نعمان عالم
’’خدمتِ خلق‘‘ کے لغوی معنی مخلوقِ خدا کی خدمت کرنا ہے،صرف مالی مدد کرنا ہی خدمت خلق نہیں ہے، بلکہ کسی کی عیادت کرنا،کسی کو ہنر سکھانا،کسی کو تعلیم دینا،کسی کو مفید مشورہ دینا،کسی کے دکھ دردمیں شریک ہونا،کسی کے لئے دعا کرنا،چرند پرند کے لیے خوراک کا،پانی کا ،سائے کاانتظام کر دینابھی خدمت خلق میں شمار ہوتا ہے اورخدمتِ خلق کے لئے مال خرچ کرنے والوں کوتو اللہ تعالیٰ بے حد پسند فرماتا ہے،ان کے خرچ کو اپنے ذمے قرض حسنہ قرار دیتا ہےاور خرچ کرنے والے کے مال کو کئی گنا بڑھا کر واپس کرتاہے، اس سے رب تعالیٰ کی خوشنودی کے ساتھ ساتھ انسان کو ذہنی اور قلبی سکون بھی نصیب ہوتا ہےاور ہمارا دین اسلام بھی خیر خواہی ،امن و سلامتی اورانسانیت کے احترام کا درس دیتا ہے، بعض علماء کے نزدیک عبادت کا خلاصہ دو چیزوں میں ہے ایک امر الٰہی کی تعظیم اور دوسرا خلق خدا پر شفقت یہی وجہ ہے کہ دین اسلام میں حقوق العبادپورا کرنے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، چناںچہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:ـ"اور اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، ماں باپ، قرابت داروں، یتیموں ، ناداروں ، رشتے داروں، ہمسایوں، اجنبی ہمسایوں ، پاس بیٹھنے والوں، مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں،سب کے ساتھ حسن سلوک کرو۔بےشک اللہ تکبر کرنے والے،بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا ۔ (سورۃ النسا، 36)
قرآن پاک میںایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ” نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق و مغرب کو قبلہ سمجھ کران کی طرف منہ کر لو ،بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر اور روز آخرت پر ، فرشتوں پر ،اللہ کی کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں، مال باوجودعزیز رکھنے کے رشتےداروں ، یتیموں ، محتاجوں ،مسافروں اور دست سوال دراز کرنے والوں کو دیںاور گردنوں کے چھڑانے میں خرچ کریں ، نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں اور جب عہد کر لیں تو اسے پورا کریں، سختی اور تکلیف میں اور جنگ کے وقت میں ثابت قدم رہیں۔یہی لوگ ہیں جو ایمان میں سچے ہیں اور یہی ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں ۔ (سورۃ البقرہ177)
قرآن پاک میں ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ” اے نبی لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کس طرح کا مال خرچ کریں،کہہ دو کہ جو چاہو خرچ کرو، لیکن جو مال خرچ کرنا چاہو،وہ درجہ بہ درجہ اہل استحقاق یعنی ماں باپ کو، قریب کے رشتے داروں ، یتیموں ،محتاجوں اور مسافروںسب کو دو اور جو بھلائی تم کرو گے اللہ اسے جانتا ہے“۔( سورۃ البقرہ 215)
آپ ﷺ کی پوری زندگی خدمتِ خلق کا اعلیٰ نمونہ ہے، آپ ﷺ معاشرے میں خدمت خلق ، محتاجوں ومسکینوں کی دادرسی، یتیموں سے ہمدردی، پریشاں حالوں کی مدد اور دیگر بہت سارے رفاہی کاموں کے حوالے سے معروف تھے، چناںچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ، جس کا مفہو م ہے کہ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں مصروف رہے گا تو اللہ اس کی ضرورت پوری کرنے میں لگا رہے گا ،جو کسی کی کوئی مصیبت کو دور کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز قیامت کی مصیبتوں میں سے اس کی کوئی مصیبت دور کرے گا۔(صحیح بخاری و مسلم)
ایک اور جگہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے،جس کا مفہوم ہے کہ اللہ اپنے بندےکی مدد میں اس وقت تک رہتا ہے ،جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔(جامع ترمذی)
حضرت ابو ہریرہؓ سے ایک فرمان مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا، اے آدم کے بیٹے میں بیمار ہوا ، تو نے میری عیادت نہ کی،انسان حیران ہو کر کہے گا کہ اے میرے رب تو تو رب العالمین ہے، میں تیری کس طرح عیادت کرتا، پھراللہ تعالیٰ فرمائے گا ،کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا ، اگر تو اس کی عیادت کرتا تو اسے میرے پاس پاتا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اے آدم کے بیٹے، میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تو نے مجھے کھانا نہ دیا ، بندہ عرض کرےگا ۔ اے پروردگار ! تو تو رب العالمین ہے ۔ تجھے کس طرح کھانا کھلاتا ۔ اﷲ تعالیٰ فرمائےگا ، کیا یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا،لیکن تو نے اسے کھانا نہ کھلایا ۔ اگر تو اُسے کھانا کھلاتا تو اس کاثواب میرے یہاں پاتا،اسی طرح اللہ فرمائے گا، اے آدم کے بیٹے : میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے مجھے پانی نہیں پلایا ، انسان کہے گا اے میرے رب ، میں تجھے کس طرح پانی پلاتا ،جب کہ تو رب العالمین ہے ۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا ،مگر تو نے اسے پانی نہ پلایا کیا۔ تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے پانی پلاتا تو اسے میرے پاس پاتا ۔(صحیح و مسلم)
قرآن پاک اور احادیث سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک خدمتِ خلق کی کتنی زیادہ اہمیت ہے ،لیکن دور حاضر میں خدمت خلق کا جذبہ بہت کم لوگوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔آج کی دنیا میں ہر شخص اپنی ہی خواہشات کو پورا کرتا دکھائی دیتا ہے، دنیا میں ملنے والی نعمتوں پر کسی کا حق نہیں ہوتا ،یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہوتی ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے، اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے۔ ہمیں اللہ نے جن نعمتوں سے نوازا ہے، ہمیں چاہیے ہم ان نعمتوں میں سے اللہ کی مخلوق کےلئے کچھ حصہ ضرور نکالیں، ڈاکٹر غریب مریضوں کا مفت یا کم فیس میں علاج کریں، استاد غریب بچوں کو مفت یا کم فیس میں تعلیم دیں،اگر آپ کا تعلق پولیس،عدالت یا سیاست سے ہے ، تو آپ اپنا کام ایمان داری سے کر کے خدمت خلق کے لئے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ، آپ کا تعلق کسی بھی شعبےسے ہو ،اپنے کام کی نوعیت اور استطاعت کے مطابق خدمت خلق میں خود کو مصروف رکھیں۔
آج کل ایک بات جو بہت عام ہے کہ ہم اپنی استعمال شدہ اشیاء سے کسی کی مدد کرتے ہیں، مثال کے طور پرہم کسی کو کھانا بھی دیتے ہیں تو بچا ہوا،ہم کسی کو کپڑے،جوتے، کتابیں،برتن،بستروغیرہ بھی دیتے ہیں تو استعمال شدہ، اگرہم میں خدمت خلق کا جذبہ بیدار بھی ہوتا ہے تو عمر کے آخری حصے میں پہنچ کربلا شبہ ایسا کرنا کسی کی مدد نہ کرنے سے تو بہتر ہے مگر ہمیں اپنی جوانی میں خدمت خلق کے لئے وقت نکالنا چاہیے ،ہمیں کھانا کھانے سے پہلے پڑوسی یاکسی غریب کو دینے کے لئے علیحدہ کرنا چاہیے،ہمیں نئے کپڑے خریدتے وقت کسی غریب کے لئے کپڑے خریدنے چاہییں۔چناںچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے،تم میں کوئی مومن کامل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔( صحیح بخاری ) جب تک ہم اپنی پسندیدہ چیز خدمت خلق کے لئے خرچ نہیں کریں گے، تب تک ہم اس کا اصل مزا نہیں چکھ سکتے اور اللہ پاک نعمتوں کو بانٹنے سے بڑھاتا ہے ،کم کبھی نہیں کرتا تو ہمیں اللہ پاک کی رضا کی خاطر مخلوق خدا کی مدد کے لئے ہر وقت کوشاں رہنا چاہیے۔