مسرور حسین ، باڈہ
لاڑکانہ سندھ کا وہ ضلع ہے جہاں سے دریائے سندھ کا گزر ہوتا ہے۔ اس علاقے کو کچا بھی کہا جاتا اور کچے کا بڑا رقبہ ہےاس علاقے میں میں جنگلات ہوتے ہیں ، محکمہ جنگلات کے زیر انتظام درخت اگائے جاتے ہیں مگر دیکھا جائے تو اب ایسا نہیں ہے۔ محکمے کے ملازمین علاقے کے بااثر افراد کے ساتھ مل کر درختوں کا قتل عام کرتے ہیں قیمتی لکڑی معمولی نرخوں پر فروخت کردیتے ہیں۔جنگلات کی زمین پر قبضے کے لیے خونی تصادم بھی ہوتے ہیں جن میںقیمتی انسانی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔
جنگلات قدرتی نعمت ہوتے ہیںاور کسی بھی ملک کے لئے 25 فیصد جنگلات کا ہونا لازمی ہے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جسے قدرت کی یہ نعمت ملی ہوئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگلات کسی جگہ کی آب وہوا کو تبدیل کرنے میں انتہائی اہم کردار اداکرتے ہیں۔ درختوں کے پتوں سے پانی کے بخارات ہوا میں داخل ہونے سے فضاء میں نمی کا تناسب موزوں رہتا ہے اور یہی بخارات اوپر جاکر بادلوں کی بناوٹ میں مدد دیتے ہیں، جس سے بارش ممکن ہوجاتی ہے۔
جنگلات نہ صرف انسانوں کے لئے بلکہ جنگلی حیوانات کے لئے بھی سود مند ہوتے ہیں جنہیں درختوں ہی کے باعث خوراک اور تحفظ ملتا ہے اور یہی درخت ان جانوروں کی افزائش نسل اور پرورش کے لئے جگہ بھی فراہم کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جنگلات کی کمی سے جنگلی جانوروں کی بقاء بری طرح متاثر ہوتی ہے اور ماحولیاتی نظام بھی درہم برہم ہوجاتا ہے۔جنگلات کی غیرموجودگی میں بارش اپنے ساتھ زرخیز مٹی بھی بہا کرلے جاتی ہے جس سے زمینزرعی صلاحیتوں سے محروم ہوجاتی ہے۔درختوں کی جڑیں سیلاب کی صورت میں زمین کو اسفنج کی طرح بنا دیتی ہیں۔ اس طرح زمین بہت سا سیلابی پانی روک لیتی ہے، جس سے سیلاب کے پانی کی رفتار کم ہوجاتی ہے اور وہ زمین کا کٹاؤ کرنے کے قابل نہیں رہتا اور اس طرح زمین کی زرخیزی بھی بہت حد تک ضائع ہونے سے بچ جاتی ہے۔درختوں کی جڑیں دراصل مٹی کے ذرات کو باہمی طور پر اچھی طرح جکڑ لیتی ہیں جس سے زمین نہ صرف سیلابی پانی کے کٹاؤ سے محفوظ رہتی ہے بلکہ سیلاب کے بعد ہوا کے کٹاؤ سے بھی زمین کی اوپری سطح پر موجود زرخیزی ضائع نہیں ہوتی۔ اسی طرح پہاڑی ڈھلوانوں پر بھی درختوں کی موجودگی سے ان علاقوں کی زرخیزی متاثر نہیں ہوتی۔جنگلات چونکہ سیلابی پانی کی رفتار کم کرتے ہیں اور زمین کوکٹاؤ سے بچاتے ہیں اورزمین کی زرخیزی کو قائم رکھتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ جب بھی درخت کاٹے جائیں تو خالی ہونے والی جگہ پر نئے درخت لگا دیئے جائیں، تاکہ جنگلات کا رقبہ کم نہ ہونے پائے ۔ مگر لاڑکانہ کے جنگلات کو ناپید ہونے سے بچانے کی بجائے اس کے برعکس اقدامات کیے جاتے ہیں۔محکمے کے ملازمین علاقے کے بااثر افراد کے ساتھ مل کردرخت کاٹتے ہیں اور قیمتی لکڑی ٹمبر مافیا کے ہاتھوںمعمولی قیمت پرفروخت کردیتے ہیں۔ ضلع لاڑکانہ کی تحصیل ڈوکری میں باڈہ، رادھن روڈ پر قائم’’ گھانگھرکو جنگل‘‘ جو دریا سے ہزاروں ایکڑ رقبے پر دریا سے لے کر سڑک کے دونوں اطراف باڈہ تک پھیلا ہوا جس میں لاکھوں درخت تھے،، اب وہاں درخت ناپید ہوگئے ہیں اور ان کی جگہ ویران میدان ہے جس پر قبضہ مافیا نےاپنا تسلط قائم کرلیا ہے۔ اس وسیع و عریض جنگل کے درختوں کو آگ لگائی گئی ، جس سے محکمہ جنگلات بے خبر رہا۔ بعض ذرائع کے مطابق یہ بھی مبینہ طور پرقبضہاور ٹمبر مافیا کی کارروائی ہے ۔ جنگل میں آگ لگانے سے قبل پہلے درخت کاٹ کر لے جائےگئے ، بعد میں آگ لگائی گئی ۔ اس سلسلے کی روک تھام اس لیے بھی ناممکن ہے کیوں کہ اس میں محکمہ جنگلات کے حکام بھی ملوث ہیں۔جنگلات کی اراضی پر بارسوخ قبضہ مافیانے اپنا تسلط قائم کرلیا ہےجو اسےزرعی زمین کے طور استعمال کر رہے ہیں جب کہ مبینہ طور سے سرکاری زمین کی خرید و فروخت بھی کی جارہی ہے۔ جنگلات کی اراضی پر قبضوں کی وجہ سے اکثر و بیشتر تنازعات جنم لیتے ہیں جو خون ریزی کا باعث بنتے ہیں۔ اس قسم کا ایک تنازعہ کلہوڑواور لاشاری برادری کے درمیان رونما ہوا تھا جو بڑھ کرخونی تصادم کی صورت اختیار کرگیا جس کے نتیجے میں دونوں فریقین کے سیکڑوں افراد قتل ہوچکے ہیں۔
جنگلات اجاڑنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، اور اگر اس کی روک تھام نہیں کی گئی تو بچے کھچے درخت اور پودے بھی ختم ہوجائیں گے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان ، جسٹس ثاقب نثار،اس معاملے کا ازخود نوٹس لیں اورجنگلات کی اراضی کو واگذار کرانے کے لیے فوج یا رینجرز سے آپریشن کروایا جائے تاکہ جنگلات کا حسن واپس آسکے۔