حیدرآباد، لاڑکانہ(بیورو رپورٹ، این این آئی)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ قانونی اصلاحات کی ضرورت ہے ،امید ہےجو بھی آئے گا وہ اپنی ذمے داری پوری کریگا، پارلیمنٹ کا بنیادی مقصد قانون بنانا ہے، آپ کہتے ہیں کرپشن ختم کرنی ہے، لیکن قانون میں کوئی ترمیم نہیں کی،عدلیہ میں مزید بہتری آنی چاہیے، میں نے اپنا ایک سال اپنے ملک کے لیے وقف کردیا، کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں، ہر از خود نوٹس کے پیچھے وجہ ہوتی ہے، عدلیہ میں مزید بہتری آنی چاہیے، آج پیدا ہونے والا ہر بچہ ایک لاکھ 17؍ ہزار کا مقروض ہے، ہم وراثت میں آئندہ نسلوں کو یہ دیکر جارہے ہیں ، ہماری آنے والی پانچ نسلیں مقروض ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتے کو حیدرآبادہائیکورٹ بار کے عشائیہ سے خطاب اور لاڑکانہ ہائیکورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ قبل ازیں چیف جسٹس نے چانڈکا اسپتال کا دورہ کا کیا اسپتال کی حالت زار دیکھ کر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو کے شہر کے اسپتال کا یہ حال ہے تودوسرے شہروں کے اسپتالوں کا کیا حال ہوگا۔چیف جسٹس نے وہاںمریضوں کی شکایات بھی سنیں، اسپتال میں کچرے کے ڈھیر دیکھ کر ایم ایس اورمیئر کی سرزنش کی۔ حیدرآباد بار کے عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ملک آپ کی ماں ہےاورآپ کا فرض ہےاس ماں کی خدمت کریں،چیف جسٹس اتنا کمزورنہیں کہ تقریب سےاٹھ کرچلاجائے،دن سےسندھ میں ہوں،پیارمحبت، احترام ملا،بڑےپیاراورمحبت سےمجھےبلایاگیا،آنےکاوقت آج ہی نصیب ہوا۔ قبل ازیں لاڑکانہ میں ہائیکورٹ بار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہےکہ ہر ازخود نوٹس کے پیچھے وجہ ہوتی ہے اس کا واحد مقصد مسائل کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے کسی سیاسی جماعت کو نشانہ نہیں بنارہا ملکی مسائل پر خاموش نہیں رہ سکتا اور عدالت میں جتنی درخواستیں آرہی ہیں وہ انتظامی ناکامی کی وجہ سے ہیں، اسپتالوں کے دوروں کا مقصد زندگیاں بچانے کیلئے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم کوئی محتاج لوگ نہیں جن کے حقوق کے تحفظ کیلئے کوئی نہیں اٹھتا تو عدلیہ بھی خاموش رہے، جوڈیشل سسٹم کا مقصد انصاف دینا ہوتا ہے اور ایسا نہیں کہ عدلیہ مسائل پر خاموش رہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آج عدلیہ پر جو بوجھ اکٹھا ہوا اس میں کسی سیاسی جماعت کو نشانہ نہیں بنارہا، عدالت میں جتنی بھی درخواستیں آرہی ہیں وہ انتظامی ناکامی کی وجہ سے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ تعلیم کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عدالتی کارروائی کے دوران موبائل فون استعمال کرنے پر ایڈیشنل سیشن جج کا تبادلہ کردیا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں بڑے مسائل دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پانی کا بحران دور کرنے کیلئے سخت جدوجہد کی ضرورت ہے، مستقبل میں اسے سنبھالا نہیں جاسکے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ ماحول کا تحفظ اور صاف پانی کی فراہمی ناگزیر ہے، صاف پانی کے معاملے پر امیرہانی مسلم کے اقدامات قابل تعریف ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کا ہر پیدا ہونے والا بچہ ایک لاکھ 17 ہزار روپے کا مقروض ہے۔ازخود نوٹسز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر ازخود نوٹس کے پیچھے وجہ ہوتی ہے، جبکہ ان نوٹسز کا واحد مقصد حقوق کی آگاہی ہے۔ سندھ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ کے لوگوں کو مستقبل میں اچھی صحت سے محروم ہونے کا خدشہ ہے، اسپتالوں میں آلات، دواؤں اور ورک فورس کے معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔انہوں نے کہا کہ آلودگی بھی براہِ راست انسان کے زندہ رہنے کے بنیادی حق سے وابستہ ہے۔ اسپتالوں کے دوروں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسپتالوں کے دورے لوگوں کی زندگیاں بچانے کیلئے ہیں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ عدالتی نظام کا مقصد انصاف دینا ہوتا ہے، وکلا کا انصاف کی فراہمی میں اہم کردار ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بار اور بینچ ایک جسم کا حصہ ہوتے ہیں، جنہیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے لاڑکانہ کے چانڈکا اسپتال کی حالت زار دیکھ کر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو کے شہر کے اسپتال کا یہ حال ہے تودوسرے شہروں کے اسپتالوں کا کیا حال ہوگا۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار سندھ کے دورے پر لاڑکانہ پہنچے، چانڈکا ٹیچنگ اسپتال گئے تو وہاں صفائی کے ناقص انتظامات تھے چیف جسٹس نے لیبارٹری کی صورتحال دیکھی تو برہم ہوگئے، اسپتال میں کچرے کے ڈھیر دیکھ کر ایم ایس اور میئر کی سرزنش کی۔چیف جسٹس نے مختلف وارڈز کا بھی دورہ کیا، مریضوں کی عیادت کی اور ان کی شکایات بھی سنیں، چانڈکا ہسپتال کے باہر سائلین کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔ ایک خاتون نے بیٹے کیس کی شنوائی نہ ہونے پر چیف جسٹس کے سامنے احتجاج کیا۔احتجاج کرنیوالی خاتون کو پولیس اہلکاروں نے دھکے دیئے تو چیف جسٹس برہم ہوگئے۔ علاوہ ازیں کیس کی شنوائی نہ ہونے پر خاتون نے چیف جسٹس کے سامنے احتجاج کیا اور کہا شوہر کے انتقال کے بعد دیور نے جھوٹا مقدمہ کرایا، پولیس نے تحقیقات کے بعد بے گناہ قرار دے دیا، جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت 7 ماہ سے کیس سمری منظور نہ کر رہی، جس پر چیف جسٹس نے معاملہ حل کرنے کا حکم دے دیا۔جبکہ قبرستان پر بااثر افراد کے قبضے کے معاملے پر چیف جسٹس نے فوری احکامات جاری کئے اور ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ کو فوری قبضہ وا گزار کرانے کا حکم بھی دیا۔ علاوہ ازیں ہفتے کو چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار میہڑ پہنچےجہاں انہوں نے میہڑ تحصیل کےفرید آبا د کے علاقے میں چھنڈن شاخ، دھامراہ واہ ، ایم این وی ڈرین اور ماڈو شاخ کا دورہ کیا۔ اس موقع پر آباد گاروں نے پانی کی قلت کے حوالے سے احتجاج بھی کیا ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آباد گاروں کو پانی ملنا چاہیے، یہ انکا حق ہے اور منچھر جھیل میں بھی میٹھا پانی جانا چاہیے۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر واٹر کمیشن کے سربراہ امیر ہانی مسلم اور ڈی سی دادو کو کہا کہ وہ پانی کے مسئلے کو دیکھیں۔ دوسری طرف چیف جسٹس آف پاکستان کی میہڑ تحصیل اسپتال کے دورے کے امکانی آمد پر 2007 کے اساتذہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز نے اپنی بحالی کیلئے احتجاج کیا۔ جبکہ خیر پور ناتھن شاہ میونسپل کمیٹی کے ملازمین نے بھی تنخواہیں نہ ملنے پر احتجاج کیا اور لاپتا ہونے والے ننگر چنا کے اہل خانہ اور رشتہ داروں نے بھی اسکی بازیابی کیلئے احتجاج کیا۔