سید آفتاب عالم
زمانہ جتنا آگے بڑھتا جائے گا نوجوانوں کی اہمیت، رول اور حیثیت بھی بڑھتی جائے گی۔ ہر زندہ قوم، تحریک اور نظریہ نوجوانوں پر خصوصی توجہ دیتا ہے، کیوں کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ اقوام و ملت کو چلانے، تحریکوں کو متحرک رکھنے اور نظریات کو کام یابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ہمیشہ نسل نونے ہی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ وہ بلند عزائم کے مالک ہوتے ہیں، جہد مسلسل اور جفاکشی ان کا امتیاز ہوتا ہے، بے پناہ صلاحیتیں ان میں پنہاں ہوتی ہیں، بلند پرواز ان کا اصل ہدف ہو تا ہے، مشکلات کا مقابلہ کرنا ان کا مشغلہ ہوتا ہے۔
شاہینی صفات سے وہ متصف ہوتے ہیں، ایک بڑے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ساحل پہ کشتیاں جلانے کو تیار ہو جاتے ہیں، وہ ہواؤں کا رُخ موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، میدان کارزار میں شکست کو فتح میں تبدیل کرنے کی قوت ان میں موجود ہوتی ہے۔ یہی نوجوان ہیں جو باطل پرستوں کے خیموں میں خوف و دہشت کو ہلا سکتے ہیں۔ یہ نوجوان ہی ہیں ،جو ہر قوم و ملت اور تحریک کے لیے امید کی واحد کرن ہوتے ہیں۔ اسی کرن کے سہارے اقوام اور تحریکیں آگے بڑھتی ہیں اور اہداف کے مختلف منازل طے کرتی ہیں۔
یہ طبقہ تب ہی قوم و ملت کے لیے کارگر ثابت ہو سکتا ہے جب اس پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے۔ یہ طبقہ ہی ملت کے لیے سایہ دار اور ثمرآور درخت بن سکتا ہے جب ملت کا ہر طبقہ ان کی تعلیم و تر بیت اور اصلاح کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں اور ذرائع کو بروئے کار لانے کا تہیہ کر لے۔نسل نوکی تعلیم و تربیت میں والدین کا کردار اور گھریلو ماحول انتہائی کلیدی کردار ادا کرتا ہے، کیوں کہ وہی ہر بچے کی اولین درس گاہ ہوتی ہے، جہاں سے بچے نہ صرف ابتدائی اور بنیادی باتیں سیکھتے ہیں بلکہ عادات و اطوار اور رویہ بھی گھر ہی سے سیکھنے کو ملتا ہے۔لیکن افسوس کے آج کل والدین کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ بچوں کے ساتھ بیٹھے، انہیں وقت اورتربیت پر توجہ دیں، نتیجتاً بچے ٹی وی ، انٹرنیٹ اور موبائل فون کے قریب ہو جاتے ہیں، دن بھر سوشل نیٹ ورکنگ کرنے والی نسل جب بڑی ہوتی ہے، تو ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی روایات کے عین مطابق برتاؤ کریں،بھلا یہ کیسے ممکن ہے، جس نسل کی صحیح طور پر تربیت ہی نہیں ہوئی وہ کیسے بڑوں کا احترام کرنا جانے گی؟
غیر ملکی ڈرامے اور فلمیں دیکھ کر بڑی ہونے والی نسل سے آہ کیسے حب الوطنی کی امید لگا سکتے ہیں؟ آج کل جسے دیکھو یہ شکایت کرتا نظر آتا ہے کہ نسل نو کو بڑوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ، گھر والوں کو وقت نہیں دیتی، اپنی من مانی کرتی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔لیکن ذرا سو چیں، کیا اس میں قصور وار نوجوان ہیں؟ نہیں ! بلکہ کوتاہی ان کو ملنے والی تربیت میں ہوئی ہے۔ اقوام کی ترقی نوجوانوں کی تربیت پر منحصرہوتی ہے، جتنے تعلیم و تربیت یافتہ نوجوان ہوں گے، اقوام کی ترقی کرنے کی راہیں اتنی روشن ہو جاتی ہیں۔ ہمارا تعلیمی معیار، اداروں کی حالت ، نظام تعلیم و تربیت قابلِ رحم حالت میں ہے۔مسلسل نا کامی کسی بھی انسان کے اندر منفی ارادوں کو اجاگر کرنے کی وجہ بن سکتی ہے۔
نوکری کے حصول میں ناکامی ، معاشی ناہمواریاں ،بد عنوانیاں اور نا انصافیاں ایسے اسباب ہیں، جو نسل نو کی صلاحیتوں کو زنگ لگا دیتے ہیں ۔یہ مسائل جب کسی بھی نوجوان کی ترقی کی راہ میں حائل ہوتے ہیں، تو اس کے جذبات بپھر جاتے ہیں، وہ نفسیاتی عوارض کا شکار ہوکر، ایسا منفی فکر و انداز بنا لیتے ہیں جو نہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ایسے حالات میں ان کا چڑ چڑا یا معاشرے سے بیزار ہوجانا فطری عمل ہے۔
اگر انہیں شروع ہی سے ایسی تعلیم و تربیت دی جائے، یہ سکھایا جائے کہ ناکامیاں زندگی کاحصہ ہوتی ہیں، ناامیدی ، مایوسی سے دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے ، تو بہت ممکن ہے کہ وہ ناامیدی کے بھنور میں پھنسیں ہیں۔اس حوالے سے والدین اور اساتذہ کا کردار انتہائی اہم ہے، بے جا تنقید اور ڈانٹ ڈپٹ نسل نو کو گھر والوں سے دور کر دیتی ہے، جس کا انجام سوائے تاریکی کےاور کچھ نہیں ہوتا۔اس لیےبچپن ہی سے ان کی تربیت پر خاص توجہ دینی چاہیے، انہیں انٹرنیٹ اور موبائل فون کے حوالے نہیں کر دینا چاہیے۔
آج کے نوجوانوں میں بیداری اور شعور پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ نئے دور کا نوجوان ہی امید کی وہ جلتی شمع ہے، جو بدعنوانیوں اور لاقانونیت کے اندھیروں میں روشنی پھیلانے کا موجب بن سکتا ہے، کیوں کہ اگر اس کی صلاحیتوں کو صحیح سمت مل جائے تو وہ نہ صرف خود اعلیٰ مقام تک پہنچ سکتا ہے، بلکہ ہمارا ملک بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جائے گا۔