لہٰذا کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مقامات دیکھنے کی غرض سے مقامی ٹور ایجینسی سے باہمی مشورے کے بعد طے کیا کہ پہلے روز باسفورس کروز(Bosphorus Cruise)اور دوسرے روز پرنسز آئی لینڈ (Princess Islands) کے ٹکٹ خریدے جائیں، تاکہ کم وقت میں بھی بھرپور طریقے سے استفادہ کیا جاسکے۔ شہرکا بھرپور نظارہ کرنے کے لیے یہاں ہر دم مرکزی شاہ راہ پر ٹرام رواں دواں رہتی ہے، جو شہر کے مرکزی حصّوں سے گزرتی ہے۔ ان شاہ راہوں پر گاڑیاں بھی چلتی ہیں اور لوگ پیدل بھی گزرتے ہیں، منظّم ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کی وجہ سے کسی قسم کی بدنظمی کا احتمال نہیں ہوتا۔ استنبول میں ٹرانسپورٹ کا جدید ترین نظام ہے۔ یہاں کی زیادہ تر خواتین جینز اور اسکرٹ میں نظر آتی ہیں، مشرقی لباس اور روایات کی جھلک خال خال ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ استنبول، ایشیا کے جانب اناطولیہ اور یورپ کی جانب تھریس تک پھیلا ہوا ہے اور اس کا رقبہ تقریباً پندرہ سو انتالیس مربع کلو میٹر ہے۔ شہر کی جاذبیت کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں آنے والے سیّاحوں کی سالانہ تعدادتین کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ استنبول کا مشہور عجائب گھر، ’’آیا صوفیہ‘‘ (AYASOFIA) نیلی مسجد کی دوسری جانب واقع ہے۔ جو صبح 9سے شا م 4بجے تک کھلا رہتا ہے۔ ہم نے داخلے کے لیے85لیرا کا ٹکٹ لیا، اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اسی ٹکٹ سے ہم مزید10عجائب گھربھی دیکھ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ استنبول میں ستّر سے زائد عجائب گھر ہیں۔ آیا صوفیہ کے عظیم الّشان عجائب گھر میں داخل ہوئے، تو سیّاحوں کا ایک ہجوم نظر آیا، حالاں کہ موسمِ سرما میں سیّاح یہاں کا رخ کم ہی کرتے ہیں۔ آیا صوفیہ، دراصل عیسائیوں کی عظیم عبادت گاہوں میں سے ایک ہے، جسے اس وقت کے بازنطینی شہنشاہ، جسٹنٹائن نے 537ء میںتعمیر کروایا، جوتقریباً ایک ہزار سال تک عیسائیت کا عظیم ترین گرجا گھر رہا ہے۔ باہر سے شان و شوکت کی حامل یہ پرشکوہ عمارت، اندر سے ایک خول کی مانند ہے، جہاں جا بہ جا اعلیٰ خطّاطی اور قدیم و دل کش مینا کاری، عظمتِ رفتہ کی یاد دلاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس عظیم کلیسا کی وجہ ہی سے قسطنطنیہ (استنبول کا پرانا نام) ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا، مگر سلطان محمد فاتح نے 1453ء میں جب قسطنطنیہ فتح کیا، تو وہاں کے چالیس ہزار عیسائیوں نے آیاصوفیہ کے اندر پناہ لے لی۔ بعدازاں، سلطان نے تمام عیسائیوں کو جان کی امان دے کر شہر میں آرام و سکون سے بسنے کی آزادی دی، تو اس عہد میں اس شہر نے بے پناہ ترقی کی، اس نے تمام مذاہب اور نسلوں کے لوگوں کو دعوت دی کہ اس شہر میں آباد ہوکر اس کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں، جس کے بعد کچھ ہی عشروں میں دنیا بھر سے تاجروں اور کاری گروں نے استنبول کو اپنا مسکن بنالیا۔

استنبول....مشرق و مغرب کا حَسین امتزاج

آیا صوفیا کی عمارات کے گنبدوں اور محرابوں میں کئی گئی طلائی نقش و نگاری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ پرشکوہ و تاریخی عمارت دیکھنے کے بعد، اس کے عقب میں واقع، وسیع و عریض پارک’’ گل حانے‘‘ (Gulhane) کا رخ کیا۔ یہاں کچھ دیرگزارنےکے بعد تھک ہار کر واپس سلطان احمد اسکوائر پہنچے، تو مغرب کے آذان کی صدا گونج رہی تھی۔ اگلے روز صبح ساڑھے چھے بجے آنکھ کھلی، تو یہ سوچ کر کہ کہیں فجر کی نماز قضا نہ ہوجائے، مسجد پہنچے، مگر یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ استنبول میں موسمِ سرما میں تقریباً 8بجے سورج طلوع ہوتا ہے۔ بہرحال، مقررہ وقت پر نماز کی ادائیگی کے بعد ہوٹل پہنچے۔ ہوٹل کی طرف سے ’’ناشتا پیکیج‘‘ میں سلاد، جوس، ڈرائی فروٹ، انجیر، شہد، پنیر،کیک،خشک ڈبل روٹی، انڈے اور کافی شامل تھی۔ ناشتا کے بعد باہر نکلے، تو ٹریول ایجینسی کا اہل کار ہمارا منتظر تھا۔ کوچ میں بیٹھے، تو اس نے بتایا کہ آج سب سے پہلے ہم ’’پیرے لوٹی پہاڑی‘‘ (Pierre Loti Hill) پر جائیں گے، جہاں سے تقریباً پورے استنبول شہرکا دل کش نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ رستے میں گزرتے ہوئے ایک طویل شکستہ دیوار نظر آئی، استفسار پر گائیڈ نے بتایا کہ ’’یہ دیوار پانچویں صدی عیسوی میں شہر کی فصیل کے طور پر دفاعی مقاصد کے پیشِ نظر تعمیر کی گئی تھی، تاکہ شہر کو بیرونی حملوں سے بچایا جاسکے۔ اس مضبوط حصارکی بدولت شہر کئی بیرونی حملوں سے محفوظ رہا۔ 1453ء میں سلطان محمد فاتح نے جب سلطنت عثمانیہ قائم کی، تو شہر پر حملوں کا خوف نہ رہا، جس کے بعد اس دیوار کی مرمت کی ضرورت پیش نہ آئی۔‘‘ استنبول شہر دنیا کا واحد شہر ہے، جو دو برّاعظموں میں پھیلا ہوا ہے اور اس کے تینوں طرف ایک نہیں، بلکہ تین سمندریعنی بحیرئہ مرمرا(Murmara Sea) بحیرئہ باسفورس(Bhasphorus Sea) اور گولڈن ہارن(Goldon Horn) ہیں۔ یہ شہر مشرق اور مغرب کا سنگم ہی نہیں، بلکہ یہاں کی معیشت، معاشرت اور ثقافت میں بھی دونوں برّاعظموں کا حسین امتراج پایا جاتا ہے۔ پیرے لوٹی پہاڑی پر ہماری طرح سیکڑوں سیّاح مختلف زاویوں سے تصاویر لے کر ان لمحات کو قید کررہے تھے۔ یہاں سے ہم بہ ذریعہ کیبل کار، ایوب مسجد پہنچے۔ مسجد سے متصل جلیل القدر صحابیؓ، حضرت ابوایوب انصاریؓ کا مزار ہے، جنہوں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ آمد پر میزبانی کا عظیم شرف حاصل کیا تھا۔ قبرِ مبارک پر ہر وقت عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ یہاں حاضری اور دعا کے بعد اولیویم شاپنگ مال(Olivium Shopping Mall ) کا رخ کیا۔ جہاں ہمیں شاپنگ کے لیے ایک گھنٹہ دیا گیا تاکہ اپنے ساتھ لائی کرنسی کو بحفاظت واپس لے جانے کے بجائے ان کی معیشت کی بہتری میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس میں وہ کافی حد تک کام یاب بھی رہے، کیوں کہ ہم وہاں سے جیبیں خالی کرکے ہی باہر نکلے۔ شاپنگ سے فارغ ہوئے، تو دوپہر کا ایک بج رہا تھا۔ یہاں سے ہمیں بہ ذریعہ بحری جہاز ’’کروز‘‘ لے جایا گیا۔ لنچ کا اہتمام جہاز ہی پر تھا۔ لنچ کے بعد ہم بالائی منزل پر گئے۔ جہاز گولڈن ہارن کی جانب رواں تھا، سورج کی تمازت اور سمندر کی ہوائوں کے امتراج نے ایک سماں سا باندھ دیا تھا۔ یہاں تمام سیّاح شہر کے دونوں طرف کا دل کش نظارہ کررہے تھے۔ باسفورس سمندر سے گزرتے ہوئے ایشیا اور یورپ کے اہم مقامات کا دل کش منظر بہت خوب صورت لگتا ہے۔ استنبول کے معروف ڈولما باغیچہ محل(Dolmabahce Sarayi)کے قریب سے گزرے، تو گائیڈ نے بتایا کہ ’’یہ شان دار محل، سلطان عبدالمجید نے1856ء میں تعمیر کیا تھا۔ یہ اس قدر شان دار اور حسن و جاذیبت سے بھرپور ہے کہ تاج محل اور بکنگھم پیلس بھی اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ 285کمروں اور47ہالز پر مشتمل اس محل کی تعمیر میں کئی ٹن خالص سونا استعمال کیا گیا ہے۔‘‘ براعظم ایشیاء اور یورپ کو ملانے والےباسفورس پل سے گزرتے ہوئے گائیڈ نے بتایا کہ ’’1973ء میں پایہ تکمیل کو پہنچنے والے اس پل کی لمبائی 1074میٹر ہے۔ اس کی تعمیر سے براعظم ایشیاء اور یورپ کے درمیان فاصلے ختم ہوگئے۔ اس سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ایک اور پل ’’سلطان فاتح پل‘‘ 1980ء میں تعمیر کیا گیا۔‘‘ باسفورس سے واپسی پر گلتا ٹاور دور ہی سے نظر آتا ہے، جو عہدِ عثمانی میں سمندر میں جہازوں کی آمدورفت کے لیے بہ طور واچ ٹاوراستعمال کیا جاتا تھا۔ بائیں جانب سمندر کے عین بیچوں بیچ ایک اور ٹاور اِستادہ نظر آیا، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ زمانہ قدیم میںLandrنامی ایک حسینہ اپنے محبوب ہرا(Hira)کوبحری باسفورس میں تلاش کرتی ہوئی اس مقام پر ڈوب گئی تھی، کچھ عرصے بعد اس مقام پر سمندر کے اندر سے زمین ابھرآئی، تو اس کی یاد میں لینڈر ٹاور تعمیر کیا گیا۔ یہ میڈن ٹاور(Maiden Tower)کے نام سے بھی مشہور ہے۔ باسفورس سے مرمرا کے وسیع سمندر میں ان حسین نظاروں کی سیر کرتے ہوئے شام کو واپس بندرگاہ ایمی نینوسے بذریعہ بس ہوٹل پہنچ گئے۔

استنبول....مشرق و مغرب کا حَسین امتزاج

اگلے روز ناشتے کے بعد پرنسز آئی لینڈجانے کے لیے تیار ہوکر ہوٹل کی لابی میں پہنچے، جہاں ٹور ایجنسی کا نمائندہ حسبِ معمول ہمارا منتظر تھا۔ ترکی میں بھی یورپ کی طرح وقت کی پابندی کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ اور شدید موسم میں بھی زندگی حسبِ معمول رواں دواں رہتی ہے۔آج ہمارا عثمانی طرز تعمیر کا عظیم ترین میوزیم توپ قاپی دیکھنے کا پروگرام تھا۔ بحیرئہ باسفورس کے کنارے واقع یہ عجائب گھر ایک وقت میں سلاطینِ ترکی کی رہائش گاہ اور دیوانِ خاص ہوتا تھا۔ اس کے مرکزی دروازے پر توپیں نصب تھیں، اسی مناسبت سے یہ توپ قاپی یعنی توپ والا دروازہ کہلانے لگا۔ توپ قاپی کا مطلب ہے، ’’توپ کا دروازہ‘‘ اردو میں اس کا نام عام طور پر ’’توپ کاپی لکھا جاتا ہے، جو غلط ہے۔ ترک زبان میں دروازے کو ’’قاپی‘‘ کہا جاتا ہے، اس لیے یہ توپ قاپی ہے۔ اس کی ایک مثال اصفہان کا عالی قاپو محل ہے، جس کا نام ترک زبان ہی میں ہے۔ توپ قاپی میوزیم، آیا صوفیہ کے عقب میں واقع ہے۔ سیکڑوں ایکڑ پر محیط وسیع و عریض محل کے اندر ایک زمانے میں پورا شہر آباد تھا۔ اسے سلطان محمد دوم نے 1478ء میں مکمل کروایا تھا۔ اس کے بعد بھی تقریباً چار سو سال تک اس کی تعمیر و توسیع ہوتی رہی۔ محل کے اندر والے دروازے امپیریل گیٹ سے داخل ہوتے ہی بائیں ہاتھ پر شاہی باورچی خانہ ہے، جہاں بادشاہوں اور شہنشاہوں کے لیے انواع و اقسام کے لذیذ شاہی کھانے پکتے تھے۔ ایک گیلری پر ’’زیارتِ کعبۃ اللہ‘‘ لکھا ہوا تھا۔ اندر گئے، تو خانہ کعبہ کے غلاف، بیت اللہ کے دروازے کے قفل و میزابِ رحمت، حجرِاسود کے اطراف کا غلاف، غرض اللہ کے گھر سے متعلق درجنوں قیمتی نوادرات موجود تھیں۔ ہم انہیں دیکھتے رہے اور حمد وثناء کرتے رہے۔ دوسری گیلری میں آقائے دو عالم حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف تبرکات موجود ہیں۔ سونے کے ایک صندوق میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا سیاہ اون کا بنا فرغل مبارک رکھا ہے۔ ایک شوکیس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی دو تلواریں موجود ہیں، جو غزوئہ بدر اور ہجرتِ مکّہ کے موقعے پر آپؐ نے ساتھ رکھی تھیں۔ ساتھ منسلک کمرے میں ایک خوب صورت شوکیس کے اندر آنحضرتؐ کا قدم مبارک موجود ہے۔ جس کے بارے میں روایت ہے کہ شبِ معراج کے موقعے پر جب آپ برّاق پر سوار ہوئے، تو ایک پتھر پر آپؐ کا قدم مبارک پڑگیا، جس پر پائوں رکھ کر آپؐ براق پر سوار ہوئے۔ ایک شوکیس میں پرچم نظر آئے، جو عموماً غزوات میں استعمال ہوتے تھے۔ ایک بڑے شوکیس میں حضورؐ کی مہرِمبارک تجلّی کا سبب بنی ہوئی تھی۔ آنحضرتؐ کا وہ دانت مبارک، جو غزوئہ احد میں شہید ہوا تھا، شوکیس میں سونے کے کیس میں جگمگا رہا تھا۔ پیارے نبیؐ کے موئے مبارک (ریش مبارک کے بال) بھی اس میوزیم کی شان بڑھا رہے تھے۔ چمڑے کے ٹکڑے پر حضورؐ کا وہ خط، جو انہوں نے شاہِ روم مکاوس کو تبلیغ کی غرض سے تحریر کیا تھا، اس کے نیچے آپؐ کی مہر نصب تھی۔ غرض یہ کہ نبیؐ پاک کے قیمتی تبرکات سمیت دیگر تبرکات، توپ قاپی میوزیم کی عظمت وشان میں اضافے کا باعث ہیں۔ میوزیم میں خلفائے راشدین، حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروق ؓ، حضرت عثمان غنی ؓ اورحضرت علی ؓکے علاوہ حضرت دائود علیہ السلام اور دوسرے صحابہ کرامؓ کی تلواریں بھی موجود ہیں۔ حضرت موسیٰؓ کا مشہور عصا،جو زمین پر ڈالنے سے اژدھا بن جاتا تھا، وہ بھی اس میوزیم کی زینت ہے۔ اس کے علاوہ ایک وسیع گیلری میں قرآن میوزیم بھی واقع ہے۔ جہاں انتہائی نادر اورقیمتی قرآن پاک کے نسخہ جات سیکڑوں کی تعداد میں شوکیس کی زینت ہیں۔

ایک شوکیس میں حضرت عثمان کا وہ قرآن شریف بھی موجود ہے، جس کی وہ بہ وقتِ شہادت تلاوت فرمارہے تھے۔ اس پر آپؓ کے خون کے دھبّے بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ غرض ہم عقیدت سے رب کریم کا شکرادا کرتے رہے، جس نے ہمیں اس قدر قیمتی نوادرات و تبرکات کو دیکھنے کا شرف بخشا۔ ان قیمتی نوادرات کو دیکھنے کے بعد مزید کچھ دیکھنے کی جستجو نہ رہی۔ حالاں کہ ابھی ہم اس محل کے چند حصّے ہی دیکھ پائے تھے۔ بہرحال، توپ قاپی محل (Top Kapi Sarayi) دیکھنے کے بعد استنبول یونی ورسٹی کے عقب میں واقع استنبول کی دوسری عالی شان مسجد سلمانیہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ اس عظیم الّشان مسجد کو سلطان سلیمان نے1557ء میں تعمیر کروایا تھا۔ سلمانیہ مسجد کے دائیں جانب استنبول کا قدیم اور مشہور گرینڈ بازار واقع ہے۔ اس بازار کا شمار دنیا کے قدیم ترین بازاروں میں ہوتا ہے۔ اس کے چاروں طرف کئی بازار نکلتے ہیں۔ یہاں دنیا کی ہر چیز دستیاب ہے۔ بازار کشادہ اور دکانیں اندر سے روشنیوں سے جگمارہی تھیں۔ دنیا بھر سے آئے سیّاح وہاں موجود تھے۔ ایک اندازے کے مطابق اس بازار میں قریباً پانچ ہزار سے زائد دکانیں ہیں۔ تاہم، وہاں قیمتیں، باقی جگہوں کی نسبت زیادہ معلوم ہوئیں۔ اس لیے صرف ونڈو شاپنگ ہی پر اکتفا کیا۔ شام کو استنبول کی اہم مقام تقسیم (Taksim) گئے۔ جہاں ترک قوم کے عظیم رہنما، مصطفیٰ کمال اتاترک کا مجسّمہ نصب ہے۔ یہاں ہماری ملاقات مظفرآباد سے تعلق رکھنے والے فیضان علی سے ہوئی، جو ’’دلّی دربار‘‘ کے نام سے ہوٹل چلاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی مشہور ڈش دال مکھنی، گرم گرم نان اور چکن بریانی کے ساتھ ہماری ضیافت کی۔ کافی دنوں کے بعد پاکستانی کھانا کھانے کا لطف آگیا۔ کھانے کے بعد تقسیم اسکوائر اور محل کے ساتھ واقع بارونق بازار فلاور پیسج (Flower Passage) اور جمہوریت چڈیسی (Road) کی جانب مٹر گشت کیا۔ گائیڈ مصر تھا کہ یہاں کی مشہور مٹھائی کھائے بغیر استنبول کا سفر ادھورا رہے گا، چناں چہ دوستوں کے ساتھ وہاں کی مشہور مٹھائی بکلاوا (BAKLAWA) اور ترکش قہوے کا لطف اٹھایا۔

استنبول کو خوب صورت مساجد کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں پندرہ سو مساجد موجود ہیں۔ جہاں پانچ وقت اذان کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ یہاں کے لوگ خوب صورت، خوش لباس، خوش گفتار اور ملن سار ہیں، جو پاکستان سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ ترکی کے لوگ اپنی تاریخ پر فخر کرتے ہیں۔ انہوں نے کم و بیش پانچ سو سال تک تین براعظموں پر حکومت کی۔ استنبول کی آبادی اس وقت تقریباً 180 ملین کے لگ بھگ ہے۔ یہاں کی تمام مساجد میں ترک طرزِ تعمیر کے مطابق گنبد تعمیر کیے گئے ہیں۔ مساجد میں مَردوں کے ساتھ خواتین کے لیے علیٰحدہ جگہ مختص ہوتی ہے۔ فرقہ پرستی کا تصوّر تک نہیں ہے۔ لوگ ہر دم چاق چوبند اور متحرک رہتے ہیں اور روز کئی کلو میٹر پیدل چلتے ہیں۔ جو حقیقت میں ان کی صحت کا راز بھی ہے۔ آب و ہوا، غذا، فضا، میں ملاوٹ و آلودگی کا شائبہ تک نہیں۔ جرائم کی شرح انتہائی کم ہے۔ لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ دوسروں کے معاملات میں قطعی مداخلت نہیں کرتے۔ ٹریفک قوانین سخت ہیں اور لوگ ان پر عمل بھی کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ استنبول کے چند روز کے اس سفر میں ہمیں اتنا کچھ دیکھنے اور سیکھنے کو ملا کہ اس خوش گوار سفر کی یاد، مدّتوں فراموش نہ کرپائیں گے۔

تازہ ترین
تازہ ترین