افلاطون(Plato)، جس کا اصل نام ارسٹوکلیز( اسطاکلیس) بتایا جاتا ہے، یونان کے موثر ترین فلسفیوں میں سے ایک ہے۔جو 428ق م میں یونان کے شہرایتھنز میں پیدا ہوا۔ اس کے والد کا نام ارسٹون اور اس کی والدہ کا نام پرکشی ٹون تھا۔ افلاطون کا خاندان ایتھنز کے شاہی خاندان کی باقیات میں سے تھا۔ افلاطون کے دو بھائی اور ایک بہن تھی۔ افلاطون کی عمر ابھی تین یا پانچ سال ہی تھی کہ اس کے والد کی شدید بیماری سے موت واقع ہوگئی۔ ارسٹون کی وفات کے بعد افلاطون کی والدہ نے اپنے قریبی رشتہ دار سے شادی کرلی جو ایرانی بادشاہ کے محل میں سفیر تھا۔
افلاطون بچپن ہی سے بہت ذہین تھا اس لیے اس نے لڑکپن اور نوجوانی میں کتابوں کا بہت مطالعہ کیا۔ اس نے اسوقت کی مشہور و معروف کتابوں کو ازبر کرنے کے ساتھ معروف اساتذہ سے موسیقی، منطق، فلسفہ اور جمناسٹک میں مہارت حاصل کی اس کے علاوہ وہ نوجوانی میں پہلوان بھی تھا۔ افلاطون کو ابتداء ہی سے ادب اور حکمت سے ذوق تھا پہلے وہ کریٹیئس کا شاگرد تھا جو ہراکلٹیس کے فلسفۂ تغیر کا معتقد تھا، اس لیے افلاطون پر پہلا نقش اسی فلسفے کا بیٹھا۔ نوجوانی میں اس کی ملافات ایک اورفلسفی سقراط سے ہوئی، جو اس کا رہنما اور دوست بن گیا۔ اس وقت افلاطون کی عمر انیس ۱۹ سال تھی اور اس کی جسمانی و ذہنی طاقت عروج پر تھی۔
افلاطون کے مکالمات اس کی اہم ترین تحریریں ہیں۔ یقین کیا جاتا ہے کہ افلاطون کے تمام مصدقہ مکالمات صحیح سلامت ہم تک آئے ہیں۔تاہم بعض ماہرین نے افلاطون سے منسوب مکالمات کو مشکوک قرار دیا ہے یا ان کے مطابق بعض تحریریں سراسر غلط طور پر اس سے منسوب کر دی گئیں۔ افلاطون سے منسوب تمام خطوط کو بھی جھوٹا قرار دیا گیا ہے تاہم ساتویں خط کو ان دعووں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔
سقراط کے اثرات
سقراط افلاطون کے مکالمات کا کم و بیش مرکزی کردار ہے۔ مگریہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ تحریر کردہ دلائل میں سے کون سے افلاطون کے اور کونسے سقراط کے ہیں۔ کیونکہ سقراط نے بذات خود کچھ تحریر نہیں کیا۔ اس مسئلے کو عموماً ”سقراطی مسئلہ” کہا جاتا ہے۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ افلاطون اپنے استاد سقراط کے خیالات سے بے حد متاثر تھا اور اس کی ابتدائی تحریروں میں بیان کردہ تمام خیالات اور نظریات ماخوذ ہیں۔
سقراط کے علم وحکمت اور فلسفہ سچائی نے افلاطون کو اس قدر متاثر کیا کہ پھر تمام عمر افلاطون فلسفہ و حکمت کے نشہ میں مدہوش رہا اور یہ نشہ عمر بھر نہ اتر سکا۔ افلاطون اور سقراط کا ساتھ آٹھ سال تک رہا جس میں افلاطون نے اپنے استاد و دوست سے بہت کچھ سیکھا۔ کہا جاتا ہے کہ افلاطون نے جوانی میں کچھ ڈرامے بھی لکھے جو بعد میں اس نے سقراط کے زیر اثر آکر ضائع کردیے۔ جب سقراط نے زہر کا پیالا پیا تو ان دنوں افلاطون بیمار تھا، استاد کی وفات کے بعد افلاطون نے ایتھنز چھوڑ دیا اور مگارا چلاگیا۔ اس کے بعد کچھ سالوں تک سائرین، سسلی اور مصر میں پھرتا رہا۔ 387ق۔م میں وہ ایتھنز واپس آیا اسوقت اس کی عمر40سال ہوچکی تھی۔ اسی سال واپس آکر افلاطون نے ایک باغ میں درسگاہ کی بنیاد رکھی وہ باغ اکیڈمس نامی شخص کا تھا جس کی وجہ سے وہ درسگاہ آگے چل کر “اکیڈمی” کہلائی۔ جلد ہی اس ادارے کو بہت مقبولیت حاصل ہوگئی اور ایتھنز کے نوجوان اس میں داخل ہوکر افلاطون کے افکار سے واقف ہوئے۔ افلاطون کی اس درسگاہ نے بہت سے نامور دانشوروں اور سیاست دانوں کو جنم دیا۔نامور فلسفی ، علم الحیوانات کا بانی اور سکندر اعظم کا استاد ارسطو بھی افلاطون کا شاگرد تھا۔ افلاطون کی یہ اکیڈمی 529ءتک قائم رہی۔افلاطون نے تاریخ فلسفہ یونان میں پہلی بار ایک ایسا نظام فکر پیش کرنے کی کوشش کی جو کائنات اور زندگی کے مختلف پہلوؤں مثلا اخلاقیات، علمیات، طبعیات، اور سیاسیات کا مکمل طور پر احاطہ کرسکے۔
افلاطون اور فلسفہء جمہوریت
جمہوری نظام میں انسان گنے جاتے ہیں تولے نہیں جاتے۔ اگر49?عقل مندکسی چیز کی مخالفت میں ووٹ دیں اور51احمق اس کی حمایت کا اعلان کردیں تو درست وہی قراردیا جائے گا جو اکثریت میں ہو۔جمہوریت کا یہ فلسفہ مشہورفلسفی افلاطون کوبھی سمجھ نہیں آیا۔اس کی نظرمیں جمہوریت مستقل کشمکش ،فتنہ ،فساد،دھوکہ ، تعصب اورتنگ نظری کے سوا کچھ نہیں۔افلاطون وہ پہلا شخص ہے جس نے سیاسیات کو باضابطہ طورپراپنے مطالعہ کا موضوع بنایا اوراس کے تمام پہلوئوں کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعدبڑی بے باکی کے ساتھ اپنا نظریہ پیش کیا۔افلاطون نے یونانی جمہوریت پسندوں کے ہاتھوں اپنے استاد سقراط کی موت کے بعد یہ نتیجہ اخذکیاکہ جمہوریت جم غفیرکی حکمرانی ہے۔ایک طویل تجزیہ وتجربہ کے بعد اس نے سیاسیات پرریاست (Republic) مدبر (Statesman) اورقوانین ( The Laws) نامی مشہورزمانہ کتابیں تصنیف کیں۔
افلاطون نے اپنی کتابوںمیں یونان کے مروجہ جمہوری روایت کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ایک فرسودہ نظام قراردیا اورکمیونزم (اشتمالیت ) کا نظریہ پیش کیا۔اس کے خیالات کی سب بڑی خوبی یہ رہی کہ اس کےزمانے کے سیاسی مفکرین اس کا متبادل پیش کرنے سے قاصررہے۔بعدمیں چل کرافلاطون کے شاگردارسطونے ہی اپنے استادکے نظریات کی تردیدکی لیکن وہ بھی متبادل تجویز لانے میں ناکام رہا۔
افلاطون کے سیاسی نظریات ہمیشہ سے متنازع رہے اوراکثرماہرین سیاسیات نے اسے جمہوریت مخالف قراردیا لیکن یہ بات پوری طرح نہیں درست ہے۔وہ یونان میں رائج معیارات جمہوریت سے سخت متنفرتھا کیوںکہ وہ عوام کواستعمال کرنے اوران باتوںکواستعمال کرنے کیلئے تیارنہیں تھا جو یونانی ذہن کے مطابق جمہوری تھی مگرسچی بات یہ تھی کہ وہ اپنے وقت کا سب سے عظیم جمہوریت پسند انسان تھا۔افلاطون کے سیاسی نظریات اوراس دورکے جمہوری نظام کا جائزہ لینے کے بعدیہ بات سمجھنے میں آسان ہوجاتی ہے۔دراصل افلاطون کا کہنا تھاکہ اگرگروہ پسندی، بدعنوانی اور سب سے بڑھ کر نااہلیت اگر جمہوریت کی قیمت ہے تو یہ ایک بڑی قیمت ہے جوسماج کو جمہوریت کے فوائدسے محروم کردیتی ہے۔