بینش ناز
اس بات میں کوئی دو رائے نہیںہو سکتی ، کہ نوجوان جوش و جذبے ، خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے جذبے سے بھرپور ہوتے ہیں۔ چٹان سے زیادہ مضبوط قوت ارادی کے مالک ہوتے ہیں۔ان میں مشکل حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کرنے کی ہمت ہوتی ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ نسل نو کسی بھی قوم کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے،اسی لیے ان کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔اس قوم کی راہ ترقی میں کوئی بھی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی، جس کے نوجوان محنتی و ذمے دار ہوں،جن قوموں کے نوجوان ،سست ، کاہل اور غیر ذمے دار ہوتے ہیں، ان کا مستقبل خود بہ خودتاریک ہوجاتا ہے ۔ نوجوانوں کو قوم کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے، یعنی اگر نسل نو کمزور ہوگی، توپوری قوم ہی کمزور ہو جائے گی۔آج دنیا میں وہی قومیں ترقی کر رہی ہیں، جن کے نوجوان درست سمت پر چل رہے ہیں۔ہم اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ہماری آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، ہمار ی نسل نو میں قابلیت اور ذہانت کی کمی نہیںہے،اس نے ہر سطح پر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی سے کم نہیں ، نا مساعد حالات کے باوجود وطن عزیز کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرانے کے لیے کوشاں ہے،مگر نوجوانوں کے بارے میں، ان کو سہولتیں فراہم کرنے کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا، آئین پاکستان کے آرٹیکل 25Aکے مطابق ریاست ہر شہری کو میٹرک تک مفت تعلیم دلوانے کی پابند ہے ،مگر یہاں تو نظام ہی الٹ ہے ،ریاست اپنی ذمے داریاں نبھانے سے قاصر ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی پڑھائی کا معیار دن بہ دن زوال پزیر ہی ہوتا جا رہا ہے،ایسے میں والدین اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں پڑھانے پر مجبور ہیں، جن کی فیسیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں ، نجی تعلیمی سیکٹر کی اجارا داری نے تعلیمی نظام کو مزید کمزور کردیا ہے۔غریبوں کے لیے تو تعلیم حاصل کرنا جیسے ناممکن ہی ہوتا ہے، اگر کوئی غریب اس کٹھن مرحلے میں معیاری تعلیم حاصل بھی کرلے ،تو اس کے سامنے اگلا کٹھن مرحلہ نوکری یعنی روزگار کاحصول ہوتا ہے۔ہمارے نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے۔لاکھوں روپے خرچ کرنےاورانتھک محنت کرنے کے بعد ، ڈگری حاصل کرکے بھی نسل نو کی اکثریت تلاش معاش کے لیے ماری ماری پھرتی ہے۔گزشتہ انتخابات اور انتخابی مہم میںمعاشرے میں ایک نیا رجحان دیکھنے میں آیا ، جس میںہر سیاسی جماعت نوجوانوں سے مخاطب ہوتی ہے، انہیں اپنا سرمایہ تصور کرتی اور اقتدار میں آنے کے بعد انہیں سہولتیں فراہم کرنے کے بلند و بانگ دعوے کرتی نظر آتی ہے، مگر افسوس کے وہ دعوے محض باتوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔ یہ سال عام انتخابات کا ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں دوبارہ انتخابی مہم میں مصروف ہو گئی ہیں، ایک بار پھر نوجوانوں کو معیاری تعلیم اور روزگار دینے جیسے نعرے گونجنا شروع ہوگئے ہیں، تاکہ وہ انہیں ووٹ دیں۔لیکن نسل نو کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی جماعتوں کے آلہ کار یا ان کے جلسوں میں نعرے لگانے سے زیادہ اہم ان کی تعلیم ہے، سیاست میں ضرور حصہ لیں، اس قوم کو پڑھے لکھے نوجوان سیاست دانوں، حکمرانوں کی ضرورت ہے، مگر اپنا قیمتی وقت برباد کرکے کسی کی مفاد پرستی کا شکار مت بنیں۔سیاسی جماعتوں کی تو یہی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے جلسوں میں زیادہ سے زیادہ نوجوان حصہ لیں، اس سے انہیں بس اپنے پروگرام کے کام یاب ہونے سے مطلب ہوتا ہے، لیکن یہ آپ کا فرض ہے کہ سمجھداری سے کام لیں۔سیاسی جماعتوں کو ضرورسپورٹ کریں، لیکن ووٹ دیتے ہوئے ذاتی پسند،صوبائیت ، قومیت، زبان کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف ایسے امید وار کو ووٹ دیں، جو تعلیم یافتہ اور قابل ہو، جو صحیح معانوں میںایوان میں آپ کی آواز بنے، آپ کے حق کے لیے آواز اُٹھائے، ووٹ لینےکے بعد آپ کو فراموش نہ کر بیٹھے۔
ایک حالیہ سروے میں جاری ہونے والی بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق ہر چھٹا پاکستانی بے روزگار ہے۔یہی وجہ ہے کہ نسل نو کی اکثریت بیرون ملک جا کر مستقبل بنانے کو ترجیح دے رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ تعلیم یافتہ نوجوان جنہیں اپنے ملک و قوم کا سہارا بننا تھا، آج بیرون ممالک میں مقیم ہیں، صرف اس لیے کہ انہیں یہاں بہتر روزگار کے مواقع میسر نہیں آئے، اگر سیاست دانوںکے وعدے ایفا ہوگئے ہوتے، تو آج ملک میں بے روزگاری کی شرح میں اس قدر اضافہ نہ ہوا ہوتا۔ نوجوان دوستو! صرف ووٹ ڈالنے سے اچھا شہری ہونے کی ذمے داری پوری نہیں ہوتی، بلکہ ملک سے محبت کا حق تب ادا ہوگا جب آپ اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں گے، آئندہ انتخابات میںووٹ ڈالنے سے قبل ہر قسم کے تعصب کو بالائے طاق رکھ دیں۔ہمیں اپنے ملک کی بقاء و ترقی کے لیے خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔عہد کیجئے کہ خود کا احتساب کرکے معاشرے میں ایک باشعورنوجوان ہونے کا ثبوت دیں گےاور اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں گے۔