• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اجتماعی قتل کی واردات

مردوں کےاس معاشرے میں سندھ کے دیہی علاقوں کی خواتین کے تمام جائز حقوق سلب ہیں، وہ سانس بھی گھر کے مردوں کی مرضی کے مطابق لیتی ہیں۔ ان کواپنی مرضی کے مطابق اپنا جیون ساتھی چننے کا حق بھی حاصل نہیں ہے جب کہ شرع کے مطابق بھی انہیں شادی کے معاملے میں اپنی رائے دینے کا حق دیا گیا ہے۔ لیکن ان کے والدین ور دیگر اقارب، ان پر اپنی مرضی مسلط کرتے ہوئے ، بے زبان جانور کی طرح ایک کھونٹے سے دوسرے کھونٹے سے باندھ دیتے ہیں۔سندھ کے دیہی علاقوں میںغیرت کے نام پر قتل کی وارداتیں اتنی عام ہوگئی ہیں کہ مرضی کی شادی کو بھی اس ’’جرم ’’ کا حصہ بنالیا گیا ہے۔والدین کی مرضی کے خلاف پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتاہے اور ان کی ہلاکت پراسرار واقعہ قرار دی جاتی ہے۔ ۔ اگراپنی پسند سےشادی کرنے والی بچی کو سزا دیتے ہوئے اس کے والدین اس سے ملنا جلنا ترک کردیں تواس کے سسرال والے اسے ’’بہو‘‘ کا درجہ دینے پر تیار نہیں ہوتے۔ شادی کے بعداس لڑکی کو اپنے سسرال والوں کی نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ اپنے والدین کی خوش نودی کی خاطر اس کا شوہر بھی اس سے نفرت آمیز رویہ اختیار کرتا ہے۔ آئے روز لڑائی جھگڑے رہتے ہیں اور نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے جب کہ دوسری صورت میں اسی کا شوہر اپنے رشتہ دار وں کے ساتھ مل کر اسے کاری قرار دے کر قتل کردیتا ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے عرصے میں اسی قسم کے بے شمار واقعات رونما ہوچکے ہیں۔

اسی قسم کا ایک واقعہ کچھ عرصے قبل پتھورو شہرمیںپیش آیا جس میں پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو بے دردی سے قتل کردیا گیاہے۔پتھورو کےایک ریٹائرڈ پولیس ہیڈ کانسٹیبل محمد رفیق راجپوت کے فرزند عبدالرشید راجپوت نے پنجاب کے شہرگوجرانوالہ میں اپنی ہی برادری کی خاتون، سونیا راجپوت سے تین ماہ قبل محبت کی شادی کی تھی۔ سونیا کے والدین اس بات سے سخت ناراض تھے۔سونیا کا بھائی عدیل راجپوت جومتحدہ عرب امارات میں ملازمت کرتاہے، اپنی بہن کی اس حرکت پر سخت مشتعل تھا اور نئےشادی شدہ جوڑے کی جان کا دشمن بن گیا۔وہ تین ماہ کی چھٹی لے کرگوجرانوالہ آیا اورپاکستان پہنچتے ہی اس نے اپنی بہن اور بہنوئی کی تلاش شروع کی۔ پتھورو میں ان کے گھر کا سراغ ملتے ہی وہ اپنے ایک دوست رضا راجپوت کے ساتھ وہاں پہنچ گیا، اور ان کے گھر پر دن دہاڑے دھاوا بول دیا۔مسلح ملزمان نے پستول سے فائرنگ کرکےسونیا راجپوت اوراس کے شوہر عبدالرشید راجپوت کو قتل کردیا۔ مقتول عبدالرشید کی بہن نسرین، اپنے بھائی کی جان بچانے کیلئے اس کی طرف دوڑی توسفاک قاتلوں نے اسے بھی گولی ماری جس سے وہ شدید زخمی ہوگئی۔

مقتولین کا گھر پولیس لائن میں واقع ہے جو پولیس اسٹیشن سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ یہ گھر اس کے والد کو پولیس کی ملازمت کے دوران ملا تھا، جو اس کی ریٹائرمنٹ کے بعد مقتول رشید کے بھائی عبدالعزیز راجپوت کو الاٹ کردیا گیا جو محکمہ پولیس میں اے ایس آئی ہے،لیکن اس کے باوجودملزمان اجتماعی قتل کی واردات کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔پولیس نے موقع واردات پر پہنچ کر مقتولین کی لاش کو اپنی تحویل میں لے لیا جب کہ زخمی لڑکی نسرین کو طبی امداد کے لیے اسپتال روانہ کیا۔ ایک پولیس پارٹی نے اے ایس آئی عبدالعزیز کے ساتھ قاتلوں کا تعاقب کیا اور مرکزی ملزم کے ساتھی رضا راجپوت کو آلہ قتل اور موٹر سائیکل سمیت گرفتار کرتیا جب کہ سونیا کا بھائی عدیل راجپوت فرار ہونے میں کامیاب ہوگیااور اب تک پولیس کی گرفت سے آزاد ہے۔ مقتول کے بھائی نے اس اجتماعی قتل پرپانچ ملزمان عدیل راجپوت، علی رضا راجپوت، اختیار شاہ ا،شتیاق شاہ، اقبال شاہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ پولیس دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے ماررہی ہے ۔

صوبے میں اس طرح کے واقعات عام ہیں، ان کی روک تھام کے لیے قاننو سازی بھی کی گئی ہے لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے انتظامیہ ان پر قابو پانے میں ناکام ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین