مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ
رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہم سے رخصت ہوا، کتنے خوش نصیب ایسے ہوں گے، جنہوں نے اس ماہِ مقدس کی قدر کی، اس کے ہر ہر لمحے کو اپنے لئے کار آمد بنایا، سابقہ غلطیوں پر توبہ و ندامت کا اظہار کرکے، آئندہ کے لئے گناہوں سے اجتناب کا عزم کیا اور پورا مہینہ نیکیوں پر کمربستہ رہے ، بلاشبہ، یہ مقدس مہینہ ایسے لوگوں کے لئے رحمت و مغفرت کا وسیلہ اور جہنم سے نجات اور مغفرت کا ذریعہ ثابت ہوگا، اس کے برعکس کتنے بدبخت ایسے ہوں گے جنہوں نے اپنی روش بدلی، نہ گناہ چھوڑے، نہ سابقہ گناہوں پر پشیماں ہوئے۔ اس مبارک مہینے میں بھی انہوں نےاپنی روش نہ بدلی اور سراسر محروم کے محروم ہی رہے۔
رمضان المبارک کی برکات ہی تھیں کہ اس ماہ مقدس میں شہر اور محلے کی اکثر مساجد نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں، نماز کے بعد کوئی ذکر کررہا ہے ، کوئی تلاوت کررہا ہے، کوئی نوافل پڑھ رہا ہے، کوئی وعظ و نصیحت سننے میں مشغول ہے، کوئی مسائل معلوم کررہا ہے، غرض یہ کہ ہر طرف نیکیوں اور عبادتوں کا موسم بہار تھا، مسجد میں بڑے بھی آرہے ہیں، چھوٹے بھی، بچے بھی، بوڑھے بھی ہر ایک کی یہ کوشش اور خواہش رہی کہ نماز باجماعت مل جائے، تکبیر اولیٰ مل جائے، اور ہر ایک کو یہ اندیشہ اور فکر لاحق تھی کہ کہیں میری نماز فوت نہ ہو، میری تکبیر اولیٰ فوت نہ ہو۔
لیکن جیسے ہی رمضان المبارک رخصت ہوا اور عید کی نماز ہوگئی، وہی مساجد جو رمضان المبارک میں نمازیوں کی کثرت کی بناءپر اپنی تنگ دامنی کا سماں پیش کررہی تھیں، یکایک وہ مساجد نمازیوں سے خالی ہوکر چند صفوں میں سمٹ اور سکڑ گئیں۔
ایسا کیو ں ہے ؟کیا نماز باجماعت صرف اس ایک ماہ میں فرض تھی؟ کیا ہمارا دین چند دنوں یا مہینے بھر کی عبادت کا ہمیں حکم دیتا ہے؟ کیا بقیہ گیارہ مہینوں میں نماز ہم سے ساقط ہوگئی ؟ حالانکہ قرآن کریم میں توحید، رسالت، آخرت کے ذکر کے بعد جس قدر نماز کا تذکرہ ہے کسی دوسری عبادت کا نہیں، اجمالی طور پر اور عبادت و طاعت کے ضمن میں تو سیکڑوں سے بھی زیادہ مرتبہ نماز کا ذکر ہوگا ،لیکن صراحتاً تقریباً ایک سو نو بار قرآن کریم میں نماز کا ذکر آیا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اس کا دین نہیں جس کی نماز نہیں، سنو! نماز کا مقام دین میںا یسا ہے جیسے سر کا مقام جسم میں۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو ،میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا :حضور! وہ کون سی چھ چیزیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز، زکوٰۃ، امانت، شرم گاہ کی حفاظت، پیٹ کی حفاظت اور زبان کی حفاظت ۔‘‘
ایک حدیث میں ہے کہ بندہ جب تک نماز میں ہوتا ہے اسے تین باتیں حاصل ہوتی ہیں:
۱:… آسمان کی بلندیوں سے لے کر اس کے سر کی چوٹی تک نیکی بکھرتی رہتی ہے۔
۲:… ملائکہ آسمان سے لے کر اس نمازی کے قدموں تک اسے گھیرتے ہیں۔
۳:… ایک منادی یہ اعلان کرتا رہتا ہے کہ اگر بندے کو معلوم ہو (کہ نماز میں کیا کچھ ملتا ہے) تو وہ ادھر ادھر التفات نہ کرے۔
