کراچی (اسٹاف رپورٹر) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے لاپتہ شہریوں کی بازیابی کیلئے خصوصی سیل قائم کرنے کا حکم دیتےہوئےاپنی آبزرویشن میں کہاہے کہ یقین ہے میری ایجنسیوں نے انہیں نہیں اٹھایاہوگا، اگر نہیں اٹھایاتو تلاش کرنا بھی انہی کی ذمہ داری ہے، اللہ کرے مسنگ پرسن میں شامل تمام افراد زندہ ہوں، اگر انہیں کچھ ہوگیا تو بھی انکے پیاروں کو آگاہ کیا جائے ہوسکتا ہے انہیں صبر مل جائے، عدالتی آداب سے ناواقف اہل خانہ کے رویے دیکھ کر چیف جسٹس نے ناراضگی کا اظہاربھی کیا اورکارروائی چھوڑ کر چلے گئے تاہم تھوڑی دیر بعد پھر سے آکر سماعت کی۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس نے لاپتہ شہریوں کی بازیابی کیلئے کراچی رجسٹری میں اتوار کو عدالت لگائی تو شہریوں کی بڑی تعداد چیف جسٹس کے سامنے پیش ہونے کیلئے گھروں سے نکل آئی تاہم سیکورٹی کے سخت انتظامات کے پیش نظر شاہین کمپلیکس تا فوارہ چوک تک سڑک کو رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کررکھا تھا جہاں لاپتہ شہریوں کے اہل خانہ کے پہنچنے پر سیکورٹی اہلکاروں نے آگے جانے سے روکدیا، اہل خانہ کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ انہیں اجازت دی جائے کہ وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوکر اپنی درخواستیں جمع کرانا چاہتے ہیں لیکن انہیں اجازت نہ دی گئی۔ اس موقع پر عدالتی اسٹاف اہل خانہ کے پاس آیا اورلاپتہ افراد سے متعلق درخواستیں جمع کرلیں اور درخواست گزاروں کو عدالتی حدود میں بلا لیا گیا جسکے بعد چیف جسٹس اوپن کورٹ میں سماعت شروع کی۔ اس موقع پرایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ، آئی جی سندھ سمیت دیگر حکام بھی موجود تھے۔چیف جسٹس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لاپتہ افراد کیلئے خصوصی سیل قائم کرنے کا حکم دیدیاجہاں شہریوں کی شکایات تحریری طورپر سنی جائیں اور انہیں معلومات فراہمی سے لیکر انکے مسائل کو حل کیا جائے۔ اس دوران کمرہ عدالت میں جذباتی مناظر بھی دیکھے گئے اورلاپتہ افراد کے اہل خانہ نے شکایات کے انبار لگا دیئے اور حساس اداروں کے نمائندوں کو مخاطب کرکے الزامات لگاتے رہے،کمرہ عدالت میں اہل خانہ کے پچاس سے زائدافراد موجود تھے جن میں اکثریت خواتین کی شامل تھی عدالتی آداب سے ناواقف اہل خانہ نے جذباتی ہوگئے اور ہر کوئی ایک ساتھ ہی اپنے مسائل بیان کرنے لگ گئےایک خاتون جو روسٹرم پر موجود تھی اس نے ڈائس پر زور زور سے ہاتھ مار کر قانون نافذ کرنےوالے اہلکاروں کیخلاف شکایت کی اس دوران پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو خاتون نے پولیس آفیسر کو بھی دھکے دیکر پیچھے کردیا۔ کمرہ عدالت میں عدالتی تقدس پامال ہونے پر چیف جسٹس سخت ناراض ہوئے اور اہل خانہ کے رویئے پر چیف جسٹس نہ صرف برہم ہوئے بلکہ عدالت سے اٹھ کر چلے گئے۔تاہم تھوڑی دیر وقفہ کے بعد چیف جسٹس کی دوبارہ کمرہ عدالت میں آمدہوئی۔کمرہ عدالت کا ماحول ٹھیک ہوا تو درخواست گزارنیلم آریجونے بتایاکہ کہ اس کے والد خادم حسین آریجو چودہ ماہ سے لاپتا ہیں کوئی ادارہ تعاون نہیں کررہا والد کے لاپتہ ہونے سے زندگی اجیرن ہوگئی ہے میرے والد کو بازیاب کرایاجائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس میںکہاکہ مجھے لاپتہ شہریوں کے اہل خانہ کی حالت زاردیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ،اللہ کرے یہ تمام افراد زندہ ہوںلیکن پھرلوگوں کو یہ پتا چل جائےکہ انکے پیاروں سے ساتھ اگرکوئی حادثہ ہوگیا ہےتو شاید صبر آجائے۔چیف جسٹس نے کہاکہ مجھے یقین ہے میری ایجنسیوں نے انہیں نہیں اٹھایا ہوگااوراگر ان اداروں نے نہیں اٹھایا تو تلاش کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس نے 30 سے زائد درخواستیں وصول کرتے ہوئے قانون نافذکرنےوالے اداروں کو کارروائی کا حکم دیا اور سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ قبل ازیں لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی جانب سے احتجاج کے دوران جبران ناصر نے لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو قومی اداروں کیخلاف اکسانے کی کوشش کی اور اہل خانہ قومی اداروں کے خلاف نعرے بھی لگوائے،اہل خانہ کی آمد نے جب مظاہرے کی شکل اختیارکی تو رکاوٹیں توڑتے ہوئے سپریم کورٹ کے مرکزی دروازے سامنے پہنچ گئےاور رجسٹری کے باہر احتجاج شروع کردیا،اس دوران اہل خانہ کے افراد نے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ چیف جسٹس ہمارے پیاروں کو بازیاب کروائیںہم اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے چیف جسٹس سے فریاد کر رہے ہیں،اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے ہر فورم سے ہمیں مایوسی ہوئی ہے،ہم کس کے در پر جائیں، ہر انصاف دینے والے ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا اگر ہمارے بچے اگر مر گئے تو ہمیں بتایا جائے، ہمارے بچے سالوں سے لاپتہ ہے ہمیں ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