اکثر اساتذہ حتی ٰ کہ والدین بھی یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ بچہ پڑھائی میں تیز نہیں ہے۔ایسےاساتذہ اوروالدین کے لیے ایک مثل ہے کہ ’’تیز ہوتے ہیں بچے کھیل سے جس طرح گاڑی کے پہیے تیل سے،، جی ہاں ! کوئی بھی طالب علم چاہے وہ کسی بھی جماعت میں ہو جب تک جسمانی طور پر فٹ نہیں ہوگا اس وقت تک وہ بہتر تعلیم حاصل نہیں کرسکتا ۔ جسم کو فٹ رکھنے کے لیےورزش بے حد ضروری ہے اور جسمانی ورزش کا تعلق بالواسطہ یابلا واسطہ کھیلوں سے ہی ہوتا ہے۔ فٹنس کے حوالے سے یہ قول مشہور ہے کہ’’جس ملک میں کھیل کے میدان آباد ہوںتو ان کے اسپتال ویران ہوں گے اور جس ملک کے کھیل کے میدان ویران ہوں تو ان کے ہسپتال آباد ہوں گے،،۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اکیڈمک ایجوکیشن کی طرح فزیکل ایجوکیشن کے کلیدی کردار کو بھی تسلیم کیاجاتاہے۔
جس طرح نصابی تعلیم ذہنی صلاحیتیں اور بہتر کردارپروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اسی طرح جسمانی تعلیم نوجوانوں میں نظم ونسق، احساس ذمہ داری اور قائدانہ صلاحیتوں کے لئے راہ ہموار کرتی ہے۔پاکستان میں اگرچہ جسمانی تعلیم کی شرح ترقی یافتہ ملکوں کی بہ نسبت کم دیکھنے میں آتی ہےلیکن ماضی کے برعکس ہمارے یہاں صورتحال تبدیل ہورہی ہے ۔ترقی یافتہ ملکوں کےاسکولوں میںفزیکل ایجوکیشن کے فروغ کے لیے اسکولوں میں ہی مختلف گیمز کا انعقاد کروایا جاتا ہے تاکہ طلبہ کی کردار سازی کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی نشوونما ممکن ہو۔ ان ممالک میں کھیل کوبچوں کی جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ بچوں کی ذہنی اور عملی قابلیت میں اضافے کے لئے ایک تعلیمی آلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
جسمانی تعلیم کی اہمیت
ٹریڈ مل پر زیادہ فاصلہ طے کرنے پرگنیز ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام درج کرانے والے ایتھلیٹ، کرسٹوفر برگ لینڈ جسمانی تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی کتاب ’دی ایتھلیٹس وے‘ میں لکھتے ہیں’’ بچوں کی پڑھائی پہ توجہ، یادداشت، بولنے کی صلاحیت، طرز عمل، اسکول میں حاضری، سبق مکمل کرنے، گھر پر کی جانے والی پڑھائی اور امتحان میں حاصل کردہ نمبروں پرورزش کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘‘
فزیکل ایجوکیشن اور کھیلوں کی مختلف اقسام
تعلیمی نصاب میں کھیلوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے چھوٹے بچوں کے ساتھ ساتھ بڑی کلاسز کے بچوں کے لیے بھی کھیلوں کی سرگرمیاں نہایت اہمیت کی حامل ہیں ۔ان کھیلوں میں جوڈو ، فٹ بال، ہاکی، کرکٹ، باسکٹ بال، بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس اور ایتھلیٹکس وغیرہ شامل ہیں۔ ان کھیلوں کا انعقاد بچوں کی شخصیت کو ہم آہنگی کے ساتھ پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اسکول کی سطح پر کھیلوں کا باقاعدہ انعقاد مثبت نتائج کا ضامن ہے۔
قابلیت میں اضافہ
نوجوان اس ملک کا سرمایہ ہیں، انھیں مختلف کھیلوںکی سرگرمیوں میں مصروف رکھا جاسکتا ہے۔ ان کے درمیان مقابلہ کی فضا پیدا کرکے ان کی طاقت کا صحیح استعمال کیا جاسکتا ہے ۔کھیل نوجوانوں کوبے راہ روی سے بچانے اور ان کی رہنمائی کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہیں۔ کھیلوں کے ذریعے بچوں کی قابلیت میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
پڑھائی میں دلچسپی کا سبب
اسکولوں میں بچوں کو صرف کتاب اور نصاب پر توجہ مرکوز رکھنے کا کہاجائےتو بہت جلد طلباء بوریت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کی توجہ پڑھائی پر مرکوزرکھنےکے لیے ضروری ہے کہ انھیں کھیل کھیل میں پڑھایا اور سکھایا جائے۔ جب تک طلبہ پڑھائی کو انجوائے نہیں کریں گے سیکھ نہیں پائیں گے،یہی وجہ ہے کہ چھوٹے بچوں کوکلاس روم میںمختلف گیمز زیادہ سے زیادہ کھلائے جاتے ہیں۔
فیصلہ سازی کی صلاحیت
تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل بھی مہذب معاشرہ کا بنیادی ستون ہے۔ کھیل نوجوانوں میں نظم ونسق، احساس ذمہ داری اور قائدانہ صلاحیتوں کے لئے راہ ہموار کرتا ہے۔ جسمانی ورزش بچوں میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔
بچے کھیلوں کے دوران اپنے ہم جماعت طالب علموں کے ساتھ بطور لیڈر یا ایک ٹیم کے طور پر کام کرتے ہیں۔دوران کھیل تجربات ومشاہدات میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس دوران ان کی توجہ اور انہماک کی تربیت ہوتی ہے۔ بچوں کامستقبل میں کامیاب ہونے کے لئے ایک متوازن شخصیت کے ساتھ ساتھ بہتر تعلیم ، کھیل کود اور غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا نہایت ضروری ہے۔
جسمانی اور ذہنی صحت کی بہتری
حالیہ تحقیق کےمطابق جسمانی ورزش سے بڑوں کی طرح، بچوں میں بھی سیکھنےاور سمجھنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔ کھیل کود سے بچوں کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت بھی بہتر ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اسکول میں بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔ ورزش سے انسان کے دل اوردماغ کی شریانوں کی صحت بہتر ہوتی ہےاور یہ عمل انسان کی سیکھنے، سمجھنے اور یاد رکھنےکی ذہنی صلاحیتیں بہترکرنے کا سبب بنتا ہے۔