ساٹھ ستر کی دہائی کوپاکستان میں سائنس کلچر کی صدی کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کیونکہ اس دور میں ہم نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ایسے کئی گوہرِ نایاب پیدا کیے جو ان ہی سرکاری اسکولوں کی پیداوار تھے جن کے بارے میں اب شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ یہ تعلیم و تحقیق کے مراکز نہیں رہے۔ یہ وہ سنہری دور تھا جب سائنس کی تعلیم و تدریس کے بارے میں یہ سوال اضافی تھا کہ اس کی تعلیم اردو یا مادری زبانوں میں دی جائے یا انگریزی میں!اس دور کے طلباء جو آج پاکستانی سائنسی دنیاکے نامور ستارے کہلاتے ہیں۔
اس لیے ہم نے اس دور کے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر رضی الدیں خان کو اردو ادب اور سائنس کا یکساں عاشق پایا۔یہ وہ نامور سائنس دان تھے جنہوں نے ادبِ عالیہ سمیت فلسفہ و تاریخ اور معاشرتی علوم کے خزانے سے بھی اپنے اذہان معطر کیے۔ سائنس اور فنی علوم ،جسے آج ہم ٹیکنالوجی کے نام سے پکارتے ہیں،میں بھی طاق تھے ۔یہ دور بڑے سائنس دانوں کی پیدائش کا دور تھا جب قد آورشخصیات اپنی ایجادات و اختراع سے عالم کو روشن کیے ہوئے تھیں۔اردو زبان میں سائنسی جرائد کا دور دورہ تھا۔ کئی نامور سائنسی جرائد شائع ہوتے تھے لیکن پھر اس صدی کی تیز رفتارانٹر نیٹ معلومات اور دھڑا دھڑ سرقہ بندی نے ان نامور جرائد کا گلا گھونٹ دیا ۔سرِ دست پاکستان میں اردوسائنسی جرائد اور سائنسی صحافت عظمتِ رفتہ کی نشانی بن گئی ہے۔ اسکولوں میں سائنس کی تعلیم بھی کمرشل بن چکی ہے کہ مختلف سائنسی میلے رچاکر مقابلہ کیا جائے اور پھر اپنی اختراعی صلاحیتوں کو غیروں کے ہاتھ فروخت کیا جائے۔یوں اس وقت کے ٹیکنالوجسٹ بچے مغرب کے پسندیدہ موجد ہیں جن پر اپنوں کا قطعی دھیان نہیں جاتا۔
آج ہماری قومی سائنس کی ہیرونرگس ماولہ والا ہیں جنہوں نے ہمارے ہی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرکے ایم آئی ٹی میں بلند مقام پایا۔جن کی ایجاد نے کائنات کی پیدائش کے وقت اٹھتی لہروں کا سراغ پاکر مستقبل میں کائنات کی ابتدا سے پردہ اٹھایا۔انھوں نے کراچی میں اسکول کی تعلیم حاصل کی اورپھراعلیٰ تعلیم کے لیے امریکاکا رخ کیا۔اس لیے ہمیں فخر کرنا چاہیے کہ اپنے ہی نظامِ تعلیم سے پروردہ طالب علموں نے شہرت و کامرانی کے جھنڈے گاڑے۔
پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کی باقاعدہ وزارت ہے لیکن ایسے سائنس فیئرز کے انعقاد کی نوید نہیں ملے گی جوامریکا، روس، برطانیہ، کینیا اور عرب ممالک اہتمام سے کررہے ہیں اور ہمارے اسکولوں میں سائنس کی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم ان میں شرکت کرکے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔
پاکستان میں سائنس کلچر
پاکستان میں سائنس کی ترویج نامساعد حالات کے باوجود اپنی مجموعی کارکردگی کے لحاظ سے معجزہ کہلائی جاسکتی ہے کہ نہ نصابِ تعلیم دلچسپ ہے اورنہ ہی اسکولوں میں بہترلیبارٹریز۔ایسے میں سائنس کے طالب علموں کی حیران کن کارکردگی بلاشبہ ہمارے اساتذہ اور طالب علموں کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عام طور پر سائنس کو بور اور پھیکا مضمون شمار کیا جاتا ہے، اس ضمن میں دلچسپی و شوق کو مہمیز دینے والی سرگرمی اس وقت ہمارے پاس سائنسی میلے ہیں جو طالب علموں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی آتشِ شوق کو بڑھاتے ہیں۔یہ عوامی آگہی کا معروف پلیٹ فارم ہے جس میں طالب علم اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔ساتھ ہی وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کو دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے سائنس چینل کا آغاز کرنا ہوگا جہاں سائنسی تعلیم کی تدریس میں مگن پرخلوص اساتذہ اور موجد طالب علموں کی کاوشوں کو پیش کرتے ہوئے پاکستانی سائنس کو پروموٹ کیا جائے۔یہ چینل صنعت و حرفت بالخصوص مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو اپنی ٹیکنالوجی بنانے کی طرف مائل کر سکتا ہے۔سائنس چینل کا ماڈل ہمیں باقاعدہ نیشنل جیوگرافک،ڈسکوری، اینیمل پلینٹ،وائلڈ ورلڈ اور کوسموس سیریز جیسا رکھنا پڑے گا ۔
سائنسی نصاب پر مبنی معلومات کی ویڈیوز بھی تیار کی جائیں جو رنگ و نور کے کمرشل انداز میں ان اساتذہ سے ریکارڈ کروائی جاسکتی ہیں جنہوں نے سنجیدگی سے اپنے ذہن و دل کو ہنسی و تبسم سے نا آشنا کردیا ہے۔اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ پاکستان کی سائنس پر فوکس کیا جائے اور جدید نظریات کی تشریح کے لیے بین الاقوامی پلیٹ فارم استعمال کیا جائے۔سائنس موویز دکھائی جائیں۔ پاکستان کےنامور ادیبوں سے سائنس فکشن ٹیلی موویز تیار کروائی جائیں۔پاکستان میں سائنس کلچر کو فروغ دینے کے لیے دیگر ممالک سے سائنسی مواد کا تبادلہ کیا جائے۔ چین ،امریکا، سعودی عرب، ترکی،ایران،جرمنی اوربرطانیہ جیسے دوست ممالک کے سائنسی تجربات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔جب تک یہ نہ ہوگا تب تک ہماری ذہانت کا انخلا ہوتا رہے گا۔