نماز افضل ترین عبادت ہے، تمام پریشانیوں کا حل نماز میں ہے، نماز روزی دلانے کا سبب ہے، صحت کی محافظ ہے، بیماریوں کو دور کرتی ہے، نماز شیطان کا منہ کالا کرتی ہے، نماز مومن کا نور ہے، یہ افضل جہاد ہے، ایک حدیث میں ہے کہ جب کوئی آفت آسمان سے اترتی ہے تو مسجد کے آباد کرنے والوں سے ہٹ جاتی ہے۔خلاصہ یہ کہ پورے خشوع و خضوع کے ساتھ باجماعت نماز خود بھی پڑھیں اور اپنے گھر والے، پڑوسی ، محلے والوں سب کو نماز باجماعت پڑھنے کا پابند بنائیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’احب الاعمال الیٰ اللہ ادومہا وان قل‘‘اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ تھوڑا ہی ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ نماز باجماعت پڑھی، صحابہ کرامؓ نے ہمیشہ نماز باجماعت کی پابندی کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز باجماعت نہ پڑھنے والوں پر ناراضی کا اظہار فرمایا، حدیث میں ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ اپنی جگہ کسی کو امام بنائوں اور میں جاکر ان لوگوں کے گھروں کو آگ لگادوں جو نماز باجماعت میں شریک نہیں ہوتے۔‘‘ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا:’’اگر گھر میں خواتین اور (معصوم)بچے نہ ہوتے تو میں ایسے گھروں کو آگ لگادیتا۔‘‘
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ جو اسوئہ حسنہ دین حق کی کامیابی کی دلیل ہے، ہم اس سے غافل ہوچکے ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ تو یہ ہے اور اس بات کو سب مسلمان مانتے ہیں کہ نجات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ ٔ حسنہ کو اختیار کرنے میں ہے، مگر اس پرہمارا عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔حضرت حاتم اصمؒ ایک بزرگ گزرے ہیں، ان کا ارشاد ہے:
دانستم کہ خدائے را برمن حق است
جزو من کسے دیگر نمے ادامی کند
ترجمہ:… ’’میں نے جان لیا ہے کہ میرے پروردگار کا مجھ پر حق ہے، جس کو میرے سوا کوئی دوسرا آدمی ادا نہیں کرسکتا، لہٰذا میں اس حق کی ادائیگی میں مصروف ہوگیا ہوں۔‘‘مطلب یہ ہے کہ حتیٰ الامکان کوشش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہونے پائے، ظاہر ہے کہ جو شخص حقوق اللہ کا خیال رکھے گا وہ کبھی غفلت کا شکار نہیں ہوگا، وہ نہ صرف خدا تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کے لئے مستعد ہوگا بلکہ مخلوق کے حقوق کی بھی پاس داری کرے گا ، بلاشبہ ایسا شخص کامیابی کے راستے پر چل رہا ہے۔یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ رمضان المبارک کے رخصت ہوتے ہی تزکیہ و تطہیر نفس کے جذبات یکسر فراموش کردیے جائیں ،صبر وضبط کا بندھن توڑدیا جائے،نیکیوں اور اعمال صالحہ کے معمولات کو ترک کردیا جائے۔یہ تمام کام درحقیقت رمضان المبارک کے فیوض و برکات سے محرومی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ہمیں سال کے باقی مہینوں میں بھی کوشش کرنی چاہیے کہ نیکی کی یہ روش پورے سال جاری رہے۔رمضان کے فیوض و برکات کے اثرات قائم و دائم رہیں۔