• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماسٹر اگر بچے کو مارتا تھا تو بچہ گھر آکراپنے باپ کو نہیں بتاتا تھا اور اگر بتاتا تو باپ اُسے ایک اور تھپڑ رسید کردیتا تھا۔یہ وہ دور تھا جب ”اکیڈمی“ کا کوئی تصور نہ تھا، ٹیوشن پڑھنے والے بچے نکمے شمار ہوتے تھے۔بڑے بھائیوں کے کپڑے چھوٹے بھائیوں کے استعمال میں آتے تھے اور یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔لڑائی کے موقع پر کوئی ہتھیار نہیں نکالتا تھا، صرف اتنا کہنا کافی ہوتا تھا ،میں تمہارے ابا جی سے شکایت کروں گا،یہ سنتے ہی اکثر مخالف فریق کا خون خشک ہوجاتا تھا۔اُس وقت کے اباجی بھی کمال کے تھے، صبح سویرے فجر کے وقت کڑک دار آواز میں سب کو نماز کے لیے اٹھا دیا کرتے تھے، عبادتیں ہر گھرکا معمول تھیں،کسی گھر میں مہمان آجاتا تو اِردگرد کے ہمسائے حسرت بھری نظروں سے اُس گھر کودیکھنے لگتے اور فرمائشیں کی جاتیں کہ مہمانوں کو ہمارے گھر بھی لے کرآئیں،جس گھر میں مہمان آتا تھا وہاں صندوق میں رکھے فینائل کی خوشبو دار بستر نکالے جاتے ، خوش آمدید اور شعروں کی کڑھائی والے تکیے رکھے جاتے ، مہمان کے لیے دُھلا ہوا تولیہ لٹکایا جاتااورغسل خانے میں نئے صابن کی ٹکیہ رکھی جاتی تھی ۔

جس دن مہمان نے رخصت ہونا ہوتا تھا، سارے گھر والوں کی آنکھوں میں آنسو ہوتے تھے، مہمان جاتے ہوئے کسی چھوٹے بچے کو دس روپے کا نوٹ پکڑانے کی کوشش کرتا تو پورا گھر اس پر احتجاج کرتے ہوئے نوٹ واپس کرنے لگ جاتا ، تاہم مہمان بہرصورت یہ نوٹ دے کر ہی جاتا۔ شادی بیاہوں میں سارا محلہ شریک ہوتا تھا، شادی غمی میں آنے جانے کے لیے ایک جوڑا کپڑوں کاعلیحدہ سے رکھا جاتا تھا ، جس گھر میں شادی ہوتی تھی، اُن کے مہمان اکثر محلے کے دیگر گھروں میں ٹھہرائے جاتے تھے۔ محلے کی جس لڑکی کی شادی ہوتی تھی بعد میں پورا محلہ باری باری میاں بیوی کی دعوت کرتا تھا۔ سب کا رونا ہنسنا سانجھا تھا، سب کے دُکھ ایک جیسے تھے۔

کسی کسی گھر میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہوتا تھا اور سارے محلے کے بچے وہیں جاکر ڈرامے دیکھتے تھے۔ دوکاندار کو کھوٹا سکہ چلا دینا ہی سب سے بڑا فراڈ ہوتا تھا۔کاش پھر سے وہ دن لوٹ آئیں" -

(اقرا ناز )

تازہ ترین