• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ماہ بعد ملک کے عوام آئندہ پانچ سالوں کے لئے نئی حکومت چننے جارہے ہیں اور توقع ہے کہ اس بار انتخابات میں کانٹے کا مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔ سب سے بڑا مقابلہ جو آئندہ بننے والی حکومت کی قسمت کا فیصلہ کرے گا وہ پنجاب میں ہوگا۔ پنجاب سے قومی اسمبلی کی 141نشستوں پر ہونے والا دنگل جو سیاسی جماعت بھی جیت جائے گی، وہ وفاقی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔صوبہ میں مقابلہ مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین ہو گا۔ دو ہزار تیرہ میں پی ٹی آئی نے انتخابی سیاست کو مکمل طور پر نہ سمجھنے کے باوجود سینٹرل پنجاب کے کئی حلقوں میں مسلم لیگی امیدواروں کو ٹف ٹائم دیا تھا۔اس بار پی ٹی آئی کو سینٹرل پنجاب کے کئی تگڑے سیاسی رہنمائوں کی حمایت حاصل ہے۔ جس کے باعث مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھے جانے والے جی ٹی روڈ کے حلقوں میں بھی مسلم لیگ ن کو سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کی بڑی سیاسی شخصیات کو اپنے ساتھ ملا کر پی ٹی آئی نے پہلے ہی سے مسلم لیگ کی کمزوری سمجھے جانے والے سائوتھ پنجاب سے بھی اپنی کامیابی کے امکانات کو بڑھا نے کی کوشش کی ہے۔
ابھی تک پاکستان تحریک انصاف ملک بھر سے ایک سو تہتر نشستوں پر اپنے امیدواروں کا اعلان کر چکی ہے۔ جبکہ باقی قومی او ر صوبائی حلقوں کے بارے میں تا حال کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔ یہ وہ حلقے ہیںجن کے بارے میں پارٹی قیادت شاید یہ سمجھتی ہے کہ ان میں ایک دھڑے کے امیدوار کو ٹکٹ ملنے کے بعد دوسرا دھڑا پارٹی چھوڑجائے گا۔ کسی بھی قسم کے سیاسی نقصان سے بچنے کے لئے ان حلقوں کے امیدواروں کا اعلان بالکل آخری وقت پر کیا جائے تو شاید اس کا پارٹی کوکم نقصان ہو۔ پہلے ہی جن حلقوں سے ٹکٹ جاری کئے گئے ہیں ان سے پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکن مطمئن نظر نہیں آتے۔ بہت سے ایسے حلقے ہیں جہاں پارٹی کے پرانے ٹکٹ ہولڈرز کو نئے شامل ہونے والے افراد کے لئے جگہ خالی کرنے کو کہا گیاہے ۔ الیکٹ ایبلز کو پارٹی میں لینے کے چکر میں پی ٹی آئی نے کئی ایسے ورکرز کو بھی نظر انداز کر دیا جو نہ صرف پی ٹی آئی کے ساتھ کئی سال سے وابستہ تھے بلکہ سیاسی طور پر بھی کافی مضبوط امیدوار تھے۔ ان لوگوں نے پارٹی کے لئے وقت، پیسہ سب کچھ صرف کیا لیکن ٹکٹ دینے کی باری آئی تو پارٹی نے نئے آنے والے لوگوں کو ان پر فوقیت دی۔ ان میں سے کئی ایک اسلام آباد میں عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالہ کے باہر کئی روزسے اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کے خلاف دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ کئی روز سے جاری دھرنے سے تنگ آکر اسلام آباد انتظامیہ نے عمران خان کی رہائش گاہ کی سیکورٹی کے لئے رینجرز سے مدد بھی طلب کر لی ہے لیکن مظاہرین وہاں سے اٹھنے پر تیار نہیں ہیں۔
مسلم لیگ ن تاحال کسی بھی حلقے کے لئے ٹکٹ کو فائنل نہیں کر پائی، اس سلسلے میں پارٹی کی سطح پر کئی حلقوں کے بارے میں فیصلے ضرور ہو چکے ہیں ۔لیکن ملک بھرسے پارٹی کے نشان پر انتخاب کے میدان میں اتارے جانے والے امیدواروں کے ناموں کا باضابطہ طور پر اعلان نہیں کیا گیا۔ پانامہ فیصلے کے بعد پے درپے آنے والی مشکلات کے باعث مسلم لیگ ن کافی پریشر میں رہی ہے۔ امید تو یہ کی جار ہی تھی کہ جماعت پچھلے ایک سال سے جس انتخاب کی تیاری کرتی دکھائی دے رہی تھے اس میں پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز کے بارے میں
فیصلہ بھی بہت پہلے ہوچکا ہو گا۔ لیکن اب جبکہ ہم الیکشن سے صرف ایک ماہ دور ہیں ، چند ایک سیاسی رہنمائوں کے علاوہ کسی مسلم لیگی امیدوار نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز نہیں کیا کیونکہ ان کے ٹکٹ کا با ضابطہ اعلان ہونا ابھی باقی ہے۔ پی ٹی آئی کی طرح مسلم لیگ ن میں بھی ٹکٹ کے معاملات پرکافی تحفظات پائے جاتے ہیں۔ خصوصاََ ایسے حلقے جن کے بارے میں عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ وہاں سے مسلم لیگ کی کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہیں، وہاں پارٹی کے ٹکٹ کے حصو ل کے لئے کئی مختلف لابیاں کام کر رہی ہیں۔اگرچہ تاحال مسلم لیگی قیادت کے گھر کے باہر کسی ناراض کارکن نے دھرنا نہیں دیا لیکن ٹکٹوں کے اعلان کے بعد ایسے مناظر کی توقع کی جا سکتی ہے۔ پہلے بھی خواتین کی مخصوص نشستوں کی لسٹ آنے کے بعد بہت سی خواتین ورکرز نے پارٹی قیادت کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ میرے خیال میں ٹکٹوں کی تقسیم میں اتنی دیر کر دینے سے مسلم لیگ ن کو نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ الیکشن میں چند روز ہی باقی رہ گئے ہیں، ایسے میں پارٹی ناراض رہنمائوں کو کب منائے گی اور کب انتخابی مہم کا آغاز کیا جائے گا؟ ابھی تو پارٹی ٹکٹ کے معاملے پر ضعیم قادری نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا ہے، آنے والے دنوں میں اگر کئی اور ایسے رہنما بھی آگئے تو انہیں منانے کی کوشش بہرحال پارٹی کو کرنی ہی ہو گی۔ ایسا ہوا تو پارٹی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
پنجاب میں سیاسی مقابلہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے مابین تو ہو گا ہی مگر چند گنے چنے حلقے ایسے بھی ہوں گے جہاں سے پیپلزپارٹی بھی ایسے امیدوار میدان میں اتار رہی ہے جو کم از کم اپنے مخالفین کا مقابلہ ضرور کر یں گے۔ یہ مٹھی بھر حلقے ہی ہیںجن میں سے زیادہ تر جنوبی پنجاب کا حصہ ہیں۔ باقی پنجاب سے دو ہزار تیرہ کی طرح پیپلز پارٹی کو کوئی خاص ووٹ ملنے کی امید نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت نے ابھی تک پنجاب میں اپنی مہم کا باقاعدہ آغاز نہیں کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے پنجاب کے عوام نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دینا چھوڑ دیا تو پیپلز پارٹی نے پنجاب کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیا۔ غالباََ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب کی بیشتر قیادت اس بار پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین